شمع فروزاں

ایم قادر خان  اتوار 27 جون 2021

ہندوستان میں برطانیہ نے اپنے عہد مختلف محکمہ جات قائم کیے۔ اس نے ہندوستان سے کمانے والی رقم کا صرف 2 فیصد زر خرچ کیا۔ بقیہ 98 فیصد اپنے ملک لے گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو برطانیہ سے ملازمت کرنے آتے ان کو برٹش گریڈ میں زیادہ تنخواہ ملتی اور مقامی لوگوں کو ہندوستان کے معمولی گریڈ میں محاصل دی جاتی۔شروع میں چھوٹے بڑے افسران برطانیہ سے آتے رہے مقررہ معیاد ملازمت پوری ہونے پر کہیں اور منتقل کردیے جاتے یا پھر اپنے ملک جاکر ملازمت اختیار کرتے۔

کہا جاتا ہے ہندوستان میں کام کرنے کے بعد انھیں اپنے ملک میں کام میں مزہ نہیں آتا جب کہ یہاں شدید گرمی ہوتی لیکن یہاں بے شمار مراعات ملتیں، جو وہاں نہیں ہوتی تھیں۔ اس ضمن میںمورخین و محققین نے حقائق پر مبنی کتب لکھیں، جن کی مثال دی جاتی ہے۔ ایک کلیکٹر اپنی بیوی اور سات سالہ بچے کے ساتھ ریل کی اسپیشل بوگی میں آرام دہ سفر کر رہے تھے۔

مختلف ریلوے اسٹیشن پر گاڑی رکی ، انجن ڈرائیور آ کر کلیکٹر صاحب سے ریل چلانے کی اجازت طلب کرتا۔ اس کا لڑکا ’’ہاں‘‘ کہتا تو وہ جا کر ریل کو آگے بڑھاتا، ہر اسٹیشن پر وہ بڑے ادب و احترام سے جا کر اجازت لیتا ،یہ ایک معمول تھا جب کبھی کوئی چھوٹا عہدیدار یا بڑا عہدیدار ریل میں سفر کرتا انجن ڈرائیور اسی طرح آ کر اجازت طلب کرتا۔

کلیکٹر کی معیاد ملازمت جو مقرر تھی پوری ہوگئی اس کو واپس وطن روانہ کردیا۔ وہ اپنی بیوی بچے کے ہمراہ انگلستان آگیا،وہ اپنی بیوی بچے کے ساتھ ریل میں سفر کر رہا تھا۔ ریل اسٹیشن پر رکنے کے بعد روانہ ہو جاتی، اجازت لینے ڈرائیور نہیں آتا۔ بچے نے محسوس کیا کہ انجن ڈرائیور اس سے اجازت کے لیے کیوں نہیں آ رہا۔ اس نے رونا شروع کردیا اس کو چپ کراتے رہے لیکن وہ روتا رہا۔

بالآخر رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا ہم جہاں پہلے رہتے تھے وہاں جب کبھی ریل پر سفر کیا انجن ڈرا ئیور پابندی سے آ کر ریل کو چلانے کی اجازت طلب کرتا تھا۔ یہاں کتنے اسٹیشن گزرے ریل رکی اور چل دی لیکن کوئی بھی انجن ڈرائیور اجازت کے لیے نہیں آیا۔ والدین یہ سن کر سخت پریشان ہوئے، برابر میں بیٹھے دوسری برطانوی بھی یہ سن رہے تھے۔

سمجھانے کی کوشش کی لیکن بات سمجھ میں نہ آئی، پھر انھوں نے اپنی اصل بات کہہ دی جو لوگوں نے سنی، بولے ’’بیٹا! وہ لوگ ہمارے غلام ہیں، غلام اپنے آقاؤں سے اجازت لیے بغیر کوئی کام نہیں کرتے، سو وہاں ریل کا انجن ڈرائیور ہم سے اجازت طلب کرتا تھا، لیکن یہاں ایسا نہیں ہے، یہاں ریلوے کا اپنا ضابطہ، نظام ہے۔‘‘ بچہ بولا تو وہاں ریلوے کا کوئی نظام یا ضابطہ نہیں؟ والد بولا! ایسا نہیں، بلکہ غلاموں کے لیے ان کے آقا سب کچھ ہوتے ہیں۔ یہ سن کر وہ خاموش ہوگیا۔

یہ بات اس انگریز کے لڑکے کو سمجھ میں آگئی، لیکن 1944 کے بعد سے ہمارے اکثر لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ وہ آزاد ہیں۔ کسی نے خوب کہا انگریز چلا گیا لیکن اپنے غلام چھوڑ گیا۔ انگلش آج تک نہایت اہم زبان شمار کی جاتی ہے تمام نجی و سرکاری اداروں میں سارا کام انگلش میں ہوتا ہے۔ قومی زبان اردو ضرور ہے لیکن وہ صرف غربا، مساکین، بے کس، لاچار لوگوں کے لیے لیکن جب کبھی ان کا کسی ادارے سے واسطہ پڑتا ہے تو درخواست انگلش میں لکھوانی پڑتی ہے۔

شاید اردو میں درخواست دینے سے کام نہیں ہوتا، کہتے ہیں محکمہ کے افسر پڑھ نہیں سکتے۔ حتیٰ کہ ہماری اسمبلیاں جہاں ہمارے اپنے نمایندے ہیں وہ بحث و مباحثہ اردو میں ضرور کرتے ہیں لیکن اسمبلی کی داستان و دلائل جس کو کمنٹس کہتے ہیں وہ انگلش زبان میں ہوتے ہیں۔ میرے ساتھی پوچھ رہے ہیں یہ سب کیا ہے؟ کوئی بتائے ، میں کیا جواب دوں؟۔کوئی اخبار اردو میں ضرور ہے لیکن دفتری کارروائی انگلش میں ہوتی ہے، ملازمت کے لیے انگلش لکھنا پڑھنا اور بولنا بہت ضروری ہے۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کیا ہمارا ذہن غلام تو نہیں؟۔

یہ حقیقت ہے ہمارے چند بڑے لوگوں کے ذہن غلام ہیں جو اپنی بالادستی چاہتے ہیں۔ وہ صہیونی طاقتوں سے درخواستیں کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارے ملک میں حکومت کا موقعہ دیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے موقعہ دیتا ہے اس کی مرضی ہوتی ہے میں جو کہہ دوں وہ ہوجائے جس قدر کرپٹ ہو سکتا ہے ہو۔ ٹیکس کا پیسہ، ملک کا زر لوٹ کر اپنی ملکیت بنائے پورے خاندان کو پروان چڑھائے شاید ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اگر کسی نے اپنے آقا کی مخالفت کی اس کو کسی نہ کسی حیلے بہانے سے ہٹا دیا یا قتل کروا دیا۔

حیرت زدہ بات ہے ہمارے ملک کے ایک مولوی انگریزوں کے پاس گئے۔ بولے میرے آقا! مجھے ملک کا سربراہ بنا دیں، پھر آپ جو کہیں گے میں وہ کروں گا۔ کوئی بھی اگر بات اسلام کی کرے اور نظر اسلام آباد پر جمی رہے کیا لوٹ مار کروں، کیا کھاؤں، بتاؤ میرے آقا کیا کروں؟۔ ملک سے پیار نہ عوام کا خیال غلطی سے اگر کوئی ایماندار، دیانتدار، مخلص، محنتی، جفا کش حکمران آجائے تو اس کی خیر نہیں۔ چور اچکے اس کو ایسا گھیرتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو جائے۔

کچھ ساتھی ایسے ہیں جو دونوں طرف ملے ہوئے ہیں عیاری، مکاری، چالبازی انھوں نے اپنے آقاؤں سے سیکھ لی ہے وہی کرتے ہیں۔ بہت مشکل ہے کوئی ایماندار ملک چلا سکے جب سب مل کر اسے چلانے نہیں دیں گے تو وہ کیسے چلائے گا۔ جو چاہتے ہیں وہ کرواتے ہیں پھر خود ہی کہتے ہیں یوٹرن ہے۔

بڑا مشکل ہے سچ کہنا بھی لوگوں کو ناگوار لگتا ہے ،مجھ سے کہنے لگے ’’ارے میاں! کیوں پھپھولے پھوڑتے ہو‘ میں نے کہا’’ اگر پھوٹ جائیں فرق نہیں ،یادوں کے چراغ اور شمع فروزاں روشن ہے‘‘ اکثر لوگوں نے دیکھا ہے کامیابی کا نشہ دماغ پر چڑھ جاتا ہے اور ناکامی ان کے لیے دل کا صدمہ بن جاتی ہے۔ وہ رزق کے پیچھے ایمان کیوں خراب کرتے ہیں کیونکہ روزی تو انسان کو تلاش کرتی ہے کسی کا نصیب یا مقدر کوئی چھین نہیں سکتا۔

ایک صاحب ہمیشہ سے یہی کہتے ہیں’’ میں نے ہار نہیں مانی، اگر میں ہار مانوں گا تو ہاروں گا‘‘ میرے ذاتی خیال میں’’ اگر ہم ہاریں گے نہیں تو کبھی جیت کا مزہ نہیں لے سکتے‘‘ لالچ سے پرہیز ضروری ہے کیونکہ یہ ایسی پیاس ہے کہ بڑے سے بڑے دریا کا پانی بھی نہیں بجھا سکتا۔ یہ ہمارا خاصا رہا ہے کہ جھوٹے، منافقوں کی باتوں کو سچ سمجھا، دھوکوں پر دھوکے کھاتے رہے، بلند و بانگ دعوے سنتے رہے بعد میں کہہ دیا وہ تو سیاسی بیان تھا۔

کیا سیاست جھوٹ، فریب، مکاری، عیاری کا نام ہے؟ جو سچ بتاتا ہے ہم اس کو جھوٹا کہتے ہیں اس کی صداقت پر یقین نہیں کرتے ان لوگوں کے بہکاوے میں آجاتے ہیں جو ہمیشہ بہکاتے رہتے آج بھی موجود ہیں اور بدستور بے کار ہیں بس ان سے سبھی خائف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔