- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
50 لاکھ گھروں کی فراہمی کا منصوبہ سست روی کا شکار
اسلام آباد: حکومت کے 50 لاکھ گھروں کی فراہمی کا منصوبہ سست روی کا شکار ہوگیا۔
وزیراعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف نے عوام سے سب سے اہم وعدہ جو کیا تھا وہ غریب طبقے کو 50 لاکھ گھر بناکر دینے کا تھا، تین سال میں نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام لانچ کیا گیا جس کے لیے کم آمدنی والے طبقے کو رعایتی شرح پر قرضے دلوانے کا اعلان کیا گیا۔ تادم تحریر 1500ہاؤسنگ یونٹس حوالے کردیے گئے ہیں جب کہ مختلف شہروں میں 5000 یونٹس زیرتعمیر ہیں۔ اس رفتار سے حکومت کی مدت پوری ہونے تک نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت صرف 1 فیصد ہی ہدف پورا ہوسکے گا۔ نجی شعبہ نفع کے لیے کام کرتا ہے۔
ہاؤسنگ مارکیٹ کے معاملے میں فوائد کم آمدنی والے طبقے کے لیے کسی بھی بزنس ماڈل کو فیور نہیں کرتے۔ مارکیٹ کی اس ’’ ناکامی‘‘ کو فوائد کے اسٹرکچر ( incentive structure ) میں تبدیلی کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔ ایک افورڈیبل ہاؤسنگ پروجیکٹ پر پانچ سال میں سالانہ شرح نفع 10 فیصد ہوگی۔ یہ نجی سرمایہ کاروں کے لیے پُرکشش نہیں ہے۔ اگر پانچ سال کے عرصے کو نصف کردیا جائے تو شرح نفع دگنی یعنی 20 فیصد ہو جائے گی جو نجی سرمایہ کاروں کے لیے بہت پُرکشش ہوگی۔
چیلنج پلاننگ اور اپروول پروسیس کو ری انجنیئر کرنا ہے۔ ایک ہاؤسنگ اسکیم کی پلاننگ اور اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے این او سی حاصل کرنے میں تین سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اسے کم کرکے 6 ماہ تک لایا جاسکتا ہے۔ منظوری کے بعد کا مرحلہ اسکیم کو ڈیولپ کرنا، انفرا اسٹرکچر بچھانا اور مکانات تعمیر کرنا ہے۔ نجی شعبے کے ڈیولپرز پر شہری اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ حکومت یا کوئی ریگولیٹری باڈی ڈیولپرز کی سرٹیفکیشن میں مدد کرسکتی ہے۔ اس طرح ہاؤسنگ مارکیٹ میں نجی شعبے کی ناکامی کا ازالہ قواعد و ضوابط میں تبدیلی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔