جہانگیر ترین اور وزیر اعظم کے درمیان کب کب، کیا کیا رونما ہوا؟

رضوان آصف  بدھ 23 جون 2021
سینیٹ الیکشن ہونے تک عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان واٹس ایپ پر ’’محدود‘‘ رابطہ بحال تھا۔

سینیٹ الیکشن ہونے تک عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان واٹس ایپ پر ’’محدود‘‘ رابطہ بحال تھا۔

 لاہور: وزیر اعظم عمران خان اور ان کے سابق دوست جہانگیر خان ترین کے درمیان دوستانہ تعلقات کا آغاز 2002 ء میں اس وقت ہوا جب جہانگیر ترین مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے جبکہ عمران خان تحریک انصاف کے لیڈر کے طور پر اسمبلی میں آئے۔

2002 ء کے الیکشن کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس وقت جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایک پالیسی طے کی تھی کہ تمام سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین کو ’’کامیاب‘‘ کروا کر قومی اسمبلی میں لایا جائے گا۔ 2011 ء میں جب عمران خان نے مینار پاکستان پر تاریخی جلسہ منعقد کیا تو اس سے قبل ان کی جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت کیلئے بات چیت ہو رہی تھی۔

جہانگیر ترین ایک پریکٹیکل شخص ہیں چنانچہ انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ ملک بھر میں تحریک انصاف کی تنظیم سازی کی اور اسے مضبوط بنا کر عمران خان کا دل جیت لیا ۔ شمولیت کے کچھ عرصہ بعد ہی انہیں تحریک انصاف میں عمران خان کے بعد نمبر ٹو کی پوزیشن حاصل ہو گئی تھی اور وہ اس قدر مضبوط اور با اثر ہو گئے کہ10 سال تک جاوید ہاشمی ، شاہ محمود قریشی، سیف اللہ نیازی جیسے رہنما بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ پائے۔

2018 ء میں تحریک انصاف نے الیکش جیتا تو عمران خان نے اعظم خان کو اپنا پرنسپل سیکرٹری بنانے کا ارادہ کیا تو جہانگیر ترین  نے مخالفت کی کیونکہ ان کا موقف تھا کہ پرنسپل سیکرٹری ایسا بیوروکریٹ ہونا چاہئے جسے چاروں صوبوں میں ملازمت کا تجربہ ہو ۔ اعظم خان کی تعیناتی کی مخالفت نے جہانگیر ترین کے خلاف محاذ کی بنیاد رکھی۔

اپنی تعیناتی کے فوری بعد اعظم خان نے پولیس سروس سے تعلق رکھنے والے اپنے دوست ڈاکٹر سلیمان کی ملاقات وزیر اعظم عمران خان سے کروائی اور یوں ڈاکٹر سلیمان کو ڈی جی انٹیلی جنس بیورو تعینات کر دیا گیا اور آج کے دن تک وہ اپنے عہدے پر مضبوطی سے قائم ہیں اور اب تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وزیرا عظم حکومتی و سیاسی امور میں صرف اور صرف آئی بی کی رپورٹس پر رائے سازی اور فیصلہ سازی کرتے ہیں۔

جہانگیر ترین اور ان کے گروپ کا مضبوط اور بر ملا موقف ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ اعظم خان اور شہزاد اکبر کی وجہ سے ہو رہا ہے، انٹیلی جنس بیورو کے ذریعے خودساختہ اور من گھڑت رپورٹس تیار کروا کر وزیر اعظم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں جن پر وزیر اعظم یقین کر کے مزید بدگمان ہو جاتے ہیں ۔ جہانگیر ترین مختلف مواقع پر بتا چکے ہیں کہ شوگر سکینڈل میں ان کا نام ایک سازش کے تحت شامل کیا گیا اور پھر انہیں سب سے بڑا ٹیکس اور سبسڈی چور بنا کر وزیر اعظم کے سامنے پیش کیا گیا۔

وزیر اعظم کو ایسی ٹیلی فون ریکارڈنگز سنائی گئیں جن میں ترین فیملی مبینہ طور پر خاتون اول کے بارے تنقیدی ریمارکس دے رہی تھی، اس سب کے باوجود عمران خان کو جہانگیر ترین سے دور کرنا آسان نہیں تھا ، یہاں تک کہ جب جہانگیر ترین نے وزیر اعظم عمران خان کو بتایا کہ انہیں ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ شہزاد اکبر ان کے خلاف ایف آئی اے میں مقدمہ درج کرنا چاہتے ہیں تو وزیر اعظم نے بہت مضبوطی سے کہا کہ’’ بے فکر رہو ایسا نہیں ہوگا‘‘ ۔

جب پہلی ایف آئی آر درج کی گئی اور جہانگیر ترین نے اس کی کاپی اپنے ’’دوست‘‘ عمران خان کو واٹس ایپ پر بھیجی تب بھی عمران خان کا ردعمل یہ تھا کہ ’’یہ ناممکن ہے‘‘ ، پھر کچھ دن بعد وزیر اعظم نے ترین کو بتایا کہ شہزاد اکبرکا کہنا ہے کہ شوگر سکینڈل میں شہباز شریف اور حمزہ سمیت بعض دوسرے افراد کے خلاف بھی کارروائی ہونی ہے لہذا یہ مقدمہ درج کرنا ’’ضروری‘‘ تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب دو مزید مقدمات درج ہوئے تب جہانگیر ترین نے اپنے سابق دوست سے شکوہ کرنے کی بجائے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔

اینٹی ترین لابی نے یہاں بھی ایک وار کیا اور وزیرا عظم کو بتایا گیا کہ ترین اور شہباز شریف نے ایک ساتھ ضمانت کروائی ہے ۔ سازشی تھیوری اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ تھی کہ جہانگیر ترین کے وکلاء نے بھرپور تیاری کے بعد جیسے ہی ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی تو فوری طور پر میاں شہباز شریف کے وکیل نے بھی درخواست دائر کر دی چونکہ معاملہ شوگر سکینڈل کا ایک ہی تھا چنانچہ عدالت نے دونوں درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔

سینیٹ الیکشن ہونے تک عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان واٹس ایپ پر ’’محدود‘‘ رابطہ بحال تھا لیکن سینیٹ الیکشن میں وزیر اعظم کو یہ خفیہ رپورٹس پیش کی گئیں کہ جہانگیر ترین، یوسف رضا گیلانی کو کامیاب کروانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں ، تمام سیاسی حلقوں کو معلوم ہے کہ جہانگیر ترین اور حفیظ شیخ آپس میں بہترین دوست ہیں اور جہانگیر ترین کی وجہ سے ہی حفیظ شیخ کو اسد عمر کی جگہ وفاقی وزیر خزانہ بنایا گیا تھا لہذا ترین نے حفیظ شیخ کیلئے ہی سینیٹ الیکشن میں ووٹ مانگے تھے۔

ترین گروپ قائم ہوا تو ایک مرتبہ پھر یہ خفیہ رپورٹس دی گئیں کہ شاید کسی قسم کا مالی فائدہ دیکر لوگوں کو ساتھ شامل کیا گیا ہے حالانکہ جو لوگ شامل ہوئے ہیں وہ برسہا برس سے سیاست میں ہیں اور کئی مرتبہ منتخب ہو چکے ہیں۔ ان سب کو بخوبی معلوم ہے کہ آئندہ الیکشن میں انہیں تحریک انصاف کا ٹکٹ نہیں ملے گا لیکن وہ سب کشتیاں جلا کر ترین کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اور بہت سے اراکین کے اس اقدام کو ان کے حلقوں میں ووٹرز کی جانب سے سراہا گیا ہے۔

فی الوقت ترین گروپ اور حکومت میں ’’سیز فائر‘‘ ہے لیکن یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہے گا۔ ’’بادشاہ گروں‘‘ نے مستقبل کیلئے صف بندی شروع کر دی ہے، سیاسی حلقوں میں 2022 ء میں الیکشن ہونے کے قوی امکانات کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں ، پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری لاہور میں ڈیرے ڈال چکے ہیں اور وہ جنوبی پنجاب سے کم ازکم 10 تا15 قومی نشستوں کے حصول کی تیاری کر رہے ہیں ۔

تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کی بہت بڑی تعداد آئندہ الیکشن لڑنے کیلئے متبادل آپشنز پر غور کر رہی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ تین سالہ حکومتی کارکردگی کی وجہ سے عوام بیزار ہو چکے ہیں اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن جیتنا نہایت مشکل ہوگا ۔

تحریک انصاف کی قیادت کو بھی عوام کی ناراضگی کا اندازہ ہے اسی لئے طویل عرصہ سے اوور سیز پاکستانیوں کے ووٹ بنک کو سمیٹنے کیلئے اقدامات کیئے جا رہے ہیں ، پی ٹی آئی سمجھ رہی ہے کہ جتنے ووٹ یہاں سے کم ہوں گے اتنا وہ اوورسیز سے حاصل کر لے گی لیکن مشکل یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں مقیم اوور سیز پاکستانیوں کی تعداد کم ہے اور بلا شبہ وہ لوگ عمران خان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے ہیں لیکن اوور سیز کی زیادہ تعداد مڈل ایسٹ ممالک میں ہے اور اس تعداد کا 95 فیصد لیبر ورک فورس پر مشتمل ہے جو پاکستان میں اپنی فیملیوں سے بات کرتے ہوئے جب مہنگائی بارے جانتی ہے تو ان کا تحریک انصاف حکومت پر اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے۔

سب سے اہم یہ کہ مڈل ایسٹ میں اوور سیز کو سیاسی سرگرمیوں کی آزادی حاصل نہیں چنانچہ الیکشن میں تحریک انصاف باضابطہ کمپین نہیں چلا سکے گی۔غیر جانبدار حلقوں کا بھی یہی اندازہ ہے کہ 2018 ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کو ووٹ دینے کیلئے نکلنے والی مڈل، اپر مڈل کلاس اب نہیں نکلے گی۔

اس لئے حالات مشکل اور پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ مستقبل میں ایک مرتبہ پھر سے قومی سیاست کو یکجا کرنے کیلئے کوئی ایسی قانونی راہ نکالی جا سکتی ہے جس کے ذریعے نا اہلی کو ختم کردیا جائے یا اس کی مدت نہایت کم کردی جائے ،جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں ’’CURATIVE REVIEW ‘‘ کی اصطلاح کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو پھر بہت سے دیگر قومی سیاسی لیڈروں کے ساتھ جہانگیر ترین کی نا اہلی بھی ختم ہو سکتی ہے اور وہ بھرپور طاقت کے ساتھ عملی سیاست میں آسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔