گیس بحران ، معیشت کیلئے تباہی کا باعث، ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت

عامر خان  بدھ 30 جون 2021
اب خیبرپختون خوا اور پنجاب کی صنعتوں کو بھی 10 روز کیلئے گیس کی فراہمی بند ہونے کا امکان ہے۔

اب خیبرپختون خوا اور پنجاب کی صنعتوں کو بھی 10 روز کیلئے گیس کی فراہمی بند ہونے کا امکان ہے۔

 کراچی:  صوبہ سندھ میں گیس اور ایل این جی کے بحران نے صنعتکاروں ، ٹرانسپورٹرز اور عوام کو ایک نئی اذیت کا شکار کردیا ہے۔

جون کے گرم مہینے میں گیس کی قلت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔کراچی کے صنعتکاروں نے وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ کراچی کی صنعتوں کو تباہی سے بچانے اور ہزاروں ورکرز کو بے روزگاری سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں اور صنعتوں کی فوری گیس بحال کرنے کی ہدایت کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ آر ایل این جی وافر مقدار میں دستیاب ہونے کے باوجود کراچی کی صنعتوں کی گیس بند کی جا رہی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔کراچی کی صنعتوں کو گیس بحا ل کر کے تباہ ہونے سے بچایا جائے تاکہ پیداواری سرگرمیاں معمول کے مطابق دوبارہ شروع کی جاسکیں اور ورکرز کو بے روزگار ہونے سے بچایا جاسکے۔

ادھر سندھ کے وزیر توانائی امتیاز شیخ نے وفاقی حکومت کی پالیسیوں کو ناکامی شکار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں گیس اور ایل این جی بحران پیدا کرکے صنعتی عمل کو شدید نقصان پہنچایا جارہا ہے جس سے ہزاروں محنت کش بے روزگار ہورہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلی سندھ سید مراد علی شاہ ہر فورم پر سندھ کے مسائل کی نشاندہی کررہے ہیں جس سے وفاقی حکومت پریشانی کا شکار ہے اور چونکہ سندھ کے وزیر اعلی کی اہلیت کا حامل کسی اور صوبے کا وزیرِ اعلی نہیں لہذا سندھ حکومت کی کارکردگی پر اثر انداز ہونے کے لئے سندھ حکومت کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ صوبے میں گیس بحران پر ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بھی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران ان سے اس معاملے پر مداخلت پر زور دیا ہے۔

انہوں نے سوئی سدرن گیس کی جانب سے مینٹیننس کے نام پر غیر برآمدی صنعتی یونٹوں کو 21 روز کیلئے گیس کی فراہمی معطل کرنے پرگہری تشویش کا اظہارکیا ہے۔دوسری جانب وزارت پیٹرولیم کی سستی اور گیس فیلڈ کی سالانہ مرمت کے باعث سندھ کے بعد اب خیبرپختون خوا اور پنجاب کی صنعتوں کو بھی 10 روز کیلئے گیس کی فراہمی بند ہونے کا امکان ہے۔اس ضمن میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اچانک سوئی سدرن گیس پر کیا افتاد آن پڑی کہ اس نے اچانک 21 روز کیلئے گیس کی فراہمی معطل کرنے کا اعلان کر دیا اس نا اہلی کے باعث چھوٹی بڑی صنعتوں کا اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے جو پاکستان کی نازک معیشت کیلئے زہر قاتل ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ کس طرح کی مینٹینس ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔سندھ میں 22 جون سے سی این جی اسٹیشنز بند ہیں اور اب اطلاعات یہ ہیں کہ ان کو 9 جولائی کو کھولا جائے گا۔کراچی میں زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ سی این جی پر چلتی ہے ،اتنی طویل بندش سے گاڑیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے اور شہریوں کو آمدو رفت میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کوموجودہ صورت حال میں اس معاملے پر خود مداخلت کرنا ہوگی تاکہ صنعتکاروں اور عوام کو ریلیف مل سکے۔

سندھ اسمبلی نے اپنے اجلاس میں آئندہ مالی سال 2021-22 کے بجٹ کی چند لمحوں میں منظوری دیدی ، قائد ایوان اور وزیر اعلی سندھ نے جن کے پا س وزارت خزانہ کا قلمدان بھی ہے ایوان میں ضمنی مطالبات زر پیش کئے انہیں بھی منظور کرلیا گیا۔

اپوزیشن ایوان میں موجود تھی وہ احتجاج اورنعرے بازی کرتی رہ گئی لیکن اس کی کسی نے نہیں سنی۔اسپیکر آغا سراج درانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپوزیشن کو بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن کسی نے ان کی بات نہیں مانی۔واضح رہے کہ حزب اختلاف کی کسی بھی پارلیمانی جماعت کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ پر کٹوتی کی تحاریک جمع نہ کروانے سے حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کو بجٹ پر واک اوور ملا جس کا پیپلزپارٹی نے بھرپور فائدہ اْٹھایا۔سندھ اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بجٹ پر قائد حزب اختلاف اورقائد ایوان دونوں کو بجٹ کی منظوری سے قبل پارلیمانی روایت کے مطابق تقریرکرنے کا موقع نہیں ملا، کئی پارلیمانی لیڈر اور وزرابھی اظہار خیال کرنے سے محروم رہے۔

سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے ارکان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے جس طرح آمرانہ انداز میں بجٹ پاس کرایا ہے وہ سندھ اسمبلی کی تاریخ کا سیاہ ترین دین ہے ،پیپلز پارٹی کی کراچی دشمن حکومت نے بجٹ منظوری کیلئے تمام جمہوری روایات کو پامال کردیا۔سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی بجٹ کی منظوری پر کافی برہم نظر آئے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بجٹ کی اس قدر آسانی سے منظوری میں اپوزیشن کی کوتاہی شامل ہے۔ اپوزیشن کے ارکان بجٹ سیشن کے دوران ہنگامہ آرائی اور شور شرابے میں مشغول رہے اور بجٹ پر تنقید برائے تنقید کرتے رہے، جس کے باعث حکومت نے بغیر کسی مشکل کے ایوان سے بجٹ کی منظوری حاصل کر لی۔

ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں کورونا ٹاسک فورس کے اجلاس میں صوبے بھر میں مزارات، انڈور جمز، سوئمنگ پول کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے مختلف شعبوں میں عائد پابندیوں میں نرمی کر دی ہے۔

ان فیصلوں پر یکم جولائی سے عمل درآٓمد شروع ہوگا اور یہ 31 جولائی 2021 تک کے لیے ہے۔ان احکامات کے مطابق  مارکیٹس، دیگر کاروباری سرگرمیاں رات 10 بجے تک جاری رکھنے کی اجازت ہوگی جبکہ پیٹرول پمپس، طبی سہولیات، ادویات کی دکانیں، ویکسینشین سینٹر، دودھ دہی کی دکانیں، تندور اور ٹیک اوے کے لیے 24 گھنٹے کی اجازت ہو گی۔اس کے علاوہ ماسک کو لازمی قرار دیاگیا ہے۔عوام کو کہا گیا ہے کہ وہ کورونا ویکسین کرائیں۔

دوسری جانب وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کایہ بھی کہنا تھا کہ این سی او سی جن شعبوں کو کھولنے کا فیصلہ کرے گی وہ سندھ حکومت بھی کھول دے گی، تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر اسد عمر کی جانب سے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی چوتھی لہر بھی سامنے آسکتی ہے۔اس ممکنہ لہر سے بچاؤ کے لیے حکومتی اداروں کے ساتھ عوام کو بھی تیار رہنا ہوگا اور حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اس لہر سے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنا ہوںگے۔

ایم کیو ایم پاکستان نے پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف اب عملی طور پر میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔سربراہ ایم کیو ایم پاکستان کا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی بدعنوانی و ملک دشمنی کے خلاف 3جولائی کو کراچی میں مظاہرہ  کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ 3جو لا ئی کو پر یس کلب تک جا رہے ہیں اور اگر اس سے بھی با ت نہ بنی تو پھر محلا ت کو خا لی کرانے نکلیں گے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اس موقع پر یہ اعلان بھی کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان اس سال اگست کو ماہ آزادی کے طور پر منائے۔

ماہ ستمبر میں ایم کیو ایم پاکستان ایام ہجرت منائے گی۔ ہجرت کی تاریخ اور مہاجر ثقافت کو اجاگر کیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی پریس کانفرنس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ عوام کے پاس جائے بغیر اس کو دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام نہیں مل سکتا ہے۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔