ایف آئی اے سوسائٹی میں خوف پھیلا رہی ہے اس کا نوٹس دھمکی ہوتی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

ویب ڈیسک  بدھ 30 جون 2021
ایف آئی اے کا ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے کہ آپ نے اختیارات کیسے استعمال کرنے ہیں، چیف جسٹس۔ فوٹو:فائل

ایف آئی اے کا ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے کہ آپ نے اختیارات کیسے استعمال کرنے ہیں، چیف جسٹس۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا  کہنا ہے کہ ایف آئی اے معاشرے میں خوف پھیلا رہی ہے اور اس کا نوٹس دھمکی ہوتی ہے۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے سائبر کرائم کی جانب سے اختیارات کے بے جا استعمال کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی،  ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم عدالت میں ہوئے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کو کورٹ نے بار بار کہا لیکن عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہورہا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم نے جواب دیا کہ اس وقت ہزاروں شکایات ہمارے پاس زیر التوا ہیں۔ چیف جسٹس نے یمارکس دیئے کہ یہاں کچھ بنیادی حقوق ہیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے آپ اپنے اختیار کو احتیاط سے استعمال کریں، اس تاثر کو ختم کریں کہ ایف آئی اے سائبر کرائم کی جانب سے اختیار کا غلط استعمال ہورہا ہے۔

چیف جسٹس نے ڈائریکٹر سائبر کرائم سے کہا کہ آپ کسی کو جو نوٹس کرتے ہیں اس کے اثرات ہیں یقینی بنانا چاہیے کہ سارا عمل فئیر ہو، آپ نوٹس پر کوئی تاریخ نہیں لکھتے اور کہتے ہیں ہمارے پاس پیش ہو جائیں ایسے تو نہیں ہوتا، آپ کے کئی نوٹس معطل کئے لیکن اس میں کوئی بہتری نہیں آئی، ایک شخص کہتا ہے فلاں کے بارے میں کچھ کہا گیا تو کیا وہ جرم بن جائے گا ؟جس کا وقار کسی نے خراب کیا وہ شکایت کنندہ ہو سکتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا میرے خلاف کوئی بات کرے آپ کسی اور کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر لیں ایسا نہیں ہے مجھے ہی شکایت کنندہ ہونا ہوگا، آپ سوسائٹی میں خوف پھیلا رہے ہیں ایف آئی اے کا نوٹس تھریٹ ہوتا ہے، ایف آئی اے کا ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے کہ آپ نے اختیارات کیسے استعمال کرنے ہیں، اگر ایف آئی اے کے تفتیشی اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرے گی تو یہ عدالت مثال ہر کانہ لگائے گی۔

ڈائریکٹر سائبر کرائم ہم نے پورے پاکستان میں آپ کے آرڈرز کو بھیجوا دیا ہے اس پر عمل ہورہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت توقع کرتی ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم اس حوالے سے اختیارات استعمال میں محتاط رہے گی۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود عدالت کے سامنے پیش ہوئے، اور مؤقف دیا کہ ہم اس حوالے سے میکنزم بنا رہے ہیں ایف آئی اے کے ساتھ میٹنگز ہورہی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کون سا طریقہ ہے کہ ایف آئی اے کے تفتیشی واٹس ایپ پر نوٹس بھیجتے ہیں۔ ڈائریکٹر سائبر کرائم  نے جواب دیا کہ ایک شکایت کنندہ جس کے آباؤ و اجداد سے متعلق صحافی بلال غوری نے بات کی اس کو رپورٹ کرایا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر کوئی میری فیملی سے متعلق کوئی بات کرے تو کیا میں شکایت درج کرا سکتا ہوں ؟  کیا کرمنل معاملے میں اسکو جرم کہا جا سکتا ہے ؟ کیا شفا یوسفزئی کی شکایت پر ایف آئی اے نیا نوٹس جاری کیا ؟۔

ایف آئی اے تفتیشی کی جانب سے نیا نوٹس عدالت کے سامنے پیش کردیا گیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو وجہ بتائے بغیر نوٹس کرنا اسے دھمکی اور خوفزدہ کرنا ہے، اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے آپ کے ایس او پیز ہونے چاہئیں، تفتیشی افسر کو نوٹس جاری کرنے سے پہلے معاملے کی چھان بین کرنی چاہئے، جس کی ساکھ متاثر ہو صرف وہی متاثرہ شخص شکائت کر سکتا ہے، یہ کون سا طریقہ ہے کہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر وٹس ایپ پر نوٹسز بھیجیں؟۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت سے کا کہ شکائت کنندہ کے مطابق ستمبر 2020 میں بلال غوری نے میرے آباؤ اجداد کے بارے میں غلط باتیں کہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ میرے والد کے بارے میں کوئی کچھ کہے تو کیا وہ کریمنل جرم بنے گا؟ اگر آپ نوٹس کے ساتھ اس کمپلینٹ کی کاپی بھجوا دیتے تو بہتر ہوتا۔

نجی ٹی وی کی اینکرپرسن شفا یوسفزئی کی صحافی اسد طور کے خلاف شکائت پڑھ کر سنائی۔ عدالت نے کہا کہ یہ عدالت اس حوالے سے واضع ہے کہ بنیادی حقوق پر عمل درآمد یقینی بنائے گی، ایف آئی اے کو اس تاثر کو ختم کرنا ہے کہ آپ صرف صحافیوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، اگر سوسائٹی میں اختلاف رائے نہیں ہو گا تو ٹھیک نہیں ہے، پہلے بھی آپ کو سمجھایا تھا یہ پرسنل معاملہ ہے ،  آپ نے خود تسلیم کیا ہزاروں کیسز ہیں کیسے آپ وضاحت کریں گے کہ کچھ صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، اگر ایف آئی اے نے اس طرح ہی جاری رکھا تو ایک جرنلسٹ بھی نہیں رہے گا ایک پارلیمنٹیرین نہیں رہے گا، عدالت اس پر نہیں جاتی کہ الزام درست ہے یا نہیں۔ دوسرے کیسز ایف آئی اے نے اس تاثر کو زائل کرنا ہے کہ آپ صرف صحافیوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔