لاہور کی مائی موراں مسجد جسے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعمیرکروایا

آصف محمود  منگل 22 جون 2021
مائی موراں کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں کی گئی تھی فوٹو: ایکسپریس

مائی موراں کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں کی گئی تھی فوٹو: ایکسپریس

 لاہور: سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ سے متعلق کہاجاتا ہے کہ اس نے اپنے دور میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں اورمسلم حکمرانوں کی یادگاروں کو شدید نقصان پہنچایا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ کے قریب پاپڑ منڈی میں موجود یہ چھوٹی سے مسجد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تعمیرکروائی تھی۔ اس مسجد کومائی موراں مسجد کہا جاتا ہے۔

مائی موراں انتہائی خوبصورت اورماہررقاصہ ہونے کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ اورانسان دوستی میں بھی کمال تھیں، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مائی موراں سے شادی کرکے اسے مہارانی اورموراں سرکارکالقب دیااوراس کے نام کاسکہ بھی جاری کیا گیا۔

گورنمنٹ کالج لاہورکے پروفیسر اورتاریخ دان کلیان سنگھ کلیان کہتے ہیں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت بین المذاہب ہم آہنگی کی مثال تھی ،ان کے اہم وزرااورکمانڈروں میں مسلمان، مسیحی اورہندوشامل تھے۔ لاہور میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لئے جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور پرحکومت قائم کی تومسلمانوں کی مشاورت سے یہاں تین اہم کام کئے ،پہلا کام یہ تھا کہ سرکاری زبان عربی اورفارسی برقراررکھی گئی، دوسری اہم فیصلہ مدارس میں تعلیم بھی عربی اورفارسی میں برقراررہی اورسب سے اہم یہ کہ مسلمان قاضی مقرر کیا گیا جو فیصلے اسلامی شریعت کے مطابق کرتا تھا۔

پروفیسرکلیان سنگھ کلیان کہتے ہیں مائی موراں چونکہ خوبصورت اورذہین خاتون تھیں اس لئے مہاراجہ رنجیت سنگھ کوپسند آگئیں اورانہوں نے اس سے شادی کرلی، اس وجہ سے سری اکال تخت صاحب جوسکھوں سے سب سے اہم مذہبی منصب ہے ان کی طرف سے مہاراجہ رنجیت سنگھ کوایک مسلمان خاتون سے شادی کرنے اورتعلق رکھنے کے جرم پرکوڑے مارے گئے تھے۔

پروفیسرکلیان سنگھ کلیان کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے مسجد کی تعمیر کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے اس سے قبل سکھوں کے پانچویں گورو ارجن دیوجی نے گولڈن ٹمپل کی کے سنگ بنیاد کے لئے جب لاہورسے حضرت سائیں میاں میرؒ کوامرتسرآنے کی دعوت دی توان کے وہاں پہنچنے سے قبل گولڈن ٹمپل کے ساتھ مسجد تعمیر کی گئی اس مسجد کوسنہری مسجد کہاجاتا ہے جو آج بھی موجود ہے، اسی طرح سکھوں کے چھٹے گوروہرگوبندصاحب نے مسلمانوں کے لئے مسجد تعمیرکروائی جسے گوروکی مسجد کہا جاتا ہے اوراسے عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔ اس لئے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے مسجد کی تعمیرکوئی عجوبے کی بات نہیں ہے۔

تاریخی روایات کے مطابق مائی موراں نے اپنے گناہوں سے تائب ہوکر مہاراجہ رنجیت سنگھ کوکہہ کریہ مسجد تعمیرکروائی ، مسجد کی چھت سمیت کئی حصے آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں جبکہ چندحصے تبدیل کئے جاچکے ہیں۔مائی موراں مسجد کے خطیب محمدفاروق نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا وہ گزشتہ 20 سال سے یہاں بطورامام اورخطیب ذمہ داری نبھارہے ہیں۔ اس مسجد کے مرکزی گنبد اورمینارسمیت کئی حصے آج بھی اپنی اصلی حالت میں ہیں، مسجد کے اندرخوبصورت کام کیاگیاہے تاہم وقت کے ساتھ یہاں کئی تبدیلیاں بھی آئی ہیں اورمسجد میں توسیع بھی کی جاچکی ہے۔

محمد فاروق کہتے ہیں کہاجاتا ہے کہ یہ مسجد مائی نوراں ایک طوائف عورت کے نام سے منسوب ہے۔ اس عورت کوجب اللہ تعالی نے گناہوں سے توبہ کی توفیق دی تواس نے یہ مسجد بنوادی ،اللہ تعالی کی ذات غفور ورحیم ہے ، وہ سب کومعاف کرنے والی ہے ،ممکن ہے مائی موراں کی اس نیکی کواللہ تعالی پسندفرمائیں اوراس کی مغفرت ہوجائے

تاریخی روایات کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنااکثروقت مائی موراں کے کوٹھے پرگزارتے اوریہاں سے حکم نامے جاری کرتے تھے جوآج بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ اس مسجد کے علاوہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مائی موراں کے لئے لاہور اورامرتسرکے درمیان ہنسالی نہرپرایک پل بھی تعمیرکروایاجسے پل کنجری کہاجاتا ہے تاہم اب اس کانام تبدیل کرکے موراں پل کردیا گیا ہے۔

پنجاب پرحکمرانی کرنیوالی مائی موراں 1862 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی ، کہاجاتا ہے کہ اس کی تدفین لاہورکے میانی صاحب قبرستان میں حضرت طاہربندگی ؒ کے مزارکے قریب کی گئی تھی تاہم اس کی قبرکی درست شناخت کسی کومعلوم نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔