ٹیکس سسٹم بہتر بنانے کی ضرورت

ایڈیٹوریل  پير 28 جون 2021
 پاکستان میں معاشی اور سماجی ترقی کے عمل میں بہت سی رکاوٹیں ہیں  فوٹو: فائل

پاکستان میں معاشی اور سماجی ترقی کے عمل میں بہت سی رکاوٹیں ہیں فوٹو: فائل

قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران تقریر کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ اگرکوئی شخص جان بوجھ کر ٹیکس نہیں دے رہا تو اسے گرفتارکیا جائے گا ۔ یہ امیدوں کا بجٹ ہے ، حکومت غریب آدمی پر بوجھ نہیں ڈالے گی ، وزیراعظم آئی ایف کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس مرتبہ4.7ٹریلین کے ٹارگٹ سے تجاوزکریں گے ، ٹیکس وصولیوں کا ہدف کراس کریں گے ، قومی اسمبلی میں مجموعی طور پر 3088ارب 54کروڑ روپے کے 49 مطالبات زر منظور ہوئے ، جب کہ اپوزیشن کی کٹوتی کی تحاریک کثرت رائے سے مسترد ہوئیں ۔

تحریک انصاف کی حکومت کا مسلسل یہ تیسرا بجٹ ہے ، جو  قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے، دنیا بھر میں ٹیکس کا اصول یہ ہے کہ امیروں سے لے کر غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے مگر پاکستان واحد ایسا ملک ہے جہاں کے غریب بالواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکس کی مد میں امیروں سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ،گویا ہمارا غریب طبقہ امراء کو پال رہا ہے۔

ٹیکس حکام کی تعیناتی میں شفافیت کے بجائے بالادست طبقہ کی پسند کو ترجیح دینا ہے۔پارلیمنٹ کے بجائے انتظامیہ کو ٹیکس قوانین میں ردوبدل کا اختیار دینے سے کئی مسائل نے جنم لیا ہے جو معیشت اور عوام کا گلہ گھونٹ کر امراء کے خزانے بھر رہا ہے۔ ایک مضبوط رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ آئی ایم ایف، سول سوسائٹی اور حکومت کے اپنے حلیفوں کی مخالفت کے باوجود مسلسل ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کی مدد سے ٹیکس چوروں کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے، جس سے ایماندار ٹیکس گزاروں کو بھی چوری کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ دیانتداری کا سبق دینے والے خود کس طرح بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں، یہ تضاد ہماری اشرافیہ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

پاکستان میں معاشی عدم مساوات اور اختیارات کے استحصالانہ استعمال پر اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے تحت نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ جاری کی گئی ، جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں 26 کھرب 60 ارب روپے اشرافیہ کی مراعات پر خرچ ہوتے ہیں۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ملک کی معیشت، سیاست اور سماج پر تسلط رکھنے والا طبقہ اپنے منصفانہ حق سے کئی گنا زائد کے حصول کے لیے اپنی سماجی اور سیاسی حیثیت کو استعمال کرتا ہے۔

اسی طرح جاگیردار اور بڑے زمیندار جو آبادی کا تو ایک اعشاریہ ایک فیصد ہیں لیکن ملک کی 22 فیصد قابلِ کاشت زمین کے مالک ہیں۔ ملک کا ایک منظم اور طاقتور ادارہ زمین سرمایہ، انفرااسٹرکچر اور ٹیکس چھوٹ کی مد میں دو کھرب ساٹھ ارب روپے کی مراعات لے رہا ہے۔ ریاست کے نظام پر غلبہ رکھنے والے امراء اور اشرافیہ نے معاشی نظام کو استوار ہی ایسے خطوط پر کیا جو عوام کو آسودگی دینے کے بجائے حکمرانوں کے عالمی مفادات کو تحفظ اور فروغ دے۔

خبر کے مطابق وفاقی حکومت نیب کو سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی دینے کی تجویز پر غورکررہی ہے ،جس کا حتمی فیصلہ وزیراعظم کریں گے ، جب سے یہ خبر سنی ہے کہ کئی ارکانِ اسمبلی حتی کہ وفاقی وزرا بھی ایف بی آر کے ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں، حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں معمولی درجے کے کلرک بھی ایف بی آر کے شکنجے میں آ جاتے ہیں وہاں یہ بڑے بڑے ناموں اور گاڑیوں نیز بنگلوں والے کس طرح ٹیکس دیے بغیر قوم کی نمایندگی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں ۔

ایف بی آر کے کرتا دھرتا جو عام آدمی کو ٹیکس نوٹس بھیج دیتے ہیں اور گوشوارے جمع نہ کرانے پر جرمانے کرتے ہیں، یہاں وہ کیوں خاموش ہو جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیکس نہ دینے والوں کے کوائف خود ایف بی آر نے جاری کیے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان کے اثاثوں، ان کے نام گاڑیوں اور دیگر تعیشات کی تفصیل ہی وہ جان لیتے تو انھیں اس طرح ان کی فہرست نہ جاری کرنا پڑتی، بلکہ ان کے ساتھ بھی وہ اسی طرح کا سلوک کرتے، جیسا عام آدمی کے ساتھ کرتے ہیں۔

سرکار کی ملازمت سے ریٹائر ہونے کے باوجود ، ہر شخص، ہر سال گوشوارے بھرتا ہے، نہ فارم بھرے تو نوٹس آ جاتا ہے اور یہ دھمکی بھی دی گئی ہوتی ہے کہ بیس ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ چھ لاکھ تک سالانہ آمدنی رکھنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے، مگر جن کی روزانہ آمدن چھ لاکھ روپیہ ہے وہ بغیر ٹیکس دیے دندناتے پھر رہے ہیں، یہی نہیں، بلکہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام کو ٹیکس دینے کا ’’بھاشن ‘‘بھی دیتے ہیں۔موجودہ نظام ایماندار ٹیکس گزاروں اور عوام کے لیے مصیبت اور اشرافیہ کے لیے راحت کا سبب ہے جن میں عوام کی خون پسینے کی کمائی حکمرانوں اور بیورو کریسی کی عیاشیوں کی نذر ہو جاتی ہے۔

جس ملک میں قرضے معاف کروانے کی روش عام ہو اور جہاں صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ اور اپوزیشن ٹیکس ادا نہ کرتی ہو،جب کہ ہمارے تاجر ہمیشہ ٹیکس دینے کے نام پر چڑ جاتے ہیں۔ ہڑتالیں کرتے ہیں، ان کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ ان سے فکس ٹیکس لے لیا جائے، انھیں ایف بی آر کے اہلکاروں کے سپرد نہ کیا جائے۔

سترہ فیصد جی ایس ٹی ، جس کا نام ہی جنرل سیلز ٹیکس ہے جو ہر اس فرد پر واجب الادا ہے جو کوئی چیز سیل کر رہا ہے۔ تاجروں نے سترہ فیصد ٹیکس سارے کا سارا عوام پر منتقل کر دیا جو بہت بڑی لا قانونیت ہے، ہمارے ہاں چونکہ پرائس کنٹرول کا نظام کام ہی نہیں کرتا اس لیے تاجر طبقہ اپنی من مانی میں آزاد ہے۔دکاندار جب جی ایس ٹی کی رقم خریدار سے لے رہا ہے تو PTO ایف بی آر کے ریکارڈ میں یہ رقم خریدار کے ٹیکس ادائیگی کے کھاتے میں جمع ہونی چاہیے۔

اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ خریدار کا شناختی کارڈ نمبر رسید پر درج ہو اور جو ٹیکس ریفنڈ تاجر یا دکان دار لے جاتا ہے اس پر اس شخص کا حق تسلیم کیا جائے جس کی جیب سے یہ پیسے گئے ہیں اگر یہ سسٹم لاگو کر دیا جائے تو ٹیکس نظام میں ایک انقلاب آ جائے گا ۔ یہاں تو حاصل یہ ہے کہ ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے پر جی ایس ٹی کاٹ لیا جاتا ہے مگر ایف بی آر خود تسلیم کر چکی ہے کہ وہ گاہک سے ٹیکس لے لیتے ہیں مگر حکومت کو نہیں دیتے۔

یہ کتنا بڑا قومی المیہ ہے کہ ہمارے یہاں طبقہ امرا ٹیکس نیٹ سے باہر ہے ، ان کے شاہانہ طرز زندگی پر نظر ڈالیں توایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی ریاست کے مہاراجہ ہیں ، حیرت ہوتی ہے کہ یہ پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک سے تعلق رکھتے ہیں ۔پاکستان کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے وڈیرے ، جاگیردار ٹیکس ادا کرنے کی زحمت نہیں کرتے ، البتہ ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ بینکوں سے لیے گئے اربوں کے قرضے معاف کروالیتے ہیں ۔ روزمرہ شاہانہ زندگی گزارتے ہیں، لگژری گاڑیوں اور سیکیورٹی گارڈ کا قافلہ ان کے ساتھ چلتا ہے ، لیکن قومی خزانے میں پھوٹی کوڑی تک جمع نہیں کرواتے ہیں۔

خیبر پختون خو ا میں خوانین کا راج ہے ، وہ خود کو کسی قانون کا پابند نہیں سمجھتے۔ صوبے میں این سی پی (نان کسٹم پیڈ) گاڑیوں کے باقاعدہ بازار سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں لگتے ہیں ، جہاں پر لگژری گاڑیوں خریدوفروخت کی سرعام ہوتی ہے اور قومی خزانے میں کسی بھی قسم کا ٹیکس جمع نہیں کروایا جاتا ہے، اسی طرح بلوچستان کے علاقے چمن میں بھی غیرقانونی طور پر گاڑیوں کی وسیع پیمانے پر خرید وفروخت ہوتی ہے،بجلی کے بل بھی صوبوں میں جاگیردار اور وڈیرے ادا نہیں کرتے،یعنی ہمارے صوبے لاقانونیت اور ٹیکس چوری پر قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں ، جب صوبے اپنا ریونیو اکٹھا نہیں کرپاتے تو وفاق پر لفظی گولہ باری شروع کردیتے ہیں ۔

یہ روش اور چلن قابل افسوس ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کو ان سطور کے ذریعے تجویز پیش کی جارہی ہے کہ اس ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں تاکہ قومی خزانے میں خاطر خواہ رقم جمع کرنے کا بندوست ہوسکے ۔ امید ہے کہ وفاقی وزیرخزانہ اس پہلو پر بھی غور کریںگے ۔

ملک کے اندر کام کرنے والے سیکڑوں خیراتی ادارے ٹیکس فری ہیں ، سرکاری زمینیں بھی جنھیں تقریباً مفت الاٹ کی جاتی ہیں ، جب کہ ان فلاحی اداروں کے منتظمین کا لائف اسٹائل شاہانہ ہے ۔ سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کا یہ طریقہ بند کیا جائے، جومتمول افراد ایسے ادارے قائم کرنا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنی جیب سے رقم خرچ کر کے عوام کی خدمت کریں ناکہ سرکاری خزانے کومالی نقصان پہنچائیں ۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان میں معاشی اور سماجی ترقی کے عمل میں بہت سی رکاوٹیں ہیں، حکمران طبقے انتظامی اور معاشی شعبوں میں ضروری اصلاحات کے لیے آمادہ نہیں ہیںکہ ان کی اولین ترجیح اپنے طبقاقی مفادات ہیں۔ پاکستان میں حقیقی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک طبقہ امرا سے باقاعدہ ٹیکس ان کی آمدنی کے مطابق حاصل کرکے اسے عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ نہ کیا جائے ۔ تبدیلی کی امید پرتقریباً تین برس بیتے چکے ، وفاقی وزیر خزانہ اور حکومت کو عام آدمی کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ، ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جس سے عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔