- ترک قوم اپنے فیصلے خود کرتی ہے مغرب نہیں، صدر طیب اردوان
- ایف آئی اے نے اعظم سواتی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری مانگ لیے
- پلیئرز امیج رائٹس، فیکا نے معاوضہ مانگ لیا
- عمران ریاض لاپتا کیس؛ معاملے میں افغانستان کے نمبرز استعمال ہونے کا انکشاف
- ورلڈکپ میں پاکستان کی شرکت، آئی سی سی چیف کو یقین دہانی درکار
- چین نے امریکا کی وزرائے دفاع ملاقات کی درخواست مسترد کردی
- ڈکیتی میں مزاحمت پر احتساب بیورو کے حاضر سروس جج قتل
- دوران پرواز بچے کی پیدائش؛ قطر کے طیارے کی کراچی میں ہنگامی لینڈنگ
- نیشنل گیمز؛ آرمی نے باقی ٹیموں کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا
- گھر میں لگائے گئے پودے سرطان کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں
- کوئی یہ سوچتا ہے کہ پاکستان کو اکیلا لے کرچلوں گا تو یہ بھول ہے، شاہد آفریدی
- فرنچائز اور انٹرنیشنل کرکٹ ایک ساتھ چلنے کو تیار
- درجنوں مگر مچھوں نے تالاب کے مالک کو ہلاک کر ڈالا
- بحرالکاہل کی عمیق گہرائیوں سے 5000 سے زائد آبی حیات دریافت
- کچی آبادیاں، تجاوزات آپریشن اور متاثرین
- اسٹیٹ بینک نے نظامِ ادائیگی کا تیسرا سہ ماہی جائزہ جاری کردیا
- واجبات کی عدم ادائیگی پر پی آئی اے کا بوئنگ 777 ملائیشیا میں روک لیا گیا
- فوج کا حکمرانی میں دخل نہ رہے یہ سوچنا حماقت ہے، عمران خان
- کراچی میں انٹرمیڈیٹ امتحانات کا آغاز، ایک لاکھ 15 ہزار سے زائد طلبہ شریک
- چئیرمین آئی سی سی گریگ بارکلے لاہور پہنچ گئے
غبارہ نما کیپسول میں خلا کی سیر... ٹکٹ صرف دو کروڑ روپے!

تصویر میں دکھائی دینے والے کیپسول ایک بڑے غبارے سے منسلک ہوکر مسافروں کو دو گھنٹے کے لیے خلا کی سیر کرائے گا۔ فوٹو: اسپیس پرسپیکٹوو
فلوریڈا: نجی کمپنیوں کی جانب سے خلا تک یا اس کے کنارے تک جانے کی دوڑ جاری ہے۔ اسی تناظر میں اب ایک اور کمپنی نے ایک غبارے نما کیپسول بنایا ہے جس کی بدولت عام افراد کو کچھ دیر کے لئے خلا کی سر کرائی جاسکے گی۔
اس خوبصورت غبارے کو نظامِ شمسی کے ایک سیارے کے تحت اسپیس شپ نیپچون کے نام دیا گیا ہے۔ اسے امریکی کمپنی ’اسپیس شپ پرسپیکٹوو‘ اوربرطانوی کمپنی اسٹوڈیو پریسٹ مان گڈ نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ کسی بہت بڑے روایتی گرم غبارے جیسا ہے لیکن اس میں ہیلیم گیس بھری گئی ہے جو ہائیڈروجن کے بعد کائنات کی دوسری سب سے ہلکی گیس ہے۔
بتاتے چلیں کہ ہیلیم سے بھرے غبارے ماضی میں بھی تحقیق کی غرض سے خلاء کی نچلی حدود تک بھیجے جاتے رہے ہیں۔ مسافر بردار خلائی غبارہ بھی اسی نوعیت کا ہے لیکن جسامت میں یہ تحقیق کی غرض سے استعمال ہونے والے ہیلیم بھرے غباروں سے بہت زیادہ بڑا ہے۔
غبارے کے نیچے ایک لمبی اور مضبوط تار ہے جس کے ساتھ مسافر بردار کیپسول بندھا ہے جس میں آٹھ مسافروں اور ایک پائلٹ کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ کیپسول کے اندر مسافروں کی حفاظت اور زمین جیسا ماحول پیدا کرنے کےلیے تقریباً اسی دباؤ پر ہوا بھری گئی ہے کہ جتنا زمینی سطح پر ہوا کا دباؤ ہوتا ہے۔
ہیلیم بھرا دیوقامت غبارہ اپنے ساتھ بندھے ہوئے مسافر بردار کیپسول کو لے کر بلند ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچ جائے گا جہاں زمینی کرہ ہوائی کی بالائی حدود ختم اور خلاء کی نچلی حدود شروع ہوتی ہیں۔ یہ تقریباً ایک لاکھ فٹ کی بلندی بنتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اس گولے میں بیٹھ کر خلائی سیر کے خواہش مند مسافروں کی پہلی پرواز کی بکنگ شروع ہوچکی ہے اور اس کا ٹکٹ سوالاکھ ڈالر (تقریباً دو کروڑ پاکستانی روپے) کا ہے۔ لیکن اس کا ایک حساب کتاب یوں ہے کہ اولین فلائٹس مہنگی ہیں اور اس کے بعد کی پروازوں کے ٹکٹ کم قیمت میں دستیاب ہوں گے۔
منصوبے کے تحت پہلی آزمائشی پرواز 18 جون کو فلوریڈا کے ٹیٹس ویلی خلائی اڈے سے روانہ ہوئی۔ اس میں کوئی مسافر نہیں تھا لیکن چھ گھنٹے اور 39 منٹ کی اس آزمائشی پرواز میں کرہِ ارض کی خوبصورت تصاویر لی گئیں۔
اسپیس پرسپیکٹوو کے سی ای او جین پوئنٹر نے کہا کہ ہم خلا تک رسائی کے تصور کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس میں خلائی سیاحت اور خلائی تحقیق، دونوں ہی مقاصد شامل ہیں۔ پہلی فلائٹ اگرچہ فلوریڈا سے روانہ ہوگی تاہم یہ کمپنی دنیا بھر اپنے خلائی اڈے قائم کرنے کی خواہاں ہے۔
خلائی غبارے کی بدولت سیاحوں کو 99 فیصد فضا سے اوپر لے جایا جائے گا جہاں خلائی حدود شروع ہوتی ہے جو ایک لاکھ فٹ بلند علاقہ بھی ہے۔ پورا سفر چھ گھنٹے کا ہے لیکن مسافر دو گھںٹے خلا میں گزار کر کیبن کی کھڑکیوں سے 360 درجے خوبصورت نظارہ کرسکیں گے۔
نیبچون غبارے کا کل رقبہ فٹبال کے ایک میدان کے برابر ہے لیکن جس کیپسول میں لوگ بیٹھیں گے اس کا قطر صرف 5 میٹر ہے۔ واپسی پر یہ کیپسول سمندر میں اترے گا جہاں سے مسافروں کو کشتی کے ذریعے ساحل تک پہنچایا جائے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔