قومی سلامتی پالیسی

نصرت جاوید  بدھ 22 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کافی بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے والے نواز شریف ابھی تک ہماری ریاست کے تمام اداروں کے ساتھ مل کر قومی سلامتی پالیسی کیوں نہیں بنا رہے؟ اس سوال کا جواب میں گزشتہ کئی ہفتوں سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ رپورٹنگ میں اتنے برس گزرجانے کے باوجود میں ابھی تک ٹھوس اور قابلِ اعتبار وجوہات تلاش کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ اس حکومت کے ایک کافی تجربہ کار اور موثر مانے جانے والے وزیر سے پوچھ تاچھ کی تو جواب صرف اتنا ملا کہ ہماری کابینہ کی کمیٹی برائے دفاع کے زیر اہتمام قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کے لیے جو افتتاحی اجلاس ہوا تھا اس کے Agreed Minutesہی تیار نہیں ہو پا رہے تھے۔ چونکہ اس اجلاس میں عسکری اداروں کے سربراہان نے بھی شرکت فرمائی تھی اس لیے میں جبلی طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ شاید ’’انھیں‘‘ قومی سلامتی کے حوالے سے سیاسی قیادت کے لیے کچھ فیصلوں پر تحفظات ہیں۔

یہ شک ذہن میں رکھتے ہوئے ایک اہم سرکاری افسر سے گفتگو ہوئی تو دریافت ہوا کہ اشفاق پرویز کیانی صاحب اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچتے ہوئے مجوزہ پالیسی کے بار ے میں کوئی خاص مطمئن نہیں تھے۔ مجھے ان کی نیت پر شک کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مگر نواز شریف صاحب کے چند وفادار افراد نجی محفلوں میں یہ دعوے کرتے سنے گئے کہ کیانی صاحب قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل سے پہلے حکومت سے واضح طورپر یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ ان کے ’’مستقبل‘‘ کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔ میں نے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مگر جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ سے پہلے انھیں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور بعدازاں چیف آف ڈیفنس (COD)بنانے کی بات چلی تو میں دال میں کچھ کالا دیکھنے پر مجبور ہوگیا۔ جنرل راحیل شریف کے انتخاب کے بعد مگر اس پالیسی کا مسودہ تیار ہو کر وفاقی کابینہ کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ اب اس کی حتمی منظوری میں جو دیر ہورہی ہے اس کا ذمے دار کسی غیر سیاسی شخصیت یا ادارے کو ہرگز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

چوہدری نثار علی خان آج کل ہمارے وزیر داخلہ ہیں۔ بڑی انا والے راجپوت ہیں۔ ’’باس‘‘ کی ہاں میں فوری ہاں ملا کر ڈنگ ٹپانے کے عادی نہیں۔ معاملہ جب قومی سلامتی کا آجائے تو اپنے آزادانہ ذہن کو بڑی شدت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ بہت عرصہ ہوا میری ان سے اکیلے میں کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ کسی زمانے میں کچھ وقت عنایت فرمادیا کرتے تھے۔ 2002ء کے بعد سے لوگوں کے ساتھ ملنا ملانا انھوں نے ویسے ہی چھوڑ رکھا ہے۔ ان دنوں چونکہ ایک اہم وزارت سنبھالے ہوئے ہیں اس لیے وقتاََ فوقتاََ قومی اسمبلی کے اجلاسوں یا اکثر اتوار کی شاموں کو صحافیوں کے سامنے دھواں دھار تقاریر فرما دیا کرتے ہیں۔ اکیلے میں وقت دیتے ہیں تو ان معدودے چند صحافیوں کو جو امریکا سے نفرت کرنے والے محب وطن ہیں اور پنج وقتی پارسا بھی۔

میں گنہگار اب ان کی خلوتوں کے قابل نہیں رہا مگر اس امر پر ربّ کا شکر گزار ہوں کیونکہ کھل کے ملاقات ہوئی تو بہت سارے موضوعات پر بحث مباحثہ تلخ ہوکر باہمی احترام کے رشتے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چوہدری صاحب کے ماضی کو خوب جانتے ہوئے البتہ ایک اور اہم وزیر کے ایک فقرے کو میں بہت سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہوگیا جن سے میں نے قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں جاننا چاہا۔ نواز شریف کے دیگر قریبی سمجھے جانے والے وزراء کی طرح یہ وزیر بھی ان دنوں ’’خبر‘‘ کے حوالے سے لب سیئے رکھتے ہیں۔ میں اصرار کرتا رہا تو بس اتنا بولے ’’تمہیں تو اچھی طرح یاد ہے 1992ء کے وسط میں ہمارے (نواز شریف حکومت) ساتھ کیا ہوا تھا؟‘‘

ان صاحب نے اشارہ کیا تو مجھے بہت کچھ یاد آگیا۔ فوج کی سربراہی میں ایک سال گزارنے کے بعد جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم نے اپریل1992ء سے وزیر اعظم نواز شریف کو بتانا شروع کردیا تھا کہ سندھ میں معاملات امن وامان کے حوالے سے دگرگوں ہورہے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف بننے سے قبل آصف نواز کراچی کے کور کمانڈر ہوا کرتے تھے۔ ایم کیو ایم ان دنوں نواز حکومت میں وزارتیں لیے بیٹھی تھی۔ چوہدری نثار علی خان ان دنوں وزیر پٹرولیم ہی نہیں وزیر اعظم کے خصوصی معاون بھی ہوا کرتے تھے اور اپنی اس حیثیت میں سیاسی امور پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ انھیں شبہ ہوا کہ شاید جنرل جنجوجہ امن وامان درست کرنے کے نام پر ایم کیو ایم کے کراچی پر بڑھتے کنٹرول کو قابو کرنا چاہ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے وزیراعظم کو سنی ان سنی کرنے کا مشورہ دیا۔ مگر پھر جنرل آصف نواز اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کو اپنے خدشات بتانا شروع ہوگئے۔ ایوان صدر کے ایماء پر بالآخر اس وقت کی عسکری قیادت نے وزیراعظم اور ان کے چند قریبی رفقاء کے لیے سندھ کے حوالے سے ایک تفصیلی بریفنگ کا اہتمام کیا۔ اس بریفنگ کے ذریعے وزیر اعظم کو قائل کردیا گیا کہ فوج کراچی میں نہیں بلکہ اندرون سندھ پھیلتے ’’ڈاکو راج‘‘ کو ختم کرناچاہتی ہے۔ چونکہ ان دنوں ’’ڈاکوؤں‘‘ کے سیاستدانوں میں سے زیادہ ’’سرپرستوں‘‘ کا تعلق پیپلز پارٹی سے بتایا گیا تھا اس لیے وزیراعظم نے تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد فوج کو اندرونِ سندھ آپریشن کی اجازت دے دی۔

ابھی یہ آپریشن اپنے بتائے ہوئے اہداف کے قریب بھی نہیں پہنچا تھا تو کراچی میں ’’اچانک‘‘ حقیقی بن گئی۔ ایم کیو ایم تلملااُٹھی اور چوہدری نثار علی خان ہکا بکا۔ نواز شریف حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان سندھ آپریشن کی کراچی میں ایک نئی صورت نمودار ہونے کے بعد غلط فہمیاں اور تلخیاں بڑھتی چلی گئیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غلام اسحاق خان نے بالآخر نواز شریف کی دوسری حکومت کو اپریل 1993ء میں برطرف کردیا۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے اس برطرفی کو غیر آئینی قرار دے کر نواز حکومت کو بحال کردیا۔ مگر اس حکومت میں مولوی مدن والی بات نہ رہی۔ بالآخرنئے انتخابات کروانا ہی پڑے اور محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئیں۔ اب قومی سلامتی پالیسی کوئی حتمی شکل اختیار نہیں کرپا رہی تو اس کے اصل اسباب 1992ء میں ہی نہیں کارگل آپریشن کے بارے میں دی گئی بریفنگ کو یاد کرتے ہوئے ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔ نواز شریف کے چوہدری نثار علی جیسے وفادار دودھ کے جلے ہوئے ہیں چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینے پر خود کو مجبور محسوس کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔