- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
کورونا وائرس کا سراغ لگانے والا ماسک تیار
میساچیوسٹس: امریکا میں ہارورڈ یونیورسٹی کے وائس انسٹی ٹیوٹ اور میساچیوسٹس انسٹی آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ایک ایسا جدید ماسک تیار کرلیا ہے جو اپنے پہننے والے کی چند سانسوں کے ذریعے، صرف 90 منٹ میں کورونا وائرس کا سراغ لگا سکتا ہے۔
یہ ماسک دراصل ایسی ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے جس کے تحت حیاتیاتی مادّوں کو محسوس کرنے والے آلات (بایو سینسرز) کپڑے میں شامل کرکے، وہ کپڑا اس قابل بنایا جاتا ہے کہ کسی خاص حیاتیاتی مواد (جراثیم، وائرس یا ان سے خارج شدہ مادّوں وغیرہ) کی شناخت کرسکے۔
اگرچہ ماضی میں اس طرح کی ٹیکنالوجی پر کام ہوتا رہا ہے لیکن اس میں استعمال ہونے والے بایو سینسرز میں زندہ خلیوں کی ضرورت پڑتی تھی۔
اس کے برعکس نئی ٹیکنالوجی میں، جسے ’’ڈبلیو ایف ڈی سی ایف‘‘ (wFDCF) یعنی ’’ویئریبل فریز ڈرائیڈ سیل فری‘‘ کا نام دیا گیا ہے، صرف اُن اہم خلوی اجزاء (بایومالیکیولز) سے کام ہوجاتا ہے جو بخارات کی شکل میں ہوتے ہیں۔
کپڑے کے ساتھ منسلک کیا گیا نظام، جو بہت کم بجلی استعمال کرتا ہے، ان بخارات کو جکڑتا ہے اور منجمد و خشک کرنے کے بعد بایومالیکیولز کو الگ کرکے ان کا تجزیہ کرتا ہے۔
اگر ان بایو مالیکیولز میں کوئی خطرناک مادّہ موجود ہو تو یہ نظام صرف 90 منٹ میں اس کا سراغ لگالیتا ہے۔
اپنی اسی خاصیت کی بنا پر ’’ڈبلیو ایف ڈی سی ایف‘‘ ٹیکنالوجی نہ صرف کورونا وائرس بلکہ متعدد اقسام کے بیکٹیریا اور وائرسوں کا سراغ لگانے میں بہ آسانی استعمال کی جاسکتی ہے۔
ان اداروں کے ماہرین پچھلے کئی سال سے اس ٹیکنالوجی پر مشترکہ تحقیق کررہے تھے جسے استعمال کرتے ہوئے وہ اسے تجرباتی طور پر ایبولا اور زیکا وائرس کا سراغ لگانے کےلیے تیار کرچکے تھے۔
گزشتہ برس کووِڈ 19 کی عالمی وبا میں ان ماہرین نے ’’ڈبلیو ایف سی ڈی ایف‘‘ ٹیکنالوجی پر مشتمل، ایسے ماسک بنانے پر کام شروع کیا جو کورونا وائرس کو شناخت کرسکیں۔
اس ماسک میں، جس کی تفصیل آن لائن ریسرچ جرنل ’’نیچر بایوٹیکنالوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے، ایک مختصر سا نظام موجود ہے جو صرف ایک بٹن دبانے پر اپنا کام شروع کردیتا ہے۔
یہ اپنے پہننے والے کے منہ سے خارج ہونے والے بخارات کا کچھ حصہ جمع کرتا ہے اور اپنے چھوٹے سے چیمبر میں ان کا حیاتی کیمیائی (بایوکیمیکل) تجزیہ بھی کرتا ہے۔
تجزیہ مکمل ہونے پر اس کی رپورٹ ایک پتلے کاغذ جیسے ٹکڑے پر حاصل کی جاسکتی ہے۔ ٹکڑے پر ایک لکیر کا مقصد کورونا وائرس کی موجودگی ہے جبکہ دو لکیریں، وائرس کی عدم موجودگی کو ظاہر کرتی ہیں۔
اب تک کی آزمائشوں سے معلوم ہوا ہے کہ ماسک میں پوشیدہ یہ نظام کورونا وائرس کا تقریباً اتنی ہی درستگی سے سراغ لگا سکتا ہے کہ جتنا کسی بڑی اور پیچیدہ تجربہ گاہ کے ذریعے ممکن ہے۔
ماہرین کی یہ ٹیم اب اس ایجاد کو مارکیٹ میں لانا چاہتی ہے اور اس مقصد کےلیے مناسب فنڈنگ کی تلاش میں ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔