ناقابل شکست ’’جمہور‘‘

وارث رضا  اتوار 27 جون 2021
Warza10@hotmail.com

[email protected]

اب اہل جہاں کو خبر ہو کہ جدیدٹیکنالوجی جہاں انسانی حیات کو تنگ دستی اور فاقہ مستی فراہم کر رہی ہے، وہیں یہ جدید ٹیکنالوجی انسانی استحصال کے نت نئے طریقے اور انداز متعارف کروانے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔

مگر یاد رہے کہ عوامی استحصال اور عوام کو بے دست و پا کرنے کے یہ جدید آلات اور طریقے صرف اور صرف ان ہی کو فراہم کیے جا سکتے ہیں جو کہ عوام کے خون چوسنے اور ان کے چیخنے چلانے پر کسی قسم کا انسانی احساس اور ردعمل دینے سے بے بہرہ ہوں اور اعلی جبریہ ذہن کے انسان کش بھی ہوں…یہ نہ کوئی داستان گوئی ہے اور نہ من پسند گھڑا ہوا کوئی واقعہ،بلکہ یہ ماضی کے سیاسی سچ کے وہ دلسوز واقعات ہیں جن کی یاد دہانی ہر اس دور میں ضروری ہے کہ جس دور میں نئی مگر اس ملک کی سیاسی تاریخ سے نا آشنا نسل کو آگہی دینا ضروری ہو۔

دنیا کی تاریخ کے اجمالی مطالعے کی روشنی میں طاقت اور کمزور کی کشمکش اور طاقتور سے اپنے انسانی اور جمہوری حقوق مانگنے اور چھیننے کی تاریخ کم و بیش اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ پہلے انسان کا اس خطے پر وجود،انسانی ارتقا نے جوں جوں شعور کی منازل طے کی ہیں،اس اس طرح طاقت کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوا ہے،حصول اقتدار کو طاقت کا مرکزی نکتہ بنانے والوں نے انسانی وسائل کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے صلیبی جنگوں سے لے کر جدید ہتھیاروں کی مدد سے دنیا کو خوفناک جنگ و جدل میں تبدیل کیا ہے۔

ان طاقت کے خداؤں نے سائنس کی ترقی کو انسانی حیات کی آسانی سے زیادہ اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کا جو کام کیا ہے وہ آج دنیا میں انسانی قحط سالی یا بہتر غذا کی عدم فراہمی سے زیادہ انسان کے معاشی مسائل میں اضافے کا وہ سبب بنا ہے جس نے دنیا میں موسم کی سختی کے ساتھ انسانی صحت اور اس کی توانا زندگی کو بھی خطرے میں ڈال کر بہادر اور جفاکش انسان کو خوف زدہ کرکے چاپلوس اور صلاحیتوں سے محروم کرکے مکمل سیاسی شعور سے بانجھ کر دیا ہے،گو اس میں طاقت کے ہتھیار بند اور سرمائے کی طاقت کے خدا ہنوز کامیاب نہیں ہو پائے ہیں مگر ان کی کوشش یہی ہے کہ انسان کے سوچنے سمجھنے کی سیاسی قوت کو مفلوج کیا جائے اور نئی نسل میں جدیدیت کے نام پر عوام کا سیاسی اور معاشی استحصال جاری و ساری رکھا جائے۔

آپ تاریخ پڑھ لیں،آپ کے مطالعے میں یہ بات آجائے گی کہ سوچنے اور غور فکر کو عام کرنے والے سائنس دان،دانشور،اور سیاسی اکابرین کو سلطنت شعور پھیلانے کی پاداش میں قتل گاہوں تک لے گئی یا اقتدار کی طاقت نے ان سیاسی اور سائنسی سوچ کے دانشوروں کو اپنے بندی خانوں میں قید کرکے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا،گو ظلم کے خدا انسانی تاریخ میں ذلیل و رسوا ہوئے مگر وہ البیرونی اور گیلیلیو کی سائنسی دانش کو شکست نہ دے سکے۔

زمانے کے سیاسی اور سائنسی سوچ کے شعور نے اپنا فکری کام جاری رکھا اور جدید یورپ بھی کارل مارکس کی سیاسی و سائنسی سوچ کو تمام تر سرمایہ دارانہ سازشی حربوں کے باعث بھی مارکسی فکر و فلسفے کو بڑھنے اور پھیلنے سے نہ روک پایا…البتہ جبر و اقتدار کے زمینی خداؤں نے اپنی ریاستی طاقت سے ان باشعور سیاسی و سائنسی کے افراد کو کچلنے کا کام جاری رکھا اور سائنس کی معکوس ہوتی ہتھیاری طاقت سے ان سیاسی دانشوروں کو اپنے راستے سے جدید طریقے اپنا کر ہٹانے کی طاقت بھری کوشش کی جو کسی نہ کسی شکل میں آج کی بتائی جانے والی ترقی یافتہ دنیا میں تسلسل کے ساتھ جاری ہے،جو نہ صرف قال مذمت بلکہ سیاسی شعور کو بانجھ کرنے کے مترادف ہے۔

سیاسی اور سائنس کے عمل کو غلط ثابت کرنے کی جب دلیل سماج اور بطور خاص ریاست کے اقتداری قابضین کے پاس نہیں ہوتی تو وہ انسانی حرمت و فکر کو داغدار کرنے کے لیے سازش اور قتل کا سہارا لیتا ہے جو دیر سہی مگر وہ ظلم انسان میں سیاسی شعور کے اضافے کا ہی باعث بنتا ہے۔

سرمایہ دارانہ سماج میں ریاستوں کے وجود کی مٹی، قتل و غارت،سازش،قبضے کی تمنا،اقربا پروری اور عوام دشمن گمراہ کن بیانیے پر رکھی جاتی ہے،جس کا مقصد ایک خاص طبقے کی دھونس دھاندلی برقرار رکھ کر معدنی و معاشی وسائل پر مکمل گرفت کرنا ہوتا ہے،جس میں سرمایہ دارانہ نظام انسانی محنت کو زندہ رکھنے کے لیے تمام قابض وسائل کا وہی حصہ عوام تک منتقل کرتا ہے کہ جس سے عوام کو نظام چلانے کی حد تک زندہ رکھا جاسکے،اس ریاستی جبر اور اقتدار پر قابض طبقے کے درمیان اگر کوئی سماجی و سیاسی سائنس کی دانش عوام کے شعور کو صیقل کرنا چاہے تو اس دانش اور متحرک سیاسی دانش کو تہہ تیغ کرنے کا مکمل لائسنس ریاست کی بقا و سلامتی کے نام پر اقتدار پہ براجمان طبقے کو مل جاتا ہے اور پھر ریاست کے طاقتور خدا عوام میں اس دانش کے خاتمے کا سبب ’’غداری‘‘ بتاتے نہیں تھکتے اور قابض پروپیگنڈے کے تمام جدید طریقے استعمال کر کے ایک جانب عوام کو خوف زدہ کرتے ہیں تو دوسری جانب وہ مزاحمت کرنے والی قوتوں کو قتل گاہوں کے تشدد سے عوام کے سیاسی شعور بیدار کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں،مگر دنیا میں جبر و استحصال کے آگے بند باندھنے والے سرفروش پھر اسی سیاسی شعور اور لگن سے عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں جب کہ سیاسی شعور کے یہ عشاق بندی خانوں کے گھپ اندھیروں اور تشدد کی مشق بننے سے بے پرواہ جمہور کی آزادی کے پرچم لیے پھر نکل پڑتے ہیں۔

قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا یہی قصور تھا نا کہ وہ اپنے بھائی کے عوام سے کیے گئے جمہوری اور معاشی آزادی کے وعدے کی تکمیل چاہتی تھیں ،جنھیں جنرل ایوب کے قابض ٹولے نے ’’غدار‘‘قرار دے کر جدید سائنسی طریقے سے عدم کے حوالے کیا اور ایوبی مارشل لا کے ریاستی گمراہ کن پروپیگنڈے کی بنا پر محترمہ فاطمہ جناح کی ’’خفیہ موت‘‘ کے دھبے اب تک ایک گو مگو کی کیفیت میں ہے،کم و بیش یہی صورت محترمہ بے نظیر کے قتل کی ہے جسے ہنوز عقیدت کی کمین گاہوں میں ڈال کر اصل اسرار و رموز سے پوشیدہ رکھنے کے لیے پھولوں کی چادر سے ڈھانپا جا رہا ہے۔

ریاستی جبر و تشدد کے ابتدائی جائزے میں کمیونسٹ پارٹی کے ایوبی مارشل لا میں ریاستی تشدد سے کامریڈ حسن ناصر کا پر اسرار قتل جب کہ فاطمہ جناح کے اہم ترین،ہم رکاب طالب علم رہنما علی مختار رضوی کے شاہی قلعے میں بہیمانہ تشدد،جس میں جڑ سے ناخن نکالنے کا ہولناک عمل آج بھی شاہی قلعے کی چیخوں میں سنائی دیتا ہے۔

عوام کے سیاسی معاشی و جمہوری حقوق کی جنگ میں نجانے کتنے نا معلوم تشدد اور ریاستی ٹارچر کا نشانہ بن چکے ہیں مگر عوام کا اپنی آزادی لینے کے یہ کارواں ریاست کے تمام سیاسی اور معاشی جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے ہی کی سمت رواں دواں اور ناقابل شکست ہے جب کہ غیر جمہوری قوتیں اپنی جدید طاقت کے باوجود ان نہتے اور حقوق کی جنگ جیتنے کے دھنیوں کو نہ ڈرا پائی ہے اور نہ ہی اس کارواں کے بڑھتے قدم پیچھے کر پائی ہے کہ یہی سیاسی دانش کی وہ فتح ہے جو آخر کار سرخرو ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔