فلمی صنعت کو شناخت کی ضرورت

ایڈیٹوریل  منگل 29 جون 2021
 ضرورت ایک فلمی صنعت کی تلاش کی ہے جو اپنے اصل کی طرف لوٹے، ایسے اداکار اور ٹیکنیشنز کی تربیت کا ٹاسک مکمل کرے۔ فوٹو؛ گوگل

ضرورت ایک فلمی صنعت کی تلاش کی ہے جو اپنے اصل کی طرف لوٹے، ایسے اداکار اور ٹیکنیشنز کی تربیت کا ٹاسک مکمل کرے۔ فوٹو؛ گوگل

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا سافٹ امیج خود مختاری ہے، نیشنل امیچور شارٹ فلم فیسٹیول کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ سافٹ امیج یا روشن خیالی کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی اصل کو چھوڑ دیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ اپنی اقدار، تہذیبی شناخت اور ثقافتی پہچان ہمارے فنکاروں کا اصل ورثہ اور اثاثہ ہے، اسی سے قوم پہچانی جاتی ہے اور فنکار عالمی برادری میں اپنے ملک کے سفیر شمار ہوتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ دوسروں کی نقل کرنے سے عزت نہیں ہوتی، خود اعتمادی اور عزت نفس سے ہی خود کو منوایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے آئی ایس پی آر کو فیسٹیول کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک نئی شروعات ہے، ہم صحیح راستے پر چل پڑے ہیں۔ مختصر دورانیہ کی فلموں کی ترقی کے لیے نوجوانوں کو وظائف دیے جائیں گے۔

بلاشبہ فلمی صنعت ، ٹیلی ویژن اور تھیٹرکی ترقی پر فیسٹیول کا انعقاد ایک بریک تھرو ہے، اگر تاریخی حوالہ سے پاکستان کی فلمی صنعت کے ارتقائی دورکو دیکھا جائے تو برصغیر کی تاریخ فلم اور تخلیق کے مسائل میں مختلف مائنڈ سیٹس سے لڑتی رہی ہے، فنون لطیفہ کو برصغیر میں قبولیت ملنے میں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ، پہلی بولتی فلم ’’ عالم آرا ‘‘ سے جو فنکارانہ کشمکش شروع ہوئی وہ مصوری ، عکاسی ، مجسمہ سازی ، ڈرامہ ، اداکاری ، رقص، نوٹنکی اور سینما بینی کے خلاف آج کی انہدامی کارروائی پر جاکر رکی، بھارتی فلموں پر پابندی کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی کہ اگر انڈین فلموں کی پاکستانی سینما پر نمائش نہیں ہوگی۔

ان فلموں پر پابندی ہوگی تو لامحالہ پاکستانی فلموں کی ملک میں پذیرائی ہوگی، ملکی فلمیں ترقی کریں گی تقسیم کار ونمائش کار خوش ہوئے کہ ان کی مارکیٹس میں پھیلاؤ آئیگا، یہی بات ’’جال ایجی ٹیشن‘‘ کی بنیاد بنی، فلم انڈسٹری کی جید شخصیات ، ہیروئنوں ، اداکاروں ، ہدایتکاروں اور فلم سازوں نے اپنے مطالبات کے حق میں بیمثال احتجاجی مظاہرے کیے، لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد میں ہماری فلمی صنعت کے ارباب اختیار کچھ فنی تقاضوں کو بھول گئے۔

انھیں یاد رکھنا چاہیے تھا کہ بھارتی فلموں پر پابندی لگنے سے مسابقت اور مقابلہ کا کوئی رجحان نہیں رہے گا اور اس یک طرفہ ٹریفک کا نقصان وہی ہوا کہ تخلیقی عمل میں ہمارے مقابل جب انڈیا کی دیو ہیکل انڈسٹری کو پاکستانی فنکاروں سے مقابلہ کا میدان خالی ملا تو ہم اس فکری بحران کی تب نہ لاسکے، اور بھارتی ادبی دنیا اپنی اسکرپٹ رائٹرز اور انقلابی شعرا کا  لشکر میدان میں لے آئی، پھر انڈیا نے ثقافتی انقلاب کی دھمکی دے ڈالی، ہمارے جو اوریجنل اور تخلیقی اداکار، شاعر اور و دیگر فنکار تھے۔

جنھوں نے موسیقی میں نام پیدا کیا تھا، پاکستان آگئے، رفتہ رفتہ اسٹوڈیوز کی تعمیر پر توجہ دی گئی، مگر حکومتی سطح پر فلم کے بڑے میڈیم پر توجہ نہیں دی گئی، فنون لطیفہ شجر ممنوعہ ہی رہے، دنیا پر ہالی ووڈ کی حکمرانی قائم ہوئی، مشرق و مغرب، شمال وجنوب سے تجربہ کار اور ذہین کیمرہ مین ، تدوین کار اور میک اپ مین فنکار ، ہدایت کار اور فلم ساز اپنے دیگر ٹیکنیشنز کے ہمراہ ہالی وڈ پہنچ گئے، ان میں بڑے نامور فلم ساز اور ہدایتکار شامل تھے، اسی طرح فلمی دنیا کی ساحراؤں نے برطانیہ، اٹلی، جرمنی اور فرانس سے ہالی وڈ میں سکونت اختیار کر لی، آج آسٹریلیا فلمی مرکز ہے۔

ادب کے دریچے کھل گئے، اہم ناولوں پر فلمیں بنائی گئیں، اگرچہ آج بھی اس انداز نظرکا تسلسل جاری ہے کہ مشہور ناولو( پر اکثر بننے والی فلمیں کامیاب کو نسخہ نہیں۔ مگر ارنسٹ ہیمنگوے کے ناولز مقبول ہوئے، گلوبل ولیج میں فلم انڈسٹری دنیا کی طاقتور ترین مارکیٹ بن گئی۔ بھارت نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا لیکن، وہاں شہرت، دولت، سیکس، فیشن کے گیٹ کریش ہوگئے، خان برادر نے میدان مار لیا، ہماری بدنصیبی سیاسی، تیکنیکی، تجارتی، تخلیقی اور فکری حوالوں سے جمود، تیکنیکی پسماندگی اور غلامانہ سوچ سے دامن نہ چھڑا سکی۔

ہم نے چربہ سازی میں کمال حاصل کیا، اور بقول وزیراعظم اپنے اصل کو چھوڑ دیا، دوسری طرف Gone with the Wind, Wuthering Heights نامی ناولوں پر مبنی فلموں نے جھنڈے گاڑ دیے تھے، مارشل آرٹ، وائلنس، اور وار و ہارر مویز، کارٹون، ٹیکنالوجی پر مبنی فلمی موضوعات کی دوڑ شروع ہوگئی، جو انڈیا میں بھی مقبول تھے وہ پاکستان آگئے، ان کے ناموں کی فہرست گنوانے کی ضرورت نہیں، صرف نوشاد اور خورشید انور ایک اہم حوالہ کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے پاکستان فلم انڈسٹری کا ارتقا دیکھا ہے، ہم غلط راستے پر جانا شروع ہو گئے تھے اور اپنی سوچ اور کلچر کو اجاگر کرنے کے بجائے بھارت کی نقل کرنا شروع کر دی تھی۔ اس کے برعکس پاکستان ٹیلی ویژن نے بہترین ڈرامے تیارکیے جو بے حد مقبول ہوئے، فحاشی ہالی وڈ سے بالی وڈ اور پھر ہمارے یہاں آئی، ہم نے بھارتی فلموں کو کاپی کرکے اپنی شناخت خراب کی، پاکستانیت کے بجائے ایک دوسری ثقافت کو اپنا لیا، انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ فلم انڈسٹری میں نئی سوچ لے کر آئیں گے۔ ع

مران خان نے مختلف کیٹیگریزکی شارٹ فلمزکے مقابلوں میں پوزیشن حاصل کرنے والے نوجوانوں میں انعامات تقسیم کیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا  نئے پاکستان کا سفر شروع ہو چکا ، حکومت نے تمام وعدے پورے کیے ہیں، ریاستوں کے بیانیے کے فروغ کے لیے میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے۔  اے پی پی، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کو اگست تک ڈیجیٹلائزکرنے کا آغاز کریں گے۔

آئی ایس پی آر نے پاکستان میں مختصر دورانیہ کی فلموں کو نئی جہت بخشی ، دنیا میں جنگیں بیانیے کے ذریعے لڑی جاتی ہیں ، جس کا بیانیہ جتنی پذیرائی حاصل کرے گا ، اسی سے جیت کا تعین ہوگا۔ اس کے مقابلے میں ہم اپنا بیانیہ اجاگر نہیں کر سکے جس کی وجہ سے دنیا نے ہماری قربانیوں کا اس طرح اعتراف نہیں کیا جس طرح کرنا چاہیے تھا، کیونکہ ہم نے رائے عامہ بنانے کے لیے کام نہیں کیا۔

اگست تک میڈیا ٹیکنالوجی یونیورسٹی بن جائے گی۔ ہمارے نوجوانوں میں بڑی صلاحیت ہے اور اللہ نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے۔ نوجوانوں کی بنائی ہوئی مختصر دورانیہ کی فلموں سے ملک کا مثبت امیج اجاگر ہوگا۔ انھوں نے بتایا کہ پورے پاکستان سے مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے فیسٹیول کے لیے سیکڑوں فلمیں تیارکیں اور مقابلے میں حصہ لیا۔

آج ضرورت اس مائنڈ سیٹ کو شکست دینے کی ہے جو قیام پاکستان سے سرگرم عمل ہے، جس نے پاکستانی ثقافت کو دلدل میں گھسیٹ لیا اور فلم انڈسٹری میں تازہ ہوا آنے کا راستہ روک لیا ، ان عناصر نے مجسمہ، سازی، مصوری، اور دیگر تخلیقات کی نشوونما میں روڑے اٹکائے، کوئی فلم اکیڈمی قائم نہیں کی، مدت بعد اور بڑی مشکلوں سے ضیا محی الدین نے کراچی آرٹس کونسل کے سامنے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس ’ناپا‘ قائم کی ، آج اس ادارہ سے ایک بڑی تعداد میں نئی نسل کے فنکار اور تھیٹر نے ذہین اداکار تربیت پاکر ٹی وی چینلز اور فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

ہمیں اس قومی ورثہ کے ضیاع کا ادراک کرنا چاہیے، تنگ نظری اور فن دشمنی نے ہم سے استاد بڑے غلام علی خان چھین لیا، کہاں گئے عالمی شہرت یافتہ مصور گل جی، متعدد اہل نظر مصور، ستار نواز ، بینجو نواز، بانسری، شہنائی اور الغوزہ جیسے دلنشین فنون؟ امراؤ بندو خان کے خانوادہ ہوں یا ہمارے دیگر خانوادے جو سر سنگیت کے بادشاہ کہلاتے تھے، سب چراغ بجھ گئے، خطاطی کا آرٹ، اگر دیکھا جائے تو کتابت کی طرح ہماری تہذیبی اور دینی میراث تھی، کمپوزنگ ٹیکنالوجی کی جدید لہر نے اہل قلم خطاط اور کاتبوں کو بے روزگار کردیا، منفرد و بے مثل تھے انھوں نے شادی کارڈ لکھ کر اپنے رزق کا وسیلہ بنا لیا ، صادقین کا آرٹ اور ان کی خطاطی کو کون یاد کرتا، عبدالرحمان چغتائی اور آذر زوبی کسے یاد آتے ہیں۔

وزارت ثقافت کو ان تمام فنکاروں، ستارہ نوازوں، فنکاروں کے عزیز واقارب اور ان کی جدوجہد، ریاضت اور دشت نوردی و تاریخ محفوظ کرنی چاہیے، مشہور ہدایت کار رچرڈ بولسیوسکی کا کہنا تھا کہ مجھے ایک ایسے اداکار کی ضرورت ہے جو جرمن اور فرانسیسی ادب میں رومانویت کے فرق سے آگاہ کرسکے، مجھے ایسا اداکار لادیجیے جو انسانی علم الابدان کی باریکیوں سے واقف ہے، کیا ہم ایسا اداکار اب تک ڈھونڈ سکے ہیں، گزشتہ دنوں ٹیلیویژن ڈراموں کے مرکزی خیال زیر بحث آئے، اب معروف ٹی وی اداکارہ ثانیہ سعید نے ٹی وی رائٹرز کو بدلنے، ان سے بہترین اسکرپٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بغیر ایک دلچسپ اور تخلیقی اسکرپٹ کے اداکار اپنی اداکاری میں کتنا رنگے بھرے۔ کہتے ہیں ہدایت کار ولیم وائلر نے بن حر کے مرکزی کردار چارلٹن ہیسٹن کو ایک منظر کے دو بار ری ٹیک پر ٹوکا کہ ’’کیا مسئلہ ہے تم ایک مختصر مکالمہ میری منشا کے مطابق نہیں بول پائے‘‘ جس پر ہیسٹن نے تاریخی جواب دیا کہ ’’ میں ویسا ڈائیلاگ شاید نہ بول سکوں کیونکہ اسکرپٹ میں مجھے کہنا ہے ’’میں یہودی ہوں، ‘‘ جب کہ میں اصل میں یہودی نہیں عیسائی ہوں‘‘ حقیقت میں پی ٹی وی ڈرامے کے مضبوط نظریاتی اسکرپٹ میں ہدایت کار ہی رنگ بھرتا ہے۔

اب ضرورت ایک فلمی صنعت کی تلاش کی ہے جو اپنے اصل کی طرف لوٹے، ایسے اداکار اور ٹیکنیشنز کی تربیت کا ٹاسک مکمل کرے، دور حاضر کے موضوعات پر فلمیں بنائے، کوچہ عشق اور تشدد و خونریزی سے باہر نکلے، فیض نے کہا تھا کہ :

زندگی صرف محبت نہیں کچھ اور بھی ہے

زلف و رخسار کی جنت نہیں کچھ اور بھی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔