پاکستان کی واضح اور دوٹوک خارجہ حکمت عملی کے کیا اثرات ہوں گے؟

ارشاد انصاری  بدھ 23 جون 2021
دیکھنا یہ ہو گا کہ جو باتیں عمران خان نے انٹرویو میں کی ہیں اس پر قائم رہیں گے۔

دیکھنا یہ ہو گا کہ جو باتیں عمران خان نے انٹرویو میں کی ہیں اس پر قائم رہیں گے۔

 اسلام آباد:  وزیر اعظم عمران خان کا انٹرویو امریکی فوجی اڈوں، اویغور مسلمانوں اور خواتین کے پردے سے متعلق بیان کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے۔

بجٹ ، اپوزیشن اور حکومت کی پارلیمنٹ میں ہلڑ بازی پر تنقید جو عوام کر رہی تھی وہ ختم ہو گئی ہے، ایسی کون سی باتیں عمران خان نے اپنی انٹرویو میں کی جس سے سوشل میڈیا اور اس سے متعلق بحث شروع ہو گئی ہے۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ عمران خان آئی ایف اور امریکہ کے سامنے ڈٹ گئے ہیں، دیکھنا یہ ہو گا کہ جو باتیں عمران خان نے انٹرویو میں کی ہیں اس پر قائم رہیں گے، امریکی ٹی وی چینل ایچ بی او پر ’ایکزیوس‘ نامی پروگرام کے لیے صحافی جوناتھن سوان نے ان کا انٹرویو کیا جس میں انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’افغانستان میں فوجی کارروائی کرنے کے لیے پاکستان ہرگز امریکہ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دے گا۔

اس انٹرویو میں جہاں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر، چین اور امریکی تعلقات کے پس منظر میں علاقائی اور عالمی صورتحال پر بات چیت ہوئی وہیں عمران خان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ’فحاشی کے بڑھنے سے معاشرے پر اس کے اثرات‘ کے بیان کے بعد اْن پر ریپ کی متاثرہ خواتین کو ہی اس کا مورد الزام ٹھہرانے کا الزام کیا درست ہے، جس پر عمران خان نے وضاحت پیش کی کہ ’ اگر کسی خاتون نے بہت کم کپڑے پہنے ہیں۔

اس کے مرد پر اثرات تو ہوں گے۔‘ امریکا کے امن میں شراکت دار ہیں جنگ میں نہیں، اب کسی قسم کی محاذ آرائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے، اگر طالبان افغانستان کو مکمل فتح کریں گے تو بہت خون خرابہ ہوگا، امریکا کو سیاسی تصفیہ کرنا چاہیے۔ بھارت سے ہماری تین جنگیں ہو چکی ہیں، جوہری ہتھیاروں کیخلاف ہوں ہمارے ہتھیار دفاع کیلئے ہیں۔

پاکستان، افغانستان اور چین ایک مضبوط علاقائی قوت بننے جا رہے ہیں۔اس حوالے سے متعدد اجلاس منعقد کیے جا چکے ہیں۔3جون کو منعقد ہونے والے اجلاس کے بعد وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے ایک مفصل بیان جاری کیا جو اس سہ ملکی اتحاد کی اہمیت واضح کرتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ویژن کی روشنی میں خطے میں امن و استحکام کیلئے اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ نے کہا کہ اس حوالے سے پہلی ترجیح ’’افغانستان‘‘ کا امن ہے، چین کے پاس ٹیکنالوجی اور ہمارے پاس مین پاور ہے، قیام امن کی صورت میں چین اور پاکستان مل کر افغانستان کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت کی ترجیح ’’جیو اکنامک‘‘ ہے، ہم پاکستان کو تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں، ہمارا اکنامک کاریڈور اور گوادر پورٹ اہم کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیری مودی سرکار کے یکطرفہ اقدامات کو یکسر مسترد کر چکے ہیں، بھارت کو اگست 2019 کے غیر آئینی، یکطرفہ اقدامات پر نظرثانی کرنا ہو گی۔

افغانستان کے مخصوص حالات کے تناظر پر بات کرتے ہوے وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے سنگین سکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں تاہم اس سے ہمیں ایک منفرد موقع بھی ملتا ہے، اس کے ذریعے افغانستان میں امن اور مفاہمت سامنے آسکتی ہے اور اندرونی خلفشار کے شکار ملک کو امن اور استحکام کے ایک نئے دور میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

یہ پاکستان کی مخلصانہ کوششوں ہی کا ثمر ہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ طے پایا اور اب امریکی صدر جوبائیڈن بھی اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ جلد ہی امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا مکمل کرنا چاہتے ہیں۔افغانستان جسے پہلے ہی دنیا کا سب سے پرتشدد ملک کہا جاتا ہے، وہاں کے شہریوں کو اب خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ منصوبہ بندی کی جائے کہ جنگ کے بعد کے افغانستان کو پائیدار امن منتقل کرنے کے لیے دنیا کیا مدد کر سکتی ہے۔

دوسری جانب کچھ دن پہلے ہی بجت پیش کیا گیا جس کا عوامی ردعمل بھی آنا شروع ہو گیا ہے ۔ تاجر حکومت سے سخت ناراض ہیں ۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود رواں مالی سال کے گیارہ ماہ کے دوران پاکستان نے مجموعی طور پر 12 سو ارب کی اشیائے خوردونوش درآمد کی ہیں جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہیں ۔

پی ٹی آئی کے ماہرین نے شاندار جی ڈی پی گروتھ اور تاریخی عوام دوست بجٹ کا جو میوزک کمپوز کیا تھا اس میں استعمال ہونے والے آلات موسیقی نے شاید میل فنکشنگ شروع کر دی ہے۔ بات بن نہیں رہی۔ عمران خان کو پورا پورا احساس ہے کہ وہ سیاسی عمل کے نتیجہ میں اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو دوبارہ عوام میں نہیں جا سکیں گے ۔

وہ ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ اس کے بعد فوج اقتدار سنبھال لے۔ پی ٹی آی کے پاس اب عوام کو ڈیلیور کرنے کے لیے وقت نہیں بچا، اب وہی کچھ ہے جو وہ ان دنوں قومی اسمبلی میں ڈیلیور کر رہی ہے۔ عوام اس وقت مہنگائی کے معاملہ پہ پہلے ہی بہت حساس ہے اور اس بجٹ کے نتیجہ میں یا دیگر عوامل کی بنیاد پہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا تو حکومت کے لیے بہت مہلک ثابت ہو گا۔ شوکت ترین کا آلٹو گاڑی میں ٹریکٹر کے ٹائر لگا کر ریس جیتنے کا عزم ہے، دیکھتے ہیں گاڑی بھاگتی ہے یا گاڑی کا انجن بیٹھتا ہے۔

بجٹ میں گدھوں کے متعلق مکمل اعدادو شمار دستیاب ہیں، غربت اور بے روزگاری کے نہیں ہیں ،کیا کمال کی پالیسی سازی ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزرائے خزانہ حفیظ شیخ اور پھر شوکت ترین پی ٹی آی کے وزرائے خزانہ حفیظ شیخ اور پھر شوکت ترین ، حسن اتفاق ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں ڈالر ساٹھ روپے سے سو روپے تک پہنچا، پی ٹی آئی کے دور میں سو سے ایک سو ساٹھ روپے پر پہنچ گیا جس سے بغیر کوئی مزید قرضہ لئے ملکی قرضوں کے بوجھ میں کھربوں روپے کا اضافہ کردیا گیا جس سے ڈیبٹ فنانسنگ بھی بڑھ گئی لیکن اپنی نالائقی تسلیم کرنے کی بجائے اس کا ملبہ بھی ماضی کے حکمرانوں پر ڈال کر جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ماضی کے حکمرانوں کو مطعون کیا جا رہا ہے، یہ نہیں بتایا جا رہا ہے اس میں اپنا کیا کارنامہ ہے۔ اب یہی بوجھ حکمرانوں کے گلے کی ہڈی بن رہا ہے۔

’’فیٹف گرے لسٹ ‘‘ پاکستان کی گردن پہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی رکھی ہوی وہ تلوار ہے جسے وہ اس وقت تک نہیں ہٹائیں گے جب تک افغانستان کے معاملہ میں انہیں پاکستان کے بازو مروڑنے کی ضرورت رہے گی اور اسی کو لے کر بعض لوگ سیاسی بساط لپیٹے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ اگر گھی سیدھی انگلی سے نکلا تو پھر شاید سیاسی و نابالغ جمہوریت کا بوریا بستر گول کرکے شارٹ ٹرم کیلئے ہی صحیح پھر سے کوئی غیرجمہوری کھیل رچایا جا سکتا ہے لیکن بعض حلقوں کا خیال ہے کہ حالات شائد اس مرتبہ ساتھ نہ دیں۔

بہرکیف غیر یقینی حالات میں اس طرح کی سازشی تھوریاں جنم لیتی رہتی ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت شدید اندرونی و بیرونی خطرات سے نبردآزما ہے اورخدشہ ہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملات ایک بار پھر پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینے جا رہے ہیں ۔ لہذا جب قوموں کو بڑے چیلنجز درپیش ہوں تو پھر قوموں کی اجتماعی دانش کو بروے کار لا کر اور متحد ہو کر ہی ان چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں بدلتے حالات ہم سے اندرونی اختلافات سے بالا تر ہو نے کا تقاضا کرتے ہیں۔ وزیر آعظم کو چاہیے کہ ساری قومی قیادت سے مشاورت کریں ۔

وزیراعظم عمران خان نے آئندہ ماہ دورہ برطانیہ پر نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے اس پر بھی بہت باتیں ہو رہی ہیں حکومت اپنی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے اور وزیر اعظم کے دورہ برطانیہ کی منسوخی کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی واپسی سے متعلق معاملات ایجنڈے میں شامل نہ کرنے سے جوڑ رہی ہے لیکن اندر کی بات کچھ اور ہے۔ سرکاری ذرائع یہی بتاتے ہیں۔

وزیراعظم نے ملکی داخلہ، سیاسی اور خطے کی سکیورٹی صورتحال کے باعث برطانیہ نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے آئندہ ماہ مکمل ہونیوالے انخلا کے بعد کی صورتحال کو وزیراعظم نے خود مانیٹر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا رواں سال کے آخر میں برطانیہ جانے کا امکان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔