زرعی پیکج کا صرف اعلان ہی کافی نہیں، عملدرآمد بھی ضروری ہے

رضوان آصف  بدھ 30 جون 2021
جتنا بھی اچھا پروگرام ہو جب تک اس پر درست انداز میں عملدرآمد نہیں ہوگا، وہ ناکام ہی رہے گا۔

جتنا بھی اچھا پروگرام ہو جب تک اس پر درست انداز میں عملدرآمد نہیں ہوگا، وہ ناکام ہی رہے گا۔

 لاہور:  وزیر اعظم عمران خان اپنے اقتدار کی نصف سے زیادہ مدت گذر جانے کے بعد آخری دو برس میں کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں کہ پہلے کے تین برس کی ناکامیوں اور خامیوں کا ازالہ بھی ہو جائے اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ووٹرزبھی راضی ہو جائیں۔

تین برس تک تو معیشت شدید دباو میں رہی ہے، ابتداء میں حکومت نے غلط فیصلے کئے اور پھر کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ حکومت کے تیسرے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا دعوی ہے کہ اس مرتبہ جو بجٹ تیار کیا گیا ہے وہ ہر لحاظ سے منفرد ہے ،ملکی تاریخ میں پہلی بار عام آدمی کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے ،حکومت کے تمام دعوے اپنی جگہ لیکن زمینی صورتحال اس کے برعکس ہے۔

معاشی ماہرین کے تجزیوں میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں پوشیدہ ٹیکسز سے مہنگائی کی نئی لہر آسکتی ہے بالخصوص آئندہ کچھ عرصہ میں حکومت جب عالمی اداروں کے دباو پر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی تب ’’منی بجٹ‘‘ آئے گاجس کا نمایاں اثر فوڈ آئٹمزکی قیمتوں پر آ سکتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود کھانے پینے کی اشیاء مثلا گندم اور دالیں امپورٹ کرنا پڑ رہی ہیں، حکومت زرعی شعبے کی ترقی کیلئے پیکج لیکر آ رہی ہے، کمزور طبقے کو سبسڈی دیں گے جبکہ کسانوں کو منڈیوں اور صارفین کے ساتھ براہ راست جوڑا جائے گا۔

وزیر اعظم شاید بھول رہے ہیں کہ ان کی ہی حکومت نے 2019 ء میں 309 ارب روپے مالیت کا ’’وزیر اعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام‘‘ شروع کیا تھا جسے ان کے ’’سابق‘‘ دوست جہانگیر ترین نے تیار کیا تھا ،یہ پروگرام اپنی ترجیحات اور حکمت عملی کے لحاظ سے ایک جامع اور فائدہ مند پروگرام تھا لیکن جس تیزی سے عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے ویسے ہی اس پروگرام پر عملدرآمد کی رفتار سست ہوتی چلی گئی اور عملی طور پر اس پروگرام پر کام رک چکا ہے ۔

وزیر اعظم جس نئے زرعی  پیکج کی ’’نوید‘‘ سنا رہے ہیں اس کے مرکزی تخلیق کار وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی سید فخر امام اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی جمشید اقبال چیمہ ہیں۔ سید فخر امام بذات خود ایک بڑے کاشتکار ہیں جبکہ جمشید چیمہ ایک مضبوط زرعی پس منظر سے منسلک ہیں، ان کا ذاتی بزنس بھی زرعی ادویات اور بیجوں سے متعلق ہے ،اپنے کاروبار کی وجہ سے انہیں مختلف ممالک بالخصوص چین میں ہونے والی زرعی ٹیکنالوجی پیش رفت سے بخوبی آگاہی ہے، وہ کسان کے بنیادی مسائل کی وجوہات سے واقف ہیں لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ سب خوبیاں اور مہارت تو جہانگیر ترین کے پاس بھی موجود تھی اور جمشید چیمہ سے کہیں زیادہ انہیں زراعت پر عبور حاصل ہے تو پھر ان کا زرعی پیکج کیوں ترک کیا گیا۔ ارباب اقتدار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ منصوبہ سازی میں نہیں بلکہ عملدرآمد کا نہ ہوناہے ۔

جتنا بھی اچھا پروگرام ہو جب تک اس پر درست انداز میں عملدرآمد نہیں ہوگا، وہ ناکام ہی رہے گا۔ اب آخری دو برسوں میں جب کہ سیاسی دباو بڑھ رہا ہے اور عوام حکومت سے بہت ناراض دکھائی دیتے ہیں تو ایسے میں ایک نئے زرعی پیکج پر کامیابی اور تیزی سے عمل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس مرتبہ ملک میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت 40 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر چکی ہے اور سب سے زیادہ تشویش اس بارے میں ہے کہ گزشتہ برس کی مانند اس مرتبہ بھی ملک میں گندم آٹا کی قیمتوں کا بحران آ سکتا ہے۔

وزیر اعظم یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ کمزور طبقہ کو براہ راست سبسڈی دینا چاہتے ہیں ،اس حوالے سے ان کی مشیر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کام کر رہی ہیں۔وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے بہت سے لوگ آٹا چینی وغیرہ پر ہر خاص وعام کو سبسڈی دینے کی بجائے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے حق میں ہیں لیکن اراکین اسمبلی، وزراء اور پارٹی رہنماؤں کی اکثریت موجودہ سیاسی صورتحال اور الیکشن کا وقت نزدیک آنے کی وجہ سے یہ رائے دے رہے ہیں کہ فی الوقت ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام ملتوی کردیا جائے اور آئندہ لیکشن جیتنے کے بعد اس پر کام شروع ہونا چاہئے۔

حکومت کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ وفاقی فنانس بل جب اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس میں فلورملز پر ٹرن اوور کی کم ازکم شرح کو ختم کردیا گیا جبکہ چوکر پر سیلز ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا۔ ٹیکسز کے اس اضافہ سے عام آدمی کو بیس کلو آٹا تھیلا خریدتے وقت مزید 100 روپے دینا پڑنے تھے، پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کی قیادت نے معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے پوری طاقت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا، اس معاملے میں فلورملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم رضا، لیاقت علی خان، حافظ احمد قادر، میاں ریاض، حاجی یوسف، نعیم بٹ، بدرالدین کاکڑ نے لیڈنگ رول ادا کیا جبکہ حکومتی سائیڈ سے وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی غفران میمن نے بحران کے خاتمہ میں نمایاں کردار نبھایا ،غفران میمن نے فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ بھی رابطہ کیا اور انہوں نے ایف بی آر حکام کے ساتھ بھی بات کی۔

فلورملز کی دو روزہ علامتی ہڑتال شروع ہونے پر ایف بی آر نے ٹیکسز میں اضافے کو ’’تحریری غلطی‘‘ قرار دیتے ہوئے ٹیکس اضافہ واپس لیا۔یہ واقعی تحریری غلطی تھی یا پھر دانستہ طور پر ایک کوشش کی گئی اس بحث کو اب چھوڑ دیتے ہیں لیکن حکومت کو چاہئے کہ مستقبل میں ایسی ’’غلطی‘‘ سے بچنے کیلئے فلورملز ایسوسی ایشن اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بامعنی مشاورت کا ایک موثر نظام بنائے،اب تو یہ عالم ہے کہ چند ہفتے قبل وزیرا عظم نے فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ ملاقات میں گندم کی ایکسپورٹ برائے ایکسپورٹ کی اصولی منظوری دیتے ہوئے رزاق داود کو فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ ملکر اس پر حتمی طریقہ کار تیار کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن کئی ہفتوں بعد بھی رزاق داود کو ملاقات کی فرصت نہیں ملی ہے۔

کسانوں کو منڈیوں اور صارفین تک براہ راست رسائی دینے کی حکومتی سوچ عمدہ ہے لیکن قابل عمل نہیں ہے۔بیوپاری یا آڑھتی دیہاتوں میں کسانوں کیلئے ’’مائیکرو فنانس بنک‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے، فصل کی کاشت کیلئے بیج کھاد اور پیسٹی سائیڈ کی خریداری سے لیکر خوشی غمی کی تقریبات کے اخراجات کیلئے چھوٹا کاشتکار اپنے بیوپاری سے رقم لیکر استعمال کرتا ہے اور پھر جب زرعی جنس کی پیداوار آتی ہے تو اسی بیوپاری کو اسے فروخت کر کے حساب کتاب کلیئر کیا جاتا ہے۔حکومت اگر سنجیدہ ہے تو پھر نچلی سطح پر کسانوں کی مالی ضروریات کی تکمیل کیلئے سود سے پاک قرضوں کا اہتمام کرے۔

سیاسی نعرے بازی اورد عوے اپنی جگہ لیکن بیوپاری کا کردار ختم کرنا ممکن نہیں اس لئے زیادہ مناسب یہی ہوگا کہ بیوپاری کو زرعی نظام میں باضابطہ طور پر ایک اہم سٹیک ہولڈر تسلیم کر کے اسے ریگولیٹ کیا جائے تا کہ کسانوں کی حق تلفی نہ ہو ویسے بھی مہنگائی منڈیوں میں نہیں ہو رہی بلکہ اصل مہنگائی شہروں میں انتظامیہ کی جانب سے موثر پرائس کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے بیجوں کی نئی اقسام کی دریافت سب سے اہم ہے اور بدقسمتی سے آج تک اسی کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے۔

اربوں روپے سالانہ بجٹ استعمال کرنے والے زرعی تحقیقاتی اداروں سے کبھی باز پرس نہیں کی گئی۔ یکم جولائی کو وزیرا عظم اسلام آباد میں ایک کسان کنونشن سے خطاب کرنے والے ہیں، اس موقع پر انہیں سیاسی طفل تسلیوں کی بجائے عملی اقدامات کا اعلان کرنا چاہئے۔جو بھی زرعی پیکج آئے اس پر مکمل سنجیدگی اور رفتار کے ساتھ عمل کرنے سے ہی زرعی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔