انتخابی قوانین اور شہباز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس

مزمل سہروردی  منگل 22 جون 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ایک طرف حکومت نے اپنی انتخابی اصلاحات کے قوانین قومی اسمبلی سے منظور کروا لیے ہیں۔ دوسری طرف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ان انتخابی قوانین کو روکنے کے لیے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا لی ہے۔الیکشن کمیشن نے بھی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی سے منظور کروائے جانے والے قوانین کے خلاف اپنی رائے دے دی ہے۔

الیکشن کمیشن کی رائے نے شائد حزب اختلاف کو حوصلہ دیا ہے۔ ورنہ اس حوالہ سے اپوزیشن خود کو ایک بند گلی میں ہی محسوس کر رہی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ اپوزیشن کے شدید دباؤ میں اسپیکر قومی اسمبلی نے ان قوانین پر جو قومی اسمبلی سے منظور ہو چکے ہیں پر ایک نظر ثانی کمیٹی بھی بنانے کا اعلان کیا ہے۔

ان قوانین کی قومی اسمبلی سے منظوری کے خلاف اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف ایک تحریک عدم اعتماد بھی جمع کروائی تا ہم نظرثانی کمیٹی بننے پر تحریک عدم اعتماد واپس لے لی گئی۔ تاہم حکومتی وزراء نے بعدازاں نظر ثانی کمیٹی کے خلاف بیان دے دیے۔

انتخابی قوانین ایک حساس معاملہ ہے ۔ اس پر سولو فلائٹ نہ تو ملک اور نہ ہی جمہوریت کے مفاد میں ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی انتخابات میں دھاندلی ایک حساس معاملہ ہے۔ ایسے میں ایک سیاسی جماعت چاہے وہ حکومت میں ہی ہے کی جانب سے یک طرفہ قانون سازی ملکی مفاد میں قرار نہیں دی جا سکتی۔ مذکورہ سیاسی جماعت انتخابات میں ایک فریق اور ایک کھلاڑی کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس لیے کوئی بھی ایک فریق، ایک کھلاڑی کھیل کے قوانین ازخود بنا کر باقی فریقین اور کھلاڑیوں کو کھیلنے کا نہیں کہہ سکتا۔ اس طرح تو جو بھی سیاسی جماعت حکومت میں آئے گی وہ اپنی مرضی کے انتخابی قوانین بنا لے گی تا کہ وہ اگلا انتخاب جیت سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ درست نہیں ہے۔ بے شک حکومت کے پاس عددی اکثریت ہے لیکن پھر بھی حکومت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ انتخابی قوانین تمام فریقین کے ساتھ مل کر ہی بنائے جا سکتے ہیں۔ آپ کا موقف جتنا بھی جائز ہو پھر بھی اتفاق رائے واحد راستہ ہے۔ حکومت کی سولو فلائٹ جمہوریت کی بنیادی روح کے منافی ہے۔لیکن شائد حکومت کو ابھی اس کا احساس نہیں ہے۔

یہ درست ہے کہ حکومت نے بار بار اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دی تاہم اپوزیشن نے پاکستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب اپوزیشن حکومت کی بار بار دعوت کے باوجود بات چیت کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ تو حکومت کے پاس کیا آپشن تھا۔ میںسمجھتا ہوں پھر بھی حکومت کو یک طرفہ قوانین نہیں منظور کرنے چاہیے تھا۔

پھر قومی اسمبلی میں ان قوانین پر تقاریر کو روکنا بھی کوئی اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔ اگر اپوزیشن کو تقاریر کرنے کی اجازت دے دی جاتی پھر بھی ان کی منظوری کا کوئی قانونی جواز بن جاتا لیکن اپوزیشن کو بات نہ کرنے دیکر کوئی جمہوریت کی خدمت نہیں کی گئی۔اس لیے ان انتخا بی اصلاحات کو منظورکروا کر بھی حکومت نے اپنی طاقت دکھائی ہے۔ لیکن پھر بھی حکومت ایک کمزور پوزیشن میں ہی ہے۔

الیکشن کمیشن نے حکومت کے ان تمام قوانین کو مکمل طور پر مسترد کر کے ان قوانین کے خلاف نہ صرف پریس ریلیز جاری کی ہے بلکہ باقاعدہ حکومت کو خط بھی لکھا ہے کہ قانون سازی قانون سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔الیکشن کمیشن کے دو ٹوک موقف نے حکومت کی پوزیشن کی مزید کمزور کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بے شک اپوزیشن حکومت کے ساتھ بات نہیں کر رہی تھی لیکن حکومت الیکشن کمیشن کے ساتھ بات تو کر سکتی تھی۔

کم از کم الیکشن کمیشن سے تو انڈر اسٹینڈنگ بنائی جا سکتی تھی۔ ویسے تو اپوزیشن نے حکومت کو دعوت دی تھی الیکشن کمیشن کے پاس بات کر لیتے ہیں۔ لیکن حکومت کا موقف تھا کہ الیکشن کمیشن کوئی فورم نہیں جہاں بات چیت کی جائے۔ لیکن اب الیکشن کمیشن کے تحفظات کے بعد یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ الیکشن کمیشن نہ صرف درست فورم ہے بلکہ الیکشن کمیشن ایمپائر ہے اور انتخابات کروانے کا ذمے دار ہے۔ اس لیے اس کو مائنس کر کے کسی بھی قسم کی قانون سازی چل نہیں سکتی۔

اس ساری صورتحال میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلوائی ہے۔ اپوزیشن کی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) نے بھی شہباز شریف کی اس آل پارٹیز کانفرنس کی حمایت کی ہے۔ بلاول اور مولانا فضل الرحمٰن نے اس آل پار ٹیز کانفرنس میں شرکت میں آمادگی بھی ظاہر کر دی ہے۔

یہ بھی خبریں آئی ہیں کہ حکومت کو نہیں بلایا جائے گا۔ میری رائے میں اپوزیشن کو تحریک انصاف سمیت حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو بلانا چاہیے۔ لیکن پھر بھی اگر ملکی سیاسی درجہ حررات کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک انصاف کو بلانا ممکن نہیں تو کم از کم حکومتی اتحاد کی باقی جماعتوں کو ضرور بلایا جائے۔ اس سے اس آل پارٹیز کانفرنس کی افادیت بڑھ جائے گی۔

میں نے مختلف قانونی ماہرین سے بات کی ہے۔ ان کے مطابق قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے باوجود یہ قوانین ابھی قانون نہیں بنے ہیں۔ جب تک سینیٹ ان کو منظور نہ کرے تب تک یہ قوانین مکمل قانون نہیں بن سکتے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے اس لیے اپوزیشن سینیٹ میں ان قوانین کو روکنے کی پوزیشن میں ہے۔ویسے بھی سینیٹ کی پارلیمانی امور کی کمیٹی کی سربراہی پیپلزپارٹی کے تاج حیدر کے پاس ہے۔

اس لیے اس بل کو وہاں روکا جا سکتا ہے۔ وہاں اس میں ترامیم کی جا سکتی ہیں۔ پھر سینیٹ اس کو مسترد بھی کر سکتی ہے۔ اس لیے حزب اختلاف ابھی اس کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کرے گی بلکہ سینیٹ میں ہی روکے گی۔ عدالت بھی کہے گی ابھی سینیٹ میں زیر التوا ہے۔ اس لیے سینیٹ کے بعد ہی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے۔ فی الوقت سینیٹ پر ہی فوکس ممکن ہے۔

اس لیے یہ انتخابی قوانین سینیٹ سے مسترد ہو جائیں گے۔ لیکن حکومت کے پاس پھر بھی راستہ موجود رہے گا۔ حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلوا کر بھی یہ قانون پاس کروا سکتی ہے۔ اس لیے اگر حکومت مکمل  طور پر یہ قانون سازی پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی ٹھان لے گی تو پھر یہ قوانین پاس ہو جائیں گے۔ تاہم پھر بھی حکومت کی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔

الیکشن کمیشن کی رائے کہ یہ انتخابی اصلاحات سادہ قانون سازی سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہے۔ اس لیے اگر حکومت نے سولو فلائٹ بند کی تو یہ معاملہ ایک دن عدالت میں پہنچ جائے گا۔ اپوزیشن بھی ایک طرف اس کو سینیٹ میں روکنے کی کوشش کرے گی دوسری طرف عدالت جانے کی بھی تیاری کرے گی۔ اس لیے یہ اے پی سی اہم ہو گی کیونکہ اس میں آگے کی مشترکہ حکمت عملی طے ہو گی۔

میں اب بھی سمجھتا ہوں پاکستان میں اگر جمہوری نظام چلنا ہے تو پھر صاف و شفاف انتخابات کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ تمام فریقین کو ایسی انتخابی اصلاحات لانا ہو نگی جن سے صاف شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے تاہم انتخابی عمل کو مزید مشکوک بنانا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ اس سے جمہوری نظام مزید کمزور ہوگا۔ اگر ایک لمحہ کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ ان انتخابی قوانین سے تحریک انصاف اگلا انتخاب جیت لے گی تو پھر بھی یہ جیت کوئی جیت نہیں ہو گی۔ ایسی کوششیں ماضی میں بھی درست ثابت نہیں ہوئی ہیں۔

ان کے ماضی میں بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ اس لیے اب بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ حکومت کو اتفاق رائے پید اکرنے کی طرف قدم بڑھانا ہو گا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ماضی میں بھی اتفاق رائے پیدا کیے ہیں۔ اس لیے اب بھی ممکن ہیں۔ بہرحال شہباز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس ایک اچھی کاوش ہے۔ اس سے کم از کم اپوزیشن میں تو اتفاق رائے ہو جائے گا۔ جب سب اپوزیشن ایک بات پر متفق ہو جائے گی۔ تو پھر حکومت کے لیے سولو فلائٹ مزید مشکل ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔