چاول میں ہیضے کی ویکسین؛ انسانی آزمائشیں کامیاب

ویب ڈیسک  ہفتہ 26 جون 2021
جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے عام جاپانی چاولوں کو ویکسین پیدا کرنے کے قابل بنایا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے عام جاپانی چاولوں کو ویکسین پیدا کرنے کے قابل بنایا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ٹوکیو: جاپانی سائنسدانوں نے جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے ہیضے کی ویکسین والے چاول تیار کرلیے ہیں جبکہ انسانوں پر ان کی ابتدائی آزمائشیں بھی کامیاب ہوچکی ہیں۔

واضح رہے کہ ہیضہ، پولیو یا کسی بھی دوسری بیماری سے بچاؤ کےلیے دی جانے والی ویکسینز کو بہت سرد ماحول میں محفوظ رکھنا پڑتا ہے، چاہے وہ قطروں کی شکل میں پلائی جانے والی ویکسینز ہوں یا انجکشن کے طور پر لگائی جانے والی ویکسینز۔

’’میوکورائس سی ٹی بی‘‘ (MucoRice-CTB) کہلانے والی یہ نئی ویکسین، چاولوں کو پیس کر تیار کی گئی ہے جبکہ اسے عام درجہ حرارت پر لمبے عرصے محفوظ رکھا جاتا ہے اور کسی خصوصی انتظام کی ضرورت نہیں پڑتی۔

یہ ویکسین بنانے کےلیے جاپان میں عام اگائے جانے والے چاول کے پودوں میں جینیاتی طور پر کچھ ایسی تبدیلیاں کی گئیں کہ وہ خود ہی یہ ویکسین تیار کرنے لگے جس کی مناسب مقدار اِن کے چاولوں میں بھی موجود ہوتی ہے۔

ان چاولوں کو استعمال کرنے کےلیے کسی خصوصی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ انہیں صرف پیس کر سفوف بنایا جاتا ہے اور معمولی سے نمکین پانی میں حل کرکے پی لیا جاتا ہے۔

30 رضاکاروں پر کی گئی ان ابتدائی طبّی آزمائشوں میں ’’میوکورائس سی ٹی بی‘‘ لینے والے بیشتر افراد میں ہیضے کے خلاف واضح مدافعت پیدا ہوگئی تھی۔

البتہ ان میں سے 11 افراد ایسے بھی تھے جن میں ہیضے کے خلاف مدافعت پیدا نہیں ہوئی، یا پھر وہ بہت کم مدافعت پیدا کر پائے۔ تاہم کسی بھی رضاکار میں اس ویکسین کے منفی یا نقصاندہ اثرات سامنے نہیں آئے۔

احتیاطی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ویکسین پیدا کرنے والے یہ چاول خاص طرح کی بند جگہوں میں اُگائے گئے۔

پہلے مرحلے کی طبّی آزمائشوں (فیز 1 کلینیکل ٹرائلز) کے دوران رضاکاروں کو دو ہفتوں کے وقفے سے اس ویکسین کی چار خوراکیں دی گئیں جو بالترتیب 3 ملی گرام، 6 ملی گرام یا 18 ملی گرام (فی خوراک) پر مشتمل تھیں۔

جن رضاکاروں کو ویکسین کی زیادہ مقدار والی خوراکیں دی گئیں، ان میں ہیضے کے خلاف مزاحمت بھی زیادہ دیکھی گئی جو اس کی ویکسین کی افادیت کا واضح ثبوت ہے۔

بتاتے چلیں کہ ایک جرثومے ’’وائبریو کالریا‘‘ کی وجہ سے ہیضہ ہوتا ہے جو عام طور پر آلودہ پانی میں پایا جاتا ہے۔

ہیضے سے متاثرہ فرد کو الٹیاں اور دست لگ جاتے ہیں۔ بہت کم وقت میں جسم سے بہت زیادہ پانی خارج ہوجانے کی وجہ سے وہ فرد انتہائی کمزور ہوجاتا ہے جبکہ شدید متاثرہ فرد کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہیضہ ہر سال دنیا بھر میں 13 لاکھ سے 40 لاکھ افراد کو متاثر کرتا ہے جبکہ اس سے مرنے والوں کی سالانہ تعداد 21 ہزار سے 1 لاکھ 43 ہزار کے درمیان ہے۔

نوٹ: ان طبّی آزمائشوں کی تفصیلات ’’دی لینسیٹ مائیکروب‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔