زباں فہمی؛ ناعاقبت اندیش یا عاقبت نااندیش

سہیل احمد صدیقی  اتوار 27 جون 2021
یہ کہنا درست نہیں کہ ناعاقبت اندیش غلط ہے۔فوٹو : فائل

یہ کہنا درست نہیں کہ ناعاقبت اندیش غلط ہے۔فوٹو : فائل

زباں فہمی 103

صبح اُٹھ جام سے گزرتی ہے

شب دلا رام سے گزرتی ہے

عاقبت کی خبر خدا جانے

اب تو آرام سے گزرتی ہے

مغل تاجدار شاہ عالم (ثانی) آفتاب ؔ کی یہ مشہور رُباعی اُن کی اور اُس عہد کی اخلاقی پستی کی آئینہ دار ہے، بلکہ گویا منظوم تاریخ ہے۔ اس کا دوسرا شعر تو ضرب المثل بن چکا ہے۔ ہماری زبان میں شاید عاقبت کے موضوع پر اس سے زیادہ مشہور اور کوئی شعر نہیں۔ ’’اردو کے ضرب الامثال اشعار‘‘ کے مؤلف، ہمارے ایک سو ایک سالہ بزرگ معاصر، محترم محمد شمس الحق صاحب نے اس مغل شاعر بادشاہ کے حالات مختصراً یوں رقم کیے ہیں: آفتابؔ، شاہ عالم ثانی۔ نام میرزا عبداللہ، عرفیت لال میاں اور میرزا بلاقی۔ ولادت: ۱۴جون ۱۷۲۸ء ، قلعہ معلی، دہلی۔ ۱۷۸۹ء میں غلام قادر روہیلے نے دہلی کے دیوانِ خاص میں نوکِ خنجر سے اُن کی آنکھیں نکال لیں۔

وفات: ۱۹نومبر ۱۸۰۶ء ، دہلی۔ اپنی دوسری کتاب ’’غزل اُس نے چھیڑی…..‘‘(اردو غزل گو شعراء کا منتخب کلام ، دورِقدیم سے دورِجدید تک)، مطبوعہ سن ۲۰۱۶ء، کراچی کی جلد اَوّل میں، محقق موصوف نے شاہ عالم ثانی آفتابؔ کے حالات میں یہ اضافہ بھی کیا: نام ابوالمظفر، عالی گوہر۔ ایک مثنوی کے علاوہ ایک دیوانِ اردواور ایک دیوان ِ فارسی اُن کی یادگار ہے۔ یہاں محترم شمس صاحب سے چُوک ہوئی، ابوالمظفرکُنیت ہے اور عالی گوہرلقب۔ }خاکسار کو یہ شرف حاصل ہے کہ اُنھوں نے بکمال شفقت وقدردانی، جلد اوّل ، ۱۲فروری ۲۰۱۷ء کو ، اپنے نواسے کے ہمراہ ، میرے گھر تشریف لاکر، عنایت فرمائی، جبکہ ۲۰۱۹ء میں، جلد دوم کی اشاعت کے بعد، بذریعہ ڈاک ارسال فرمائی{۔ ان دو شعروں کی نقل میں جابجا، مختلف مآخذ میں فرق پایا جاتا ہے جسے محقق موصوف نے ذکر کیا ہے۔ ’’دلا رام‘‘ درحقیقت، بادشاہ کی محبوب کنیز دل آرام ہے۔

{یہا ں ایک چونکانے والا انکشاف بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ممتاز محقق پروفیسر مختارالدین احمدنے ’’گلشنِ ہندحیدری‘ مرتّبہ پروفیسر مختارالدین احمد: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ میں، حیدر بخش حیدری کے مرتبہ، شعراء کے اس مشہور تذکرے میں صفحہ ۲۲ پر شاہ عالم ثانی آفتاب کی طرف منسوب ان دو شعروں کی بابت ، حاشیے میں لکھا ہے کہ ’’گلزار ابراہیم‘‘ (نسخہ رام پور) میں آفتابؔ کے ترجمے کے محاذ میں حاشیے پر شاہ قدرت اللہ قدرت ؔکے حوالے سے یہ اطلاع درج ہے کہ یہ دونوں شعر قدرت ؔکے ایک شاگرد کے ہیں، جو مرشدآباد میں تھے۔ (بحوالہ ڈاکٹر عقیل احمد، مہمان استاد، شعبہ اردو، اے۔پی۔ایس۔ایم۔کالج، برونی۔بہار: تجزیاتی مطالعے، کتابوں کی باتیں [http://www.urdulinks.com/])۔

اب ہم آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ ہماری واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں، ایک محترم رکن، جناب اِبن سبیل کے استفسار پر، اس موضوع سے متعلق گرما گرم بحث چھڑی اور خوب چلی کہ مدتوں سے رائج ترکیب، ناعاقبت اندیش، درست نہیں، اسے عاقبت نااندیش ہونا چاہیے اور اسی طرح ناعاقبت اندیشی کی بجائے عاقبت نااندیشی لکھنا چاہیے۔ تاریخی لحاظ سے یہ بحث زیادہ پرانی نہیں، کوئی بائیس تئیس سال قبل بعض اہل قلم نے اپنے طور پر یہ سوال اٹھایا تو اُن دنوں، ہمارے بزرگ معاصر محترم محسن بھوپالی مرحوم نے اپنی تحریروتقریر میں اس کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ درست ترکیب ناعاقبت اندیش ہی ہے۔

اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے اس بابت طبع آزمائی ہوتی رہی، نوبت بہ ایں جا رسید کہ واٹس ایپ بز م زباں فہمی میں بھی اس پر بحث کا آغاز ہوا۔ ناعاقبت اندیش اور ناعاقبت اندیشی کو غلط قرار دینے والے احباب کے پاس سند کے طور پر، محترم طالب ہاشمی (مرحوم)، ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب اور محترم غازی علم دین (آزادکشمیر) اور دیگرکے حوالے تھے۔ مؤخرالذکر سے فون کال پر تبادلہ خیال ہوا، انھوں نے اپنی بات پر اصرار کیے بغیر، بکمال شفقت، خاکسار کی بات سنی اور اپنی کتاب ارسال کرنے کے لیے ڈاک کا پتا مانگا۔ واٹس ایپ بزم زباں فہمی کے رکن، محترم عبیدالرحمن عبید صاحب نے ناعاقبت اندیش کے متعلق محترم طالب ہاشمی مرحوم کا نقطہ نظر یوں نقل کیا: {ناعاقبت اندیش کا استعمال اور طالب ہاشمی صاحب کا مؤقف: لاہور میں محترم طالب ہاشمی صاحب صحتِ زبان کے لیے خاصی خدمات انجام دیتے رہے۔

جہاں کہیں کسی لفظ، ترکیب یا اصطلاح میں اِشکال محسوس ہوتا، ان سے رائے لی جاتی اور وہ نہایت فراخ دلی سے راہنمائی فرماتے۔ ہاشمی صاحب سے چند الفاظ: ناعاقبت اندیش، ناحق شناس، ناخدا ترس وغیرہ تراکیب کے سلسلے میں گزارش کی گئی کہ ہم اپنے مضامین میں ان تراکیب کو یوں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ… ناعاقبت اندیش کے بجائے عاقبت نااندیش… ناحق شناس کے بجائے حق ناشناس اور ناخدا ترس کے بجائے خدا ناترس… لکھنا چاہیے۔ انھوں نے اس اصلاح کو درست قرار دیا۔ جب ان سے پوچھا: فرہنگِ آصفیہ، نور اللغات، قائد اللغات اور فیروزاللغات (جو ہمارے ہاں متداول اور معتبر ہیں) ہمارے خیال کے برعکس سب کے سب لفظِ نفی یعنی ’’نا‘‘ کو پہلے لائے ہیں۔ اس کا کیا علاج؟ اس پر ہاشمی صاحب نے فرمایا: ان مرتبین نے یہ الفاظ غلط العام کے طور پر تسلیم شدہ جان کر درج کیے ہیں۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ غلط العام قرار دینے والا مجاز ادارہ کون سا ہے؟ نیز ان تراکیب کی معنویت کیا ہے جس سے یہ درست ثابت ہوتے ہیں؟

قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیں:1- ناعاقبت اندیش: ایسی چیز کا اندیشہ یا خوف یا خیال رکھنے والے لوگ جو عاقبت نہ ہو… اس میں عاقبت کی نفی ہے، اندیشے کی نہیں۔ اس کی مثبت ترکیب ’’عاقبت اندیش‘‘ ہے، یعنی یومِ عاقبت (قیامت) سے ڈرنے والا۔ اور اس کا منفی لامحالہ یہی ہونا چاہیے: ’’عاقبت نااندیش۔‘‘ یعنی مسئلہ اندیشہ کرنے یا نہ کرنے کا ہے۔2- ناحق شناس… ایسی چیز کو جاننے والے جو حق نہ ہو۔

اس کا مثبت حق شناس ہے۔ تو یہاں بھی مسئلہ ناحق کا نہیں، شناس اور ناشناس کا ہے۔ لغات والا اس کا معنی لکھ رہا ہے: ’’خدا کو نہ پہچاننے والا۔‘‘ جب کہ ترکیب بتا رہی ہے کہ وہ ناحق کو پہچاننے والا ہے۔3- ناخدا ترس: یہ تو ترکیب ہی نہایت مضحکہ خیز ہے۔ اہلِ لغت کہہ رہے ہیں کہ اس کا معنی ہے: ’’خدا سے نہ ڈرنے والا‘‘ جب کہ دوسری جگہ ناخدا کا معنی لکھا ہے: ملاح، جہاز ران۔ گویا ملاح یا جہاز سے ڈرنے والا صحیح معنی ہو گا۔ خدا سے نہ ڈرنے والا نہیں۔ (منقولہ: زبانِ خامہ کی خامیاں از علیم ناصری، ص: 119-122)}۔

ہماری فاضل بزرگ معاصر ڈاکٹر رخسانہ صبا صاحبہ نے ابتدائے گفتگو میں ناعاقبت اندیش کے شاعری میں استعمال کی مثالیں یوں پیش فرمائیں:

اے دل ناعاقبت اندیش ضبط شوق کر

کون لاسکتا ہے تاب جلوۂ دیدار دوست

(مرزا غالب)

دیکھ مٹ جائے گا ہستی سے گزر جائے گا

دل ناعاقبت اندیش انھیں یاد نہ کر

(بیدم شاہ وارثی)

امتحان تشنگی کی منزل آخر ہے یہ

اے دل ناعاقبت اندیش بے قابو نہ ہو

(سلطان رشک)

{ریختہ ڈاٹ آرگ نے سید ظہیرالدین ظہیرؔ (غالباً ظہیر دہلوی)، اختر سعید خان اور نہال رضوی لکھنوی کے اشعار نقل کرتے ہوئے مزید مثالیں فراہم کی ہیں}۔ اس پر ہمارے ایک فاضل معاصر ڈاکٹر ظہیر قندیل صاحب نے کہا کہ ’’میں بھی عاقبت نااندیش ہی کو درست سمجھتا ہوں لیکن جو شعری مثالیں دی گئی ہیں، ان میں غالبؔ اور بیدم ؔکی سند دیکھ کر مجھے حیرت ہو رہی ہے۔ مجھے اپنا خیال بدلنا پڑے گا‘‘۔

ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کا مؤقف برائے ’ناعاقبت اندیش‘:

بعداَزاِیں محترمہ رخسانہ صبا صاحبہ نے ارشادکیا:’’میری ابھی ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب سے Messageکے ذریعے بات ہوئی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو فارسی پر عبور حاصل ہے۔ انھوں نے ” پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق” کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے، بیدل ؔپر بھی اُن کا کام ہے اور ایران میں اُن کا قیام بھی رہا ہے۔ انھوں نے میرے پیغام کے جواب میں عاقبت نااندیش کو درست قرار دیا ہے‘‘۔

ہماری بزرگ معاصر محترمہ آمنہ عالم کی گفتگو ملاحظہ ہو:’’ہم نے مقتدرہ کے سابق مدیراسلام نشتر صاحب سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تھا۔ اُن کا جواب ہے: جی…بالکل۔ عاقبت نااندیش ہی درست ہے۔ وہ لوگ جو ناعاقبت اندیش لکھتے ہیں وہ غلط لکھتے ہیں۔ عاقبت نا اندیش کا مطلب ہے، عاقبت کو نہ بھانپ سکنے والا۔ نا کی جگہ جب بدل دی جائے گی تو معنی بھی کچھ کے کچھ ہوجائیں گے: نشترؔ۔آزاد کشمیر کے پروفیسر غازی علم دین کی کتاب میں بھی ہم نے یہی پڑھا تھا۔

یہ جامعہ کراچی بھی آتے رہے ہیں۔ اس وقت کتاب موجود نہیں ہے۔ ہمارا رابطہ نہیں ہے اور ہمیں صد فیصد یہ یقین بھی نہیں کہ اس کتاب کے مصنف پروفیسر غازی علم دین ہی ہیں یا کوئی اور لیکن غالب گمان یہی ہے کہ ان کی ہی کتاب تھی۔ پروفیسر غازی علم دین کی کتاب لسانی مطالعے میں اس پر اظہارخیال ہے اور درست یہی بتایا ہے کہ” نا ” اندیش سے پہلے درست ہے ۔ عاقبت سے قبل نہیں‘‘۔

ایرانی فارسی آن لائن لغات:

اب ذرا ایرانی فارسی آن لائن لغات سے یہ بھی دیکھیے کہ اُن کے یہاں عاقبت کس قدر بھرپور انداز میں جلوہ گر ہے ، جبکہ ہمارا، ناعاقبت اندیش کہیں نہیں:

واژہ یاب: (www.vajehyab.com): فرہنگ حاضر تألیف فرج اللہ خداپرستی می باشد و از تارنمای «دادگان» برگرفتہ شدہ است۔عاقبت:واژگان مترادف و متضاد

آخر، آخرکار، انتہا، بالاخرہ، بالمال، پایان، حاصل، سرانجام، عاقبتالامر، فرجام، ماحصل، نتیجہ، نہایت، آغاز، بدایت

آخر کار؛ پایان ہر چیز؛ فرجام؛ سرانجام (فرہنگ فارسی عمید)

آخر، آخرکار، انتہا، بالاخرہ، بالمال، پایان، حاصل، سرانجام، عاقبتالامر، فرجام، ماحصل، نتیجہ، نہایت ، آغاز، بدایت، فرجام، سرانجام، پیامد

عاقبت۔ (لغت نامہ دہخدا)

عاقبت] ق ِ ب َ[ (ع اِ) عاقبۃ.  پایان ہر چیز . (منتہی الارب) (اقرب الموارد). فرجام. سرانجام: وی ہشیار بود و سوی عاقبت نیکو نگاہ کردی۔ (تاریخ بیہقی ص 157)۔ بد نسگالد بہ خلق بد نبود ہرگزش/وانکہ بدی کرد ہست عاقبتش بر ندم(منوچہری)۔ و اگر در عاقبت کارہا و ہجرت سوی گور فکرت شافی واجب داری۔ (کلیلہ و دمنہ)۔ عاقبتی ہست بیا پیش از آن/کردہ خود بین و بیندیش از آن(نظامی)۔ یارب از لطف و کرم عاقبت خاقانی/خیر گردان تو کہ ما در طلبش خواب و خوریم(خاقانی)۔ کہ از چنگال گرگم در ربودی/چو دیدم عاقبت گرگم تو بودی.

سعدی (گلستان)۔ گفت پیغمبر کہ چون کوبی دری/عاقبت زان در برون آید سری (مولوی یعنی مولانا روم)۔

نگارش معنی دیگر برای عاقبت: افزونہ مرورگرہاثبت واژہنرم افزار موبایلتماس با مادربارہتمامی بانک ہای لغت با کسب اجازہ از صاحب اثر در این سایت منتشر شدہ است۔ تماس با مادربارہ لغت نامہ ہا با کسب اجازہ از صاحب اثر در واژہ یاب منتشر شدہ اند۔

اس بابت یہ لغت بھی دیکھی جاسکتی ہے:https://abadis.ir/

سہیل احمدصدیقی کا مؤقف اور معاصرین کی تائید:

خاکسار کا مؤقف یہی ہے کہ عربی الاصل لفظ ’عاقبت‘ کو اہل ایران نے اپنی زبان کے مصدر ’اندیشیدن‘ سے ملایا تو عاقبت اندیش کی ترکیب وضع کرلی، پھر عاقبت اندیشی بھی اسی طرح معرضِ وجود میں آئی، مگر اُن کے یہاں فعل کی نفی کے لیے ’نا‘ لگایا جاتا ہے، ان دونوں مثالوں میں ’نا‘ کا سابقہ اہل اردو نے لگایا، فارسی اس سے لاتعلق ہے۔ اب چونکہ یہ ترکیب اپنے معنی ومفہوم میں مکمل اور مستند ہے، استادانِ سخن نے اسے اعتبار بخشا ہے تو خواہ غلط ہو یا غلط العام، اس پر اعتراض کا باب، نئے سرے سے کھولنا درست نہیں۔ انٹرنیٹ کے بقراط تو غالبؔ کی اردو ہی کو کمزور قرار دے رہے ہیں۔

ایران سے پی ایچ ڈی کی سند کے حامل، ہمارے خوردمعاصر (ہائیکوشاعر) ڈاکٹرعلی کمیل قزل باش نے اسلام آباد سے گفتگو کرتے ہو ئے تمام بحث سمیٹ کر یہ خلاصہ کیا ہے کہ:ا)۔ اگر محض فارسی کی بات کی جائے تو نفی کا قاعدہ یہی ہے کہ فعل سے پہلے نا لگایا جائے۔

اس لحاظ سے عاقبت نااندیشی بطور فعل درست ہوگا، جو بہرحال فارسی میں موجودنہیں۔ ب)۔ بطور صفت مرکب، (ہرچندکہ عربی لفظ عاقبت کے ساتھ فارسی کا اندیش لگایا گیا) ناعاقبت اندیش درست ہے۔ج)۔ اساتذہ سخن جب کوئی ایسی جدت فرماتے ہیں تو اسے مابعد درست مانا جاتا ہے، لہٰذا یہ (غالبؔ وغیرہم کا برتا ہوا) ناعاقبت اندیش اردو میں درست ہے۔ ابھی یہ کالم زیرِتحریر ہی تھا کہ دہلی (ہندوستان) میں مقیم، نامور اردو، فارسی سخنور ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی صاحب سے، واٹس ایپ پر، تفصیلی بات چیت ہوئی۔ انھوں نے خاکسار کے مؤقف کی تائید کردی ہے اور غالب کے (علی الخصوص)، ترکیب ناعاقبت اندیش، استعمال کو غلط العام فصیح کے اصول پر درست قرار دیا ہے۔

اہل زبان، ایرانی فارسی گو ادیب کی تائید:

ماقبل خاکسار نے ایران میں مقیم اپنے فیس بک/واٹس ایپ بزرگ معاصر جناب شاہ رخ عربشاہی سے مدد کی درخواست کی تو انھوں نے، مع حوالہ جات (واٹس ایپ پر) گفتگو فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل جواب تحریر کیا اور میری تائید فرمائی:

عاقبت اندیش: دوراندیش/ آخربین/ آنکہ از آغاز، پایان کار را نگرد.

بباید عاقبت اندیش بودن/ برون از خویش و ہم با خویش بودن (ناصرخسرو)

عاقبت اندیش ترین کودکی/ دشمن او بود در ایشان یکی (نظامی)

افسوس کہ ما عاقبت اندیش نہ ایم/ داریم لباس فقر و درویش نہ ایم

این کبر و منی جملہ از آنست کہ ما/قانع بہ نصیب و قسمت خویش نہ ایم

ابوسعید ابوالخیر عارف و شاعر نامدار ایرانی قرن چہارم و پنجم

ناعاقبت اندیش/عاقبت نااندیش این ترکیب در زبان فارسی بہ کار بردہ نشدہ است.

در متون جدید و کہن فارسی این ترکیب ہا (یعنی ہر دو ترکیب) اصلا بہ کار بردہ نشدہ اند.شاید در فارسی افغانستان یا تاجیکستان و یا در متون ہند و پاکستان این ترکیب ہا وجود داشتہ باشد، اما در فارسی ایران وجود ندارند. اگر تصویر متن اصلی را برایم بفرستید خوب است.

ہرچند کہ اپنے کام اور وہ بھی اس کالم کی از خود ستائش کاکسی بھی حوالے سے نقل کرنا، خودستائی کے زمرے میں آتا ہے، لیکن، میراخیال ہے کہ ہمارے عہد کے بزرگ اگر ہماری حوصلہ افزائی کررہے ہیں تو اس کا پرچار بطور تحدیث نعمت کرنے میں کوئی حرج یا ہرج نہیں۔ اس سے دوسروں کے لیے بھی مثال قایم ہوتی ہے۔

ابھی ابھی، دہلی، ہندوستان میں مقیم فارسی واردو کے جید، زودگو، ذی علم سخنورومترجم ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی صاحب نے ایک مرتبہ پھر خاکسارکے سلسلہ کالم زباں فہمی کو یوں خراج تحسین پیش فرمایا ہے:

سہیل احمد کا دلکش ہے زباں فہمی پہ یہ کالم

ہمیشہ سوچتے رہتے ہیں اس بارے میں وہ پیہم

مشاہیر ادب کی پیش کرتے ہیں سند، اس میں

ہمیشہ کرتے ہیں کوشش نہ کوئی لفظ ہو مبہم

زباں فہمی کا ہے یہ سلسلہ بیحد مفید اُن کا

وہ جو بھی لکھ رہے ہیں اس کی ہے بنیاد مستحکم

جسے کرتا ہے شایع روزنامہ ایکسپریس برقیؔ

بہت معروف ہے ان کا زباں فہمی کا یہ کالم

ہے بیحد کارآمد ان کی یہ اصلاح کی کوشش

دعا کرتا ہوں یہ شمع ادب ان کی نہ ہو مدھم

کوئی مانے نہ مانے میں ہوں لیکن معترف اس کا

ہیں برقیؔ اعظمی رازِ زباں فہمی کے وہ محرم

(ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی)

برجستہ، قلم برداشتہ: سولہ جون سن دوہزاراکیس

{تین سال پہلے ڈاکٹراحمدعلی برقی اعظمی صاحب نے فیس بک ورق زباں فہمی پر موجودکالم ملاحظہ فرماتے ہوئے یوں فی البدیہ ستائش فرمائی تھی: جناب سہیل احمد صدیقی کے سلسلہ زبان فہمی پرایک فی البدیہہ قطعہ از احمد علی برقی اعظمی

زبان فہمی کا یہ سلسلہ ہے فکر انگیز

میں پیش کرتا ہوں اس کے لیے مبارکباد

جو کام کرتے ہیں برقی، سہیل صدیقی

زباں سے عشق ہے جن کو، رہے گا ان کو یاد}

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔