بیوروکریسی اور خواتین

علی احمد ڈھلوں  بدھ 30 جون 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

جنوبی ایشیاء کی خواتین کاسب سے بڑا مسئلہ تعلیم رہا ہے، اسی لیے دنیا میں اس خطے کی خواتین کو کارکردگی کے لحاظ سے آخری نمبر وں پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کی وجہ کیا ہے ہم تو نہیں سوچتے لیکن مغربی ممالک ضرور سوچتے ہیں، یہ اُن ہی کی تحقیق ہے کہ یہاں کی خواتین کا ہر میدان میں پیچھے رہ جانے کی اصل وجہ کوئی اور نہیں بلکہ تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے۔

وہاں خواتین کی شرح خواندگی 100فیصد جب کہ یہاں 50فیصدسے بھی کم ہے اور تربیت تو نہ ہونے کے برابرہے۔ جنوبی ایشیائی خواتین کے 95فیصد گھرانوں کا ماحول ہی خواتین کے لیے متاثر کن نہیں ہوتا۔

آپ ہر سال کی جینڈر گیپ رپورٹ پڑھ لیںجس کے مطابق ’’کام کرنے کی عمر کی 6کروڑ خواتین میں سے صرف20فیصد خواتین برسرروزگار ہیں‘‘۔ یعنی ہر پانچ میں سے صرف ایک خاتون کو روزگار دستیاب ہے۔ اسی لیے تو جینڈر گیپ سے متعلق 156 ممالک کی فہرست میں ہم 153ویں نمبر پر ہیں۔ اس رینکنگ میں صرف افغانستان، یمن اور عراق ہم سے نیچے ہیں۔

جنرل مشرف نے قومی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں 17فیصد خواتین کی نمایندگی کا فیصلہ کیا ۔   یوں قومی اسمبلی میں 60 خواتین جب کہ سینیٹ میں 17خواتین ممبر بنیں جو بڑی کامیابی تھی، اس سے بڑی بات یہ ہوئی کہ مشرف حکومت نے مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا جو اصل جمہوریت ہے۔

وہاں خواتین کی نمایندگی 33فیصد کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر خواتین کو انتظامی معاملات چلانے کے لیے میدان میں لانا ہی تھا تو سب سے پہلے خواندگی کی شرح کو بڑھایا جاتا، پھر آہستہ آہستہ انھیں دیگر شعبوں میں کھپا کر انھی کی اگلی کھیپ کو انتظامی معاملات میں لایا جاتا، تب اُنکی کارکردگی دیکھنے کے قابل ہوتی ۔

لہٰذااب ہو یہ رہا ہے کہ ہماری بہت سی خواتین بطور ایس پی، اے ایس پی، اے سی یا ڈی سی لگ چکی ہیں،یہ عوامی عہدے ہیں، جن کے لیے آپ کی 24گھنٹے کی دستیابی کے ساتھ ساتھ ملزمان، مجرمان، مدعیان اور عام عوام کے ساتھ گھل مل جانا ضروری ہوتا ہے۔ ایک مرد ایس پی، یا اے ایس پی جس طرح مجرموں، مدعیوں یا عوام کے ساتھ گھل مل جاتا ہے، ایک عورت ایسا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اور پھر ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اُن کی عدم دستیابی کا فائدہ اُن کا ماتحت عملہ اُٹھاتا، اور اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ یوں کرپشن کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔

اس سے عوام مشکلات کا شکار ہوتے اور  شکایات کے انبھار لگ جاتے ہیں۔ پھر یہ شکایات عام  نوعیت کی نہیں ہوتیں بلکہ براہ راست عوام کے متاثر ہونے کی ہوتی ہیں، جیسے جس ضلع میں خاتون افسر تعینات کر دی جاتی ہے، وہاں دیگر عملہ جیسے اسپتال کا ایم ایس،واپڈا کا ایکسیئن،یا کسی پبلک ادارے کا سربراہ وغیرہ نا توتندہی سے کام کرتا ہے اور نہ ہی اُسے کسی کا ڈر ہوتا ہے۔بلکہ اُس ضلع میں کوآرڈی نیشن کا فقدان بڑھ جاتا ہے اورتبھی اُن کی من مرضی  اور کرپشن کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔

لہٰذامیرے خیال میں ان خواتین کو ایسے شعبوں میں کھپایا جائے جہاں براہ راست پبلک کم سے کم ملوث ہو۔ جہاں نہ تو اُن کے سامنے کسی مجرم کو پیش کیا جائے اور نہ ہی انھیں کسی پنچایت کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہو جیسے نیم پبلک شعبوں اکاؤنٹس، کسٹم یا دیگر محکموں میں خواتین بہترین کام کر رہی ہیں اور جسے سراہا بھی جا رہا ہے۔

لہٰذافی الوقت جب تک جینڈر گیپ کم نہیں ہو جاتا تب تک ان خواتین کو انھی شعبوں میں کھپایا جائے اور دس سالہ تعلیمی منصوبہ بنا کر جینڈر گیپ کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور ویسے یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت جینڈر گیپ کو ختم کرنے کی بھی کوشش کر رہی مثلاً اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بھی صنفی برابری کے لیے کام کر رہا ہے۔

اس نے  بھی جینڈر گیپ میں کمی کے لیے ’’بینکاری برائے صنفی برابری‘‘ کے حوالے سے ایک بینکاری پالیسی مرتب کر رہا ہے، جس پر سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کے تحت بینکوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ بھی قرضوں کی فراہمی کو ’’جینڈر گیپ کی عینک ‘‘سے دیکھتے ہوئے خواتین کی بہبود کاخیال رکھیں اور ان کے کیسز کو نظرانداز کرنے سے گریز کریں۔

اگر اس پر عمل ہو گیا توخواتین کو مہنگے قرضوں سے نجات مل جائے گی۔ اور خواتین میدان عمل میں آکر اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں گی۔ تب ہر گھر کا  ماحول آئیڈیل ہوگا، خواتین کو دائمی سوچ سے بھی نجات مل جائے گی اور وہ ہر مشکل مرحلے کو پار کرنے میں خود کفیل سمجھی جائیں گی اور خاص طور پر وہ اپنے دوسروں کے فیصلے کرنے میں بھی پراعتماد ہوں گی اور کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کریں گی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔