گندم کی درآمد اور آٹے کی قیمت

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 26 جون 2021

معاشی جائزہ کے تحت آج کل کی اہم خبر یہ ہو سکتی ہے کہ وفاقی کابینہ نے ملکی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے 10لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل رواں مالی سال مارچ تک 36 لاکھ 12 ہزار ٹن گندم کی در آمد پر 98 کروڑ ڈالرز سے زائد رقم خرچ کی جا چکی ہے۔

اس سے بھی زیادہ تشویش ناک خبر یہ ہے کہ کالم تحریرکرتے وقت فلورملز ایسوسی ایشن کا یہ بیان سامنے ہے کہ جمعرات سے آٹے کی پیداواری سرگرمیاں بند ہو جائیں گی۔ وجہ یہ ہے کہ ٹرن اوور ٹیکس کی شرح میں اضافے اور چوکر پر سیلز ٹیکس عائد کرنے پر یہ اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں یہ واضح کردیا تھا کہ وہ 24 اور 25 جون کو ٹوکن ہڑتال کریں گے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان کے مطالبات کو تسلیم کرے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ٹیکس عائد کرنے سے اصل نقصان صارفین کا ہوگا کیونکہ ان پر ہی ٹیکس کا اصل بار ڈال دیا جائے گا۔

پاکستان میں 1980 کے بعد سے مختلف حیلوں بہانوں اور مافیاز کی من مانی کارروائیوں کے تحت گندم کی قیمت اور آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور کوئی بھی حکومت صحیح معنوں میں اسے مناسب طریقے سے کنٹرول نہ کرسکی۔ حالانکہ 1980 کے عشرے اور اس کے بعد سے اب تک پاکستان میں زیر کاشت رقبے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور پیداوار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

پہلے گندم کے زیر کاشت رقبے کا جائزہ لیتے ہیں۔ 1981-82 کے دوران 71 لاکھ 43 ہزار 4 سو ہیکٹر رقبے پر گندم کاشت کی گئی۔ اگلے دس برسوں میں زیرکاشت رقبے میں 13 لاکھ ہیکٹرز کے اضافے کے ساتھ زیر کاشت رقبہ 84 لاکھ 63 ہزار ہیکٹرز تک جا پہنچا جس سے ملک میں گندم کی وافر مقدار میں پیداوار کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔

پرویز مشرف کی حکومت کے رخصت ہوتے ہی نئی جمہوری حکومت کے قیام کے ساتھ ہی زیر کاشت رقبہ 90 لاکھ 46 ہزار ہیکٹرز تک جا پہنچا۔ 90کی دہائی اور غیر سول حکومت دورانیے میں ہی مافیاز نے اپنے آپ کو اتنا مضبوط کرلیا تھا۔ صرف گندم ہی نہیں بلکہ ہر اجناس اور مصنوعہ تک اتنی دسترس حاصل کرلی تھی کہ بظاہر 10 یا 20روپے فی کلو اضافے سے عوام سے اربوں روپے اپنی جیبوں میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتے اور کسی شے کی قیمت اگر ایک دفعہ بڑھ جاتی تو پھر کبھی بھی کم نہ ہوتی۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور خاص طور پر گندم کی پیداوار میں اس کی تاریخ 5 ہزار برس سے بھی پرانی ہے۔ انگریزوں نے سندھ پر اپنے قدم جمانے کے بعد پہلا کام ہی یہ کیا تھا کہ کراچی کی بندرگاہ کو زبردست ترقی دی اور ریلوے لائن بچھائی جوکہ اب تک چل رہی ہے۔ اس طرح پنجاب سے گندم اور کپاس کی بڑی مقدار انگلستان اور دیگر ملکوں کو برآمد کردیا کرتے تھے۔ 1935سے نہری نظام قائم ہونے کے بعد فصلوں کی پیداوار میں زبردست اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔ پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع گندم اور کپاس کی پیداوار میں دنیا بھر میں مشہور بھی ہوئے۔

پھر بھی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آ رہی کہ آخر ہم گندم کے درآمدی ملک مستقل طور پر کیوں بنتے چلے جا رہے ہیں؟ بہرحال پہلے گندم کی پیدوار کا جائزہ لیتے ہیں۔ 1981-82 کے دوران ایک کروڑ 12 لاکھ 43 ہزار ٹن کی پیداوار حاصل ہوئی تھی۔ 1985-86 میں ایک کروڑ 40 لاکھ ٹن کے قریب پیداوار رہی۔ (ن) لیگ کی پہلی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہی تھا کہ گندم کی پیداوار ایک کروڑ 57 لاکھ ٹن تک جا پہنچی۔ یاد رہے ان دنوں آٹا 3 روپے سے کم فی کلو دستیاب تھا۔ لیکن معاملہ اپریل 97میں بگڑا۔ ابھی 95-96 کی بات تھی کہ گندم کی پیداوار ایک کروڑ 69 لاکھ ٹن تھی۔

اگلے برس پیداوار میں کمی کا اندازہ لگایا جائے گا۔ بعد میں جب ہنگامہ، شوروغوغا وغیرہ ٹھنڈا ہوا تو معلوم ہوا کہ پیداوار ایک کروڑ66 لاکھ ٹن رہی یعنی مئی 1997 میں یہ اعداد و شمار آگئے کہ محض 3 لاکھ ٹن پیداوار کم رہی۔ لیکن اپریل 97 میں پاکستانی عوام عجیب کرب میں مبتلا ہو چکے تھے کہ اچانک آٹا غائب، ہر جگہ عنقا ناپید۔ لوگ ڈبل روٹی، بن اور چاول، جو کی روٹی کھانے پر مجبور۔ یہاں تک جن لوگوں کے عزیز و اقارب بیرون ملک سے آ رہے تھے ان کو فون کرکے فرمائش کی جا رہی تھی کہ آٹے کا تھیلا یا بوری جو ممکن ہو سکے لے آئیں۔

اخبارات میں تصاویر شایع ہو رہی تھیں کہ بیرون ملک سے آنے والے مسافر اپنے ہاتھ میں آٹے کا تھیلا لیے چلے آ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ مارچ 97 تک ملک میں آٹے کی فی کلو قیمت ساڑھے تین روپے تھی اور اپریل کے آخر تک ساڑھے 6 روپے فی کلو تک جا پہنچی۔ اب بتائیے مافیا نے کروڑوں نہیں اربوں روپے سمیٹے ہوں گے۔ حالانکہ وفاق ہر موقع پر اعلان کرتا ہے کہ آٹے پر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ چند دن قبل پنجاب حکومت نے اعلان کیا کہ وہ 80 ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں۔ وفاق کی جانب سے بھی یہ مژدہ سنایا گیا کہ 100 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔

97 میں اگر ساڑھے چھ روپے فی کلو آٹا دستیاب تھا، ابھی چند دن قبل کی بات ہے آٹا چکی والے نے 66 روپے فی کلو دیا تھا۔ یعنی 24 برس گزرے قیمت 10گنا بڑھ چکی تھی۔ 97سے صرف بیس برس قبل 1977 میں آٹا ڈیڑھ روپے فی کلو مل رہا تھا۔ یعنی 20 برس بعد چھ روپے کلو کا مطلب ہے چار گنا اضافہ۔ اور اب چند دن قبل چکی والے نے 66 روپے فی کلو آٹا دیا تھا اور کل ہی کی بات ہے کہ 2 روپے اضافے کے ساتھ 68 روپے فی کلو آٹا خرید کر لایا ہوں۔

حالانکہ ملک میں گندم کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اب 1997 سے آگے چلتے ہیں۔ نئی صدی کا آغاز ہوتے ہی پاکستان میں گندم کی پیداوار پہلی مرتبہ 2 کروڑ 10 لاکھ ٹن سے زائد ہوئی۔ البتہ 2007-08 میں گندم کی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی تھی یعنی 2006-07 میں پیداوار 2 کروڑ32 لاکھ ٹن تھی۔ آیندہ برس 2007-08 میں پیداوار کم ہوکر 2کروڑ9 لاکھ ٹن رہی۔ انھی دنوں آٹے کی قیمت میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا اور 20 روپے فی کلو سے زائد قیمت ہوگئی۔

ان دنوں حکومت کی جانب سے سرکاری قیمت خرید 1800روپے فی من مقرر ہے جب کہ مطالبہ 2000 روپے فی من کا بھی کیا جا رہا ہے۔ بہرحال 45 روپے فی کلو گندم کا آٹا عوام کو 70 روپے فی کلو تک دستیاب ہو رہا ہے۔ اب درمیان میں وچولے، آڑہتی، کمیشن ایجنٹ، ہول سیلرز یہ سب اپنی جگہ لیکن کوئی خفیہ ہاتھ بھی ہے کوئی ایسا مافیا ہے جو آٹے کی قیمت سے اس لیے کھیل رہا ہے کہ اس طرح ایسے لوگ باآسانی اربوں روپے کما لیتے ہیں۔

بہرحال فلور ملز ایسوسی ایشن کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جانا چاہیے، سندھ کے بارے میں بتایا گیا کہ سندھ میں گندم کی 100 کلو گرام کی یومیہ ایک لاکھ 40 ہزار بوریوں میں سے ایک لاکھ اٹھارہ ہزار بوری آٹے کی پیداوار ہوتی ہے۔ اب اگر فلور ملز ہڑتال پر چلے جاتے ہیں تو آٹے کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ایک طرف، قلت بھی پیدا ہو جائے گی۔

حکومت نے چینی مافیاز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی نتیجہ چینی 70 روپے سے 110 روپے فی کلو جا پہنچی۔ لہٰذا آٹے کے معاملے میں انتہائی احتیاط اور توجہ کے ساتھ معاملات طے کرے اور آٹے کی قیمت کو کم کرنے کی بھی مثبت کوشش کی جائے۔ کیونکہ آٹا غریب عوام کا کھاجا ہے۔ کچھ سستا ہو یا نہ ہو آٹا سستا ملنا ضروری ہے۔ ورنہ بھوک کا راج ہوگا اور غریب عوام بھوک کے ہاتھوں پریشان و نڈھال ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔