پردے کی اہمیت

نسیم انجم  اتوار 27 جون 2021
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہر جگہ ایک ہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے ،وہ ہے عورت کے پردے کے حوالے سے، مبصرین اپنی اپنی بولیاں بول کر اپنی سوچ کا اظہار کر رہے ہیں، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے وزیر اعظم کے بیان کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ ظالم کا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’ریپ‘‘ کا کپڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، بچوں سے لے کر بڑوں تک لوگ زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں، ہمیں اپنی زبان اور معاشرے پر نظرثانی کرنی چاہیے، پردے سے متعلق وزیر اعظم عمران خان کے انٹرویو کے دفاع میں تحریک انصاف کی خواتین ارکان پارلیمنٹ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اپنے مذہب، ثقافت اور لباس پر فخر ہے، اسلام میں پردے سے متعلق احکامات ہیں، کوئی لبرل اور کرپٹ ہماری خواتین اور معاشرے کا ترجمان نہ بنے، نیز جنسی جرائم کے تدارک کے لیے میڈیا اور علما کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

مفتی منیب الرحمن کا بیان بھی سامنے آ گیا ہے، انھوں نے وزیر اعظم کے موقف کی تائید کی ہے۔ جمائما نے 8 اپریل کی ٹویٹ بھی دوبارہ کر دی کہ مسئلہ خواتین کے لباس میں نہیں اصل مسئلہ تو قوانین اور انصاف کی کمزوری اور عورت کے لباس میں ہی ہے۔ اس موقع پر بانو قدسیہ کے ایک مضمون کی چند سطور میری نگاہوں کے سامنے آ گئی ہیں۔ انھوں نے عورت کے نیم عریاں لباس کے بارے میں کہا تھا کہ جب کھلا گوشت ہوگا تو اس پر چیل کوے ضرور جھپٹیں گے۔

قرآن پاک کی سورۃ نور میں پردے کے احکامات واضح طور پر موجود ہیں۔ محرم اور غیر محرم کی تفریق کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔ سورۃ نور میں بہت سارے شرعی احکامات کا بھی ذکر ملتا ہے جیسے زنا کی حد، قذف کی حد، عورتوں پر حجاب واجب ہونے کے احکامات اور بزرگ خواتین پر حجاب کی رعایت کا واجب نہ ہونا، نکاح کے مسائل اور واقعہ ’’افک‘‘ اور دوسروں کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہونے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

اب جو دل سے مسلمان ہیں یقینی بات ہے انھیں عمران خان کا بیان قابل اطمینان لگا ہوگا اور اس بات کی بھی خوشی ہوگی کہ اب میڈیا کے ذریعے جو واقعات سامنے آتے ہیں ،ان سے بھی شاید نجات مل جائے اور موجودہ اور آنے والی نسل بے راہ روی سے اپنے آپ کو بچا لے۔ پاکستان میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے لیکن اسلامی تعلیم سے آشنا کہ ان کے گھروں کا ماحول غیر اسلامی تھا، پردہ کرنا تو دور کی بات وہ لباس کے معاملے میں بھی آزاد خیالی کو پسند کرتے ہیں۔

پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے جو ملک اسلام کے نام پر بنا ہو تو اس ملک میں تو لازم ہے اسلامی قوانین کا احترام کیا جائے ہمارے پڑوسی ملک ایران، سعودی عرب میں باقاعدہ حجاب لیا جاتا ہے اور بھی کئی اسلامی ممالک ہیں جہاں کی خواتین مکمل پردہ کرتی ہیں،لیکن اس کے ساتھ شرعی طور پر جو سزائیں مقرر ہیں ان پر بھی عمل کیا جاتا ہے۔ اسی لیے وہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔

گزشتہ سالوں میں، میں نے کئی بار یو اے ای کا سفر کیا، اکثر اوقات میٹرو کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا اتفاق ہوا۔ دبئی میں مکمل آزادی ہے جس کا جو دل چاہے لباس زیب تن کرے۔ لہٰذا غیر مسلموں کے ساتھ کچھ مسلم خواتین ہم سفر کے طور پر سیٹوں پر براجمان نظر آئیں لیکن بغیر پردے یا حجاب کے، سب کی ڈریسنگ ایک ہی طرز کی تھی ان کے لباس کی تراش خراش نے مسلمان ہونے کی شناخت کو ختم کر دیا تھا اور جو باپردہ تھیں یا اپنے سروں کو حجاب سے ڈھانپا ہوا تھا تو وہ دور سے ہی پہچانی گئیں کہ یہ دختران امت مسلمہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ہر دین کا ایک امتیازی وصف ہے اور اسلام کا امتیازی وصف ’’حیا‘‘ ہے۔ بے شک حیا ایمان کی شاخ ہے، ایمان کا حصہ ہے،جس کے پاس شرم و حیا نہیں اس کے پاس ایمان نہیں۔

جس وقت پاکستان وجود میں آیا تھا اور مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے پاکستان پہنچے تھے اس وقت سے وہ خواتین پردے میں رہ کر زندگی کے امور انجام دیا کرتی تھیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں انھیں ایسی آزادی نصیب ہوئی کہ بے شمار مستورات برقعے سے آزاد ہوگئیں اور پھر جب جنرل ضیا الحق کا دور آیا تو ان کے دور حکومت میں خواتین کو اسلامی قوانین کا احترام کرنا پڑا۔

اب اسکول و کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر چادر یا سفید دوپٹے سے اپنے آپ کو ڈھانپنا ضروری ہو گیا تھا، وقت کا پہیہ یوں ہی گھومتا رہا موجودہ وقت ماضی کی اتھاہ وادیوں میں اتر گیا اور حال مستقبل کی جانب بڑھتا چلا گیا، ایک بار پھر روشن پاکستان کے نام پر عریانی عروج پر آ گئی۔ ، جب اخلاق رہا نہ تہذیب، شرافت اور انسانیت کے پرخچے اڑ گئے، بھتہ خوری، ڈکیتی کی وارداتیں سر عام ہونے لگیں۔ عام و خاص کے لیے زندگی اجیرن ہو گئی۔ جنگل کا قانون اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ درپیش تھا۔

وقت نے پھر کروٹ بدلی، سابقہ حکومتوں کی کرپشن کے قصے عام ہوئے، عدالتیں اور جیل خانے بڑے مجرموں اور کل کے حاکموں سے آباد ہو گئے ایک افراتفری شور و غل، سچ کو جھوٹ کے سانچے میں تبدیل کرنے کے لیے سازشیں اور عداوتیں عروج پر پہنچ گئیں کہ سانچ کو آنچ نہیں، کبھی نہ کبھی تو جرم بے نقاب ہوتا ہے اور حق سورج کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے اور کذب کی ردا کو تار تار کر دیتا ہے۔

کچھ ایسی ہی صورتحال ان دنوں ہے، عمران خان نے ایچ پی او کے میزبان کی جانب سے لیے گئے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بے پردہ عورت اور وہ بھی ماڈرن اسے دیکھ کر مردوں پر اثر تو ہوگا وہ روبوٹ تو نہیں ہیں، آج عمران کے جواب کی سچائی کو اگر دیکھا جائے تو معاشرے کی صورتحال کو دیکھا جا سکتا ہے، آفس، کارخانے، فیکٹریاں، تعلیمی ادارے ہر جگہ عورت کو ہراساں کیا جاتا ہے، اب وہ ملازمت چھوڑ دے یا حالات سے سمجھوتہ کر لے، اچھے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، کچھ اچھے لوگ بھی ہیں اس جہان میں ہیں جن کی وجہ سے کاروبار زندگی چل رہا ہے۔

اکبر الٰہ آبادی نے مشرقی اور مغربی عورت کی تعلیم و تربیت کا موازنہ کرتے ہوئے آج سے تقریباً ایک صدی قبل ہی یہ کہہ دیا تھا:

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا

نوجوانوں کو درس دیتے ہوئے کہتے ہیں:

وہ باتیں جن سے قومیں ہو رہی ہیں نامور سیکھو

اٹھو تہذیب سیکھو‘ صنعتیں سیکھو‘ ہنر سیکھو

خدا کے واسطے اے نوجوانو! ہوش میں آؤ

دلوں میں اپنے غیرت کو جگہ دو‘ جوش میں آؤ

آج پوری دنیا میں امت مسلمہ جس پستی اور ذلت کا شکار ہے اس کا اصل سبب قرآنی تعلیم سے دوری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔