اب سے 75 برس پہلے

زاہدہ حنا  بدھ 30 جون 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی تجربات کے معاملات ان دنوں ذرا کم کم خبروں میں آتے ہیں، لیکن ایران کے سبب یہ مسئلہ زندہ ہے اور حالیہ ایرانی انتخابات کے بعد یہ ایک بار پھر اخبارکی شہ سرخی بن گیا ہے۔ چند دنوں پہلے کی بات ہے ، جب ایران نے اپنے جوہری پلانٹ تک عالمی تنظیم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے معائنہ کاروں کو رسائی دینے سے انکارکردیا ہے۔

2015 میں ایران کے دوسرے چھ ملکوں سے امریکا کی علیحدگی پر ہونے والے مذاکرات کھنڈت میں پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ ان مذاکرات کو بہت زیادہ طوالت کا شکار نہیں کرسکتا۔ ایران کا موقف ہے کہ ہم اس جوہری سمجھوتے کو بچانے کا پختہ عزم رکھتے ہیں، لیکن امریکا اس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

یہ سطریں جب آپ کی نظر سے گزریں گی تو 30جون ہوگی۔ اس تاریخ کی اہمیت کو بیان کرنے سے پہلے، یہ عرض کردوں کہ اس موضوع سے دلچسپی مجھے کم عمری میں کیوں اور کیسے ہوئی۔ یہ بات میں اس سے پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ بچپن میں ایک انگریزی نظم پڑھی تھی جس میں لکھا تھا۔ لندن کی تمام سڑکیں سونے کی ہیں اور دنیا کے تمام راستے لندن کو جاتے ہیں۔

پھر جب پہلی مرتبہ ہندوستان جانا ہوا اور اپنے نانا احسن علی خان مرحوم کی لائبریری میں سیکڑوں کتابوں ، قلمی نسخوں اور مجلد یاد داشتوں کے ساتھ خطوط کے وہ پلندے بھی نظر آئے جو لندن سے بھیجے گئے تھے جو خاندان کے ان نوجوانوں کے لکھے ہوئے تھے جن میں سے کچھ بیسویں صدی کے اختتامی برسوں اور کچھ بیسویں صدی کے آغاز میں حصول تعلیم کے لیے وہاں مقیم تھے تو ان خطوط نے کسی مقناطیسی کی طرح مجھے اپنے طرف کھینچا تھا اور لندن شہر کے نقش و نگار میں کچھ زیادہ ہی دلفریب اور پرکشش رنگ بھر دیے تھے۔

ان میں سے بیشتر خطوط صاحب نانا، یعنی میرے نانا کے چھوٹے بھائی افسر علی خان صاحب کے لکھے ہوئے تھے جو اس وقت حیات تھے۔ صاحب نانا نے اپنے خطوط میں جگہ جگہ برٹش میوزیم لائبریری کا ذکر کیا تھا۔ یہ نام چونکہ میرے لیے بالکل نیا تھا ، اس لیے اس کے بارے میں تجسس بھی بہت ہوا تھا ، چنانچہ میں نے صاحب نانا سے اس لائبریری اور میوزیم کے بارے میں کرید کرید کر پوچھا تھا اور انھوں نے جوکچھ مجھے بتایا تھا وہ کسی ناقابل یقین الف لیلوی داستان سے کم نہ تھا۔

شاید بچپن کی انھی یادوں اور باتوں کا اثر تھا کہ 87ء میں جب میں لندن پہنچی تو دوسرے ہی دن برٹش میوزیم لائبریری کا رخ کیا اور وہاں لائبریری کارڈ حاصل کیا۔ برٹش میوزیم لائبریری آج اس لیے یاد آرہی ہے کہ ایٹمی تجربوں، ان سے ہونے والی تباہ کاریوں اور سارے یورپ میں ایٹمی تجربات کے خلاف کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا اتفاق مجھے اسی لائبریری کے ذریعے ہوا۔

آج30جون ہے۔ یہ دن ایٹمی تجربات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ آج سے 75 برس پہلے 30جون 1946 کو امریکا نے بکنی آئی لینڈ اور اس کے آس پاس کے جزائر کو اپنے ایٹمی تجربات کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کا آغاز کیا تھا اور ان جزائر پر بسنے والے انسانوں، ان جنت نظیر جزیروں پر کلیلیں کرنے والے جانوروں، ان پر اگنے والے پیڑ اور پودوں اور ان پر رینگنے والے حشرات الارض کی زندگی کے بارے میں سوچنے کی زحمت نہیں کی تھی۔

یہ تجربات جن کا آغاز30 جون سے ہوا تھا ، پھر ایک روز مرہ کا معمول ہوگئے۔ جون کو ہونے والا تجربہ زمانہ امن میں ہونے والا پہلا ایٹمی تجربہ تھا۔ جون 1946 کے آخری دن اور پھر جولائی میں ہونے والے تجربات اس لیے کیے گئے کہ ایٹمی دھماکے سے ہونے والے نتائج کا اندازہ کیا جاسکے اور بطور خاص بحری جہازوں پر ان دھماکوں کے اثرات دیکھے جاسکیں۔

پچیس میل لمبی سمندری جھیل میں عظیم الشان بحری جہاز ، سرنگ سمیٹ جہاز ، طیارہ بردار جہاز اور آبدوزیں اکٹھی کی گئیں۔ ان جہازوں اور بگتی جزیرے پر ہزاروں کی تعدادمیں بکریاں، سؤر، چوہے ، خرگوش اور دوسرے چھوٹے اور بڑے جانور اکٹھے کیے گئے پھر ایک خوبصورت صبح ان تمام چیزوں کو ایٹمی دھماکے کی نذرکردیا گیا۔ اس مہم کو Cross Road کا نام دیا گیا۔ اس مہم میں بیالیس ہزار افراد نے حصہ لیا۔

30 جون اور یکم جولائی کے ایٹمی تجربات کے بعد 25 جولائی کو دنیا کا پہلا زیر آب ایٹمی دھماکا کیا گیا اور تجربات کا یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ یکم مارچ 1954 کو بکنی جزیرے پر ایک ایسا طاقتورایٹمی دھماکا کیا گیا جس کے نتائج اس لیے بہت تباہ کن ثابت ہوئے کہ جس لمحے ایٹمی دھماکا کیا گیا۔ اس کے چند منٹ بعد ہوا نے اپنا رخ بدل لیا ، جس کے نتیجے میں مہلک تابکار گرد و غبار دو سو چالیس میل لمبے اور چالیس میل چوڑے علاقے میں پھیل گیا اور اس نے تجربے میں حصہ لینے والے 31 امریکی کارکنوں اور ’’رونگی لاپ‘‘ کے 236 باشندوں کو بری طرح متاثرکیا۔

میں آپ کو اس جزیرے کی کہانی سنانا چاہتی ہوں جو سات میل لمبا تھا اور ایک میل چوڑا ، یہ دنیا میں باغ عدن کی تصویر تھا۔ اس میں 82 مرد ، عورتیں اور بچے رہتے تھے۔ یہ لوگ صدیوں سے اس جزیرے پر رہتے آئے تھے۔ یہ ان کے پرکھوں کی زمین تھی، ان کے پاس ان کی کشتیاں تھیں۔ جن میں بیٹھ کر یہ پاس کے دوسرے جزیروں میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتے تھے۔ اپنی کشتیوں میں بیٹھ کر یہ مچھلیاں، جھینگے اور گھونگھے پکڑتے تھے۔ انھی کشتیوںمیں نوجوان محبتیں کرتے اور ایک دوسرے کوگیت سناتے تھے۔

پھر ایک روز جب صبح اس جزیرے پر پوری طرح نمودار بھی نہ ہوئی تھی۔ جزیرے پر رہنے والوں میں کچھ جاگ رہے تھے اور کچھ سوتے تھے کہ ساحلی جھیل کے مغربے حصے سے انھوں نے سورج کو بلند ہوتے دیکھا لیکن سورج تو آسمان سے طلوع ہوتا ہے ، پھر بھلا وہ سمندر کے اندر سے کیسے نکل سکتا ہے۔

اس ناقابل یقین منظر نے ان سب کے قدم تھام لیے۔ وہ عالم حیرت میں دیکھتے رہے کہ گول اور ان کے سورج سے کہیں بڑا اور کہیں چمکدار اور کہیں زیادہ گرم سورج ساحلی جھیل کے اندر سے نکلا اور آسمان کی طرف بلند ہوتا چلا گیا۔ پھر وہ سورج پھٹا اور اس کے اندر سے نارنجی رنگ کی ایک مہیب سانپ چھتری بلند ہوئی، پھر اس میں سے ایک اور سانپ چھتری بلند ہوئی اور پھر ایک اور … آسمان کی بلندیوں پر نارنجی سانپ چھتریوں کی سیڑھی بلند ہوتی گئی۔

جزیرے کے لوگ اس سیڑھی کو دیکھ رہے تھے۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی آبائی داستانوں کے دیوتا اب اس سیڑھی سے اتر کر ان تک آئیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ فوراً ہی ایک قیامت خیز طوفان نے انھیں آ لیا ، ان کے گھروں کی چھتیں اڑ گئیں، ناریل کے پیڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ کشتیاں ریت میں دھنس گئیں ، پانی کناروں سے ابل کر جزیرے میں پھیل گیا اور پھر اسی لمحے انھوں نے وہ آواز سنی۔ ایسی مہیب آواز جس سے ان میں سے بہتوں کے کان کے پردے پھٹ گئے اور پھر ان پر گرم راکھ برسی اور جس ، جس پر وہ گرم راکھ برسی اس نے تڑپ کر اور ایڑیاں رگڑ کر جان دے دی۔

وہ تین دن تک موت کے ساتھ زندہ رہے اور مرنے کی دعائیں کرتے رہے ، تب چوتھے دن جہازوں میں بھرکر سفید فام سپاہی آپہنچے۔ وہ انھیں اس جزیرے سے لے جانے کے لیے آئے تھے کیوں کہ یہ جزیرہ اب انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ جس زمین پر ان کے پرکھ دفن تھے وہ اب ان کی نہیں رہی تھی ، وہ اب زہر کی زمین ہوگئی تھی۔ وہ اپنی قبریں، اپنے گھر ، اپنے کھیت ، اپنے جانور سب کچھ پیچھے چھوڑ آئے تھے لیکن پھر بھی وہ زہر ان کے ساتھ گیا اور ان کی عورتیں برسوں تک ایسے بچوںکو جنم دیتی رہیں جن کے بدن میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی تھی اور جن کے چہرے نہیں ہوتے تھے،جو پیدا ہونے کے چند گھنٹوں بعد مر جاتے تھے کیوں کہ یہ زہر زدہ بچے تھے۔ انھیں ان کے پیدائش سے پہلے ہوس اقتدار میں مبتلا انسانوں نے ڈس لیا تھا۔

یہ وہ لوگ تھے جنھیں انسانوں کی نفرتوں اور انسان کی خباثتوں کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا اور پھر وہ دنیا کے پہلے زیر آب ایٹمی دھماکے کا نشانہ بنے۔ یکم مارچ 1954کو ہونے والے اس پہلے زیر آب ایٹمی دھماکے اور تیس جون 1946کو حالت امن میں  ہونے والے پہلے زمینی دھماکے میں آٹھ برس کا فرق ہے۔ لیکن یہ وہی تسلسل ہے یہ وہی نقطہ نظر ہے کہ جس کے تحت بڑی طاقتیں انسانوں اور دنیا کے ماحول کے بارے میں سوچے بغیر فیصلے کرتی ہیں احکامات صادرکرتی ہیں اور ان کے احکامات انھیں انسانوں کو تباہ کردینے کی بھیانک طاقت عطا کرتے ہیں اور کمزور و بے بس اقوام اور ملکوں سے جینے کا اختیار چھین لیتے ہیں۔

بکنی کا جزیرہ اور اس کے آس پاس کے جزیرے بحرالکاہل میں واقع ہیں اور ’’مارشل جزائر‘‘ کے نام سے پہنچانے جاتے ہیں۔ 1947 سے یہ باقاعدہ طور پر امریکا کے زیر انتظام ہے اور یہ بکنی کا بدبخت جزیرہ ہے جس پر 1956 میں امریکا نے ہائیڈروجن بم گرایا اور اس جزیرے کو یہ ’’ شرف ‘‘ عطا کیا کہ ہائیڈروجن بم کا پہلا دھماکا بھی اسی پر ہوا۔

آج بھی لوگوں کو بار بار بتانے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی ہتھیار خوبصورت، پرکشش اور مہنگے کھلونے نہیں جنھیں خرید کر یا جنھیں اپنی زمین پر تیار کرکے اپنے ہتھیار خانوں میں رکھ لیا جائے اور پھر ان پر ناز کیا جائے۔ یہ انسانیت کو ڈسنے والے وہ مہیب اژدھے ہیں جن کی پھنکار فاتح و مفتوح دونوں کو جلا کر بھسم کرسکتی ہے اور جن کا زہر دو چار اور دس پانچ برسوں تک نہیں، صدیوں تک ہماری زمین کی رگوں تک پھیلا رہے گا اور اسے بانجھ رکھے گا۔ کیا اب بھی ہمیں اس بارے میں کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔