IMF اور معاشی ثمرات کی جستجو

ایڈیٹوریل  ہفتہ 26 جون 2021
معاملات کے طے ہونے کی کشمکش جاری ہے، آئی ایم ایف بعض شرائط منوانا چاہتی ہے۔ فوٹو: فائل

معاملات کے طے ہونے کی کشمکش جاری ہے، آئی ایم ایف بعض شرائط منوانا چاہتی ہے۔ فوٹو: فائل

ملکی اقتصادیات کو آئی ایم ایف کی طرف سے شرائط کی سختی پر ضد کا سامنا ہے، معاملات کے طے ہونے کی کشمکش جاری ہے، آئی ایم ایف بعض شرائط منوانا چاہتی ہے، حکومت نہیں مان رہی، حکومت کیسے مانے، عوام کی برہمی سب سے بڑی زمینی حقیقت ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف 150ارب پرسنل اِنکم ٹیکس بڑھانا اور بجلی گیس ٹیرف میں بھی مزید اضافہ چاہتا ہے۔ آئی ایم ایف کا تقاضا ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں 1.39روپے یونٹ فوری، 4.95 روپے دوسرے مرحلے میں بڑھائے جائیں، بجلی ٹیرف بڑھانے سے مہنگائی اور صنعتوں کی پیداوار متاثر ہو گی، آئی ایم ایف کے ساتھ مجموعی طور پر 471 ارب روپے کا معاہدہ ہے، آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کا اجلاس 5 سے 7 جولائی تک ہونا تھا، اب چھٹے اور ساتویں دور کے مذاکرات ستمبر میں ہوں گے۔

فیض اللہ کموکا کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف آیندہ مہینوں کے دوران کارکردگی کو مانیٹر کرے گا، پاکستان اور آئی ایم ایف دونوں استحکام چاہتے ہیں، ستمبر میں پاکستان کا کیس منظور ہوجائے گا۔ ڈالر کی مانگ پوری کرنے کے لیے سکوک، پانڈا اور گرین بانڈز جاری کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر ٹیم میں جون 2022تک کوئی تبدیلی کا امکان نہیں،72 لاکھ ٹیکس چوری کرنے والوں کی معلومات ملی ہیں، ٹیکس چوروں کو تھرڈ پارٹی کے ذریعے نوٹسز جاری کیے جائیں گے، آئی کیپ سے 50 چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ڈیمانڈ کی ہے، اسسٹنٹ کمشنر ایف بی آر سے گرفتاری کے اختیارات واپس لے لیے گئے ہیں کیونکہ ڈر ہے کہ ایف بی آر ٹیکس نادہندگان سے ڈیل نہ کر لے، اندیشہ ہائے دور دراز کے اس منظر نامہ میں وزیر خزانہ نے خبردار کیا ہے کہ یکم جولائی سے کسی ٹیکس چور کو نہیں چھوڑیں گے، ماضی میں ٹیکس چور ٹیکس نوٹس نظر انداز کر دیتے تھے، اب ایف بی آر کے نوٹسز نظر انداز کرنے والوں کو نقصان ہو گا، ٹیکس افسر کسی ٹیکس گزار کو ہراساں نہیں کر سکے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر چھوٹ ختم کرنے سے سرمایہ کاری متاثر ہوئی تو چھوٹ دوبارہ بحال کر دیں گے۔ دریں اثنا ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ وفاقی بجٹ آنے کے بعد بھی حکومتی ثمرات کی فراہمی پر ملک گیر بحث میں بے نتیجہ ردعمل کا دائرہ بھی پھیلتا جا رہا ہے، کنفیوژن بڑھ رہا ہے، ماہرین بجٹ کے جائزہ کے مثبت مضمرات، عوامی حلقوں کے خوشدلانہ رد عمل اور عوام کی زندگی پر بجٹ کے مثبت اثرات متفقہ پوائنٹس پر ابھی کسی یقینی نکتہ پر اتفاق رائے کا کوئی امکان ظاہر نہیں کر رہے ہیں، غالب کا مصرع سب دہراتے ہیں:

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ بجٹ کے اثرات کو نمودار ہونے میں ابھی کچھ دیر لگے گی، مہنگائی کے کم ہونے کا معاملہ بھی بہت جلد طے پا جائے گا، حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ عوام غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے برمودا ٹرائی اینگل سے نکلیں، عوام کو حکومتی معاشی پالیسیوں کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع ملے، حکومتی ترجمانوں کے مطابق یہ الٰہ دین کے جادوئی چراغ کو رگڑنے کا معاملہ نہیں، مارکیٹ فورسز، معاشی اقدامات، پیداواری میکنزم اور رسد و طلب کا سوال ہے، مگر معاملات درست سمت میں جا رہے ہیں۔

برس ہا برس کے مسائل ہیں، درستگی میں کچھ وقت لگے گا مگر تبدیلی عوام کو محسوس ہوگی، وزیر خزانہ نے کہا اپوزیشن کے ساتھ چارٹر آف اکانومی پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، وفاق صوبوں میں رینجرز تعیناتی، اس کی طلب کے اقتصادی اصولوں کی کشمکش ہے، عوام اطمینان رکھیں کہ اقتصادی حالات بدلیں گے اور عوام کی مشکلات میں کمی ضرور آئیگی، وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت صحت کے اخراجات برداشت کر رہی ہے۔ آیندہ بجٹ میں ایس ایم ایز کے لیے 100 ارب قرض دینے کا پلان ہے۔ دودھ پر سیلز ٹیکس کو ختم کر دیا گیا ہے۔

پلانٹ مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی کم کی جائے گی۔ پرافٹ آرگنائزیشن کے لیے بینک اکاؤنٹس کھلوانے کا طریقہ کار بنایا جائے گا۔ دریں اثناء آئی ایم ایف کے ترجمان گیری رائس نے برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی ادارے نے پاکستان کا بیل آؤٹ پروگرام نہیں روکا، اس پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے جس میں پاکستان کے مالیاتی اخراجات اور اسٹرکچرل ریفارمز کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس ضمن میں پاکستان سے6 ارب ڈالر کے پروگرام کے چھٹے جائزہ پروگرام پر تعمیری مذاکرات جاری ہیں۔ ہم پاکستان کی مدد کے لیے اس کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن پاکستانی معیشت کو درپیش دیرینہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پالیسی اصلاحات پر عملدرآمد تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر پر کامیابی سے قابو پایا ہے، آیندہ سال ملک سے پولیو کا بھی مکمل خاتمہ کر دینگے۔ جمعرات کو بل اینڈ ملنڈا گیٹ فاؤنڈیشن کے شریک چیئرمین بل گیٹس سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے پولیو کے خاتمہ کے لیے جاری مہم اور کووڈ۔19سے پیدا ہونے والے صحت کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے دنیا بھر میں پسماندہ افراد کی معاشی و سماجی ترقی اور بالخصوص صحت کی خدمات تک عالمگیر رسائی کے فروغ اور متعدی امراض کی روک تھام کے لیے بل اینڈ ملنڈا گیٹ فاؤنڈیشن کی کاوشوں کو سراہا۔ وزیر اعظم نے پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے کے لیے فاؤنڈیشن کی شراکت داری پر بھی اظہار تشکر کیا۔ وزیر اعظم نے اس امر کا اعادہ کیا کہ پولیو کا خاتمہ حکومت کی اہم قومی ترجیح ہے اور کورونا وبا کے چیلنج کے باوجود ملک بھر میں انسداد پولیو مہم کو مزید تیز کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انھوں نے رواں ماہ7 سے11جون تک ملک میں پولیو کے خاتمے کے لیے خصوصی مہم کا ذکر کیا جس کے دوران پانچ سال سے کم عمر کے33 ملین بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلائے گئے۔ وزیر اعظم نے ملک میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھر پور پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ تمام شراکت داروں کے تعاون سے پولیو کا جلد خاتمہ کر دیا جائے گا۔ بل گیٹس نے اس قومی مقصد کے لیے وزیر اعظم عمران خان کے قائدانہ کردار کو سراہا۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبہ میں پاکستان کی صلاحیت اور حکومت کی کاروبار دوست پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے مائیکرو سافٹ کو پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کو مزید وسعت دینے کے لیے کہا۔ دریں اثنا گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں بھی کہا کہ انشا اللہ آیندہ سال ملک سے پولیو کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ پچھلے سال ملک میں پولیو کے 56 کیسز سامنے آئے تھے جب کہ اس سال اب تک پولیو کا صرف ایک کیس سامنے آیا ہے، انھوں نے بل گیٹس سے پاکستان میں مائیکرو سافٹ انکیوبیشن لیب قائم کرنے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کورونا کی آمد کے بعد پولیو مہم ٹارگٹس کی تکمیل میں تیزی کی توجہ ناگزیر ہے، پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کے لیے پاکستان کی ہیلتھ ٹیموں نے مثالی قربانیاں دی ہیں اور اس کا تقابل پاکستان کے عوام کورونا سے نمٹنے کی کوششوں کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات اسد عمر نے اپنے ایک ٹویٹ میں عالمی ادارہ صحت کے رویہ پر اظہار افسوس کیا ہے، این سی او سی کے سربراہ کی جانب سے یہ ٹویٹ اس تناظر میں کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ملک سے باہر جانے والے پاکستانیوں پر ایسٹرزنیکا یا فائیزر کی کورونا ویکسین کی شرط لگائی گئی ہے، اسد عمر نے کہا کہ وہاں کی حکومتیں ذہن میں رکھیں کہ یہ اداروں کا کام ہے کہ دیکھیں داخلے کے لیے کون سی ویکسین قابل قبول ہے، یہ اختیار ڈبلیو ایچ او کا ہے، ایسے اقدامات ان ممالک میں انتشار پیدا کر رہے ہیں اور گلوبل اسٹرٹیجک رقابتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ وفاقی وزیر کی وضاحت بروقت ہے، جس سے ویکسین کے استعمال اور وبا کو کنٹرول کرنے کی عالمی کوششیں متاثر ہونگی، ابھی کورونا کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی۔

گلوبل ٹائمز کے مطابق چین نے پاکستان کو دو سو آکسیجن جنریٹر اور دو لاکھ فیس ماسک عطیہ کیے ہیں، پاکستان میں کووڈ نائنٹین کی ایک کروڑ پینتالیس لاکھ خوراکیں لگائی گئی ہیں، جب کہ ملک میں اس وقت مثبت کیسز کی شرح دو اعشاریہ تین فیصد ہے، دنیا میں تاحال کورونا کی لہر کے حوالہ سے اطلاعات متضاد ہیں، پرتگال اور یورو فٹبال کپ کے مقابلے جاری ہیں مگر پرتگال نے ایس او پیز کی پالیسیاں سخت کر دی ہیں، ملک میں ویکسین کی تقسیم میں بے قاعدگی کے حوالے سے انتظامی سطح پر وفاق اور سندھ حکومت میں بیان بازی اور الزام تراشی میں شدت بدستور جاری ہے۔

اربوں روپے مالیت کی ویکسین خریداری کا اسکینڈل سیاست کی غلام گردشوں میں رقص کناں ہے، ملک کے بیشمار لوگ کورونا کی ویکسین اور پولیو مہم میں مماثلت تلاش کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک پریشر کا وہی عالم ہے جو ابتدائی دنوں میں کورونا وبا کا تھا کہ ماسک، لگاؤ، صابن استعمال کرو، بھیڑ سے بچو، جب کورونا کا زور ٹوٹا تو آج ویکسین کے لیے شناختی کارڈ پکڑو، رجسٹریشن کراؤ جلدی کرو مگر شہری جب ویکسین لگانے سینٹر پہنچتے ہیں تو انھیں ویکسین نہیں ملتی، سینٹر بند ہیں، کورونا کی چوتھی لہر کا خطرہ بھی ہے، غربت بڑھے گی، ویکسین ملنے کی تاریخیں ملتی ہیں، یہ وہ زمینی حقائق ہیں جن کا اہل وطن کو ادراک کرنا چاہیے، کیا یہ ممکن ہے کہ ویکسین بھی پولیو مہم کی طرح گھر گھر جاکر عوام کو لگائی جائے، چلتے چلتے گشتی موبائلیں شہریوں کو ویکسین لگانے کیلیے آتی جاتی نظر آئیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اقتصادی حالات میں تبدیلی عوام کو نظر آجائے، سیاسی کشیدگی ختم ہو، بجٹ اور معاشی پالیسیوں کے ثمرات ہم وطنوں کے لیے ’’ زکوٹا جن‘‘ کے قصوں کی طرح نہ پھیلیں، وقت تیزی سے گزر رہا ہے، چوتھا سال بھی اگر محاذ آرائی اور دشنام طرازی میں گزر گیا تو خدا نخواستہ آیندہ الیکشن میں حالات ہمیں ٹرمپ اور بائیڈن جیسا تصادم نہ دکھلا دیں، کوشش ہونی چاہیے کہ معاشی محاذ پر میثاق معیشت پر بات چیت بھی ہو اور دوسری طرف سیاستدان اور اسٹیک ہولڈرز کوئی سوشل کنٹریکٹ کرلیں، کوئی چیز ناممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔