ریاست، جمہوریت اورتصوف

مقتدا منصور  بدھ 22 جنوری 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

عشق ہوجائے کسی سے کوئی یارا تو نہیں ہے
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں ہے

اپنے اندر بھرپورآفاقیت لیے یہ شعراس نعت کا حصہ ہے،جس کے خالق اردو کے معروف شاعرکنورمہندر سنگھ بیدی سحر سکھ دھرم سے تعلق رکھتے ہیں۔اسی طرح اردو دان حلقوں میں انتہائی مقبول نوحہ’’ گھبرائے گی زینب ‘‘ جس کی مقبولیت میں مرحوم ناصر جہاں کی پرسوز آواز میں مزید چار چاند لگائے، لکھنو کے ایک ہندو شاعر چھنو لال دلگیر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔کہا جاتا ہے ممبئی کی فلم نگری میں سب سے اچھی نعتیں لتا منگیشکر نے اور سب سے اچھے بھجن محمد رفیع نے گائے ہیں۔یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ7دہائی قبل پشاور کا یوسف خان جب فلم نگری میں داخل ہوتا ہے تو دلیپ کمارکے ہندوانی نام کے ساتھ لافانی شہرت پاتا ہے۔ اسی طرح دودہائی قبل جنوبی ہند کا ہندو نوجوان موسیقار دلیپ کماراسلام قبول کرکے اے آر رحمان ہوجاتا ہے،تو بھی اس کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس کا مطلب یہ ہے صوفیاء کی اس دھرتی میں ناموں کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یہ رویے اور رجحان اس فکری کثرتیت اورثقافتی تنوع کاحاصل ہیں، جس کی بنیادگزشتہ آٹھ صدیوں کے دوران ساحلِ کراچی سے سلہٹ کے سبزہ زاروں تک اور بولان کے سنگلاخ پہاڑوں سے راس کماری کے نیلگوں پانیوں تک پھیلے صوفیوں اور سنتوں کے اس عظیم سلسلے نے رکھی ۔جہاں انسانوں کو انسان سمجھاجاتا ہے، عقیدے، مسلک یا قومیت کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاتا۔یہی سبب ہے کہ سندھ کا عظیم صوفی شاعر شاہ لطیف جب اپنی دھرتی سندھ کی بقاء اور سلامتی کے لیے خدائے بزرگ وبرتر کی بارگاہ میںسر بسجود ہوتا ہے تو سارے عالم کے لیے خیرکا بھی تمنائی ہوتا ہے۔پنجابی کے عظیم جرأت مند شاعربابا بلھے شاہ انسان کو عقائد ونظریات سے بلند تر سمجھتے ہیں اور دل کومسجد ومندر سے کہیں زیادہ اہم اور محترم قراردیتے ہیں۔یہی ایک صوفی کا وصف ہے اور یہی اس کی تعلیم و تربیت ۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے اجمیر کی دھرتی پر انتہائی نامساعد حالات میں محبت کی جو جوت جگائی تھی،اس سے آج پورا برصغیرفیضیاب ہو رہا ہے۔بابا فرید گنج شکرؒ کی ہمہ دینیت کے جذبہ کا کرشمہ ہے کہ سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب میں ان کا تذکرہ موجود ہے اور سکھ کمیونٹی میں ان کا بے حد احترام کیا جاتا ہے۔سکھوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو بابا فرید گنج شکر کے بھانجے صابرکلیریؒ سے عقیدت کی بنا پر آج بھی اپنے نام کے ساتھ صابری کا لاحقہ لگاتا ہے۔ لاہور کے ایک اور صوفی بزرگ میاں میرؒ نے امرتسر میں واقع سون مندر(گولڈن ٹیمپل)کا سنگِ بنیاد رکھا تھا،جو ان کی ہمہ دینیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔آج برصغیر کا کون سا ایسا آستانہ ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے عقیدت کے پھول نچھاور نہیں کرتے۔اسی طرح صوفیا کے کلام پر ہر مذہب و عقیدے کے ماننے والوں نے تحقیق کی ہے۔ شاہ لطیف کے کلام ہی کو لیجیے،اسے سب سے پہلے ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے محقق ڈاکٹر گربخشانی نے مرتب کیا۔موسیقی کی اہم اور دلآویز صنف قوالی، جسے امیر خسروؒ نے جدید شکل دی، آج بھی دلوں کو گرمانے اور روح کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہے۔اس لیے یہ طے ہے کہ تحمل و برداشت اور رواداری و بھائی چارے کی وہ جوت جو صوفیاء نے دلوں میں جگائی تھی، کسی خارجی رویے سے ماند تو پڑ سکتی ہے، ختم نہیں ہو سکتی۔

آج کا دور جمہوریت کا ہے۔جمہوریت عوام کو اپنے نمایندوں کے ذریعہ ریاستی فیصلہ سازی میں شرکت کا موقع فراہم کرتی ہے، فکری کثرتیت اور ثقافتی تنوع کے بغیر جمہوریت ممکن نہیں۔ فکری کثرتیت اور ثقافتی تنوع اس خطے میں کسی ظلِ الٰہی یا اہل جبہ دستار کی کاوشوں کے بجائے کسی خاک نشیں صوفیوں اور سنتوںکی کرامات کے نتیجے میں پروان چڑھا۔جنہوں نے وسعت قلبی کے ساتھ ہر مذہب و مسلک کے ماننے والے کے لیے ایک دوسرے کے دلوں میںقبولیت کے جذبات کو بیدارکرکے دراصل ہمہ دینیت کے تصور کو فروغ دیا۔ہمہ دینیت ہی جمہوریت کی اساس ہے، یعنی ہر شہری بلاامتیاز رنگ، نسل،عقیدہ اور صنف مساوی حقوق کا حقدار ہے۔اسے اپنی ریاست میں اپنی اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر اعلیٰ ترین منصب و مقام تک پہنچنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ایک ایسی ریاست جہاںکسی بھی بنیاد یا کسی بھی حوالے سے شہریوں کے درمیان خطِ امتیازکھینچا گیا ہو،جمہوری کہلانے کی ہرگز مستحق نہیں ہوسکتی،خواہ وہاں تسلسل کے ساتھ انتخابات ہی کیوں نہ ہوتے ہوں۔

بابائے قوم ایک ذہین اور دور اندیش رہنماء تھے وہ جانتے تھے کہ جن جذباتی نعروں کو بنیاد بنا کر آزادی حاصل کی گئی ہے، وہ حکمرانی کے ضوابط نہیں بن سکتے۔ اس لیے انھوں نے دستور ساز اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کے دوران اراکین اور پوری قوم سے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کو ایک تھیوکریٹک ریاست بنانے کے بجائے ایک ہمہ دینی ریاست بنانے کے لیے قانون سازی کریں۔ ان کے واضح الفاظ یہ تھے کہ”You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed – that has nothing to do with the business of the State… We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State… I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in due course Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.”

ان الفاظ کے بعد کسی ابہام کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ بابائے قوم اس ملک کو ایک جدید جمہوری ملک دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ان کی جہاندیدہ نظروں نے آنے والے دنوں کا منظرنامہ دیکھ لیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس ملک کے قیام کی جدوجہد میں مسلمانوں کے تمام فرقوں اور مسالک نے اپنا مساوی حصہ ڈالاہے، اس لیے ان سب کا اس ملک پر مساوی حق ہے۔ اسی طرح اس ملک میں رہنے والے غیر مسلم بھی اس ریاست میں انھی حقوق کے حقدار ہیں، جو اکثریت کی خواہش ہیں۔یہی وجہ تھی کہ انھوں نے آزادی کے حصول کے لیے تو مذہب کو استعمال کیا، لیکن ریاست کو کسی بھی طور تھیوکریٹک بنانے کے مخالف تھے۔آج جو کچھ ہورہاہے، وہ اس ایڈونچر ازم کا شاخسانہ ہے، جوسول اور ملٹری بیوروکریسی نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے وقتاًفوقتاً کیا۔اگر اسوقت ارباب حل وعقد قائد کے تصورِ ریاست کا ادراک کرلیتے اور اس ملک کے ایک حقیقی وفاقی جمہوریہ بننے کے عمل میں رکاوٹ نہ ڈالتے تو شاید ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے اوراس اذیت ناک صورتحال سے دوچار نہ ہوتے،جس سے صبح و شام دوچار ہیں۔

اس لیے صاحبو !ایک بار پھر عرض ہے کہ 67برسوں کے دوران جو غلطیاں ہوئیں، سو ہوئیں۔ اب اگر سنجیدگی سے اس ملک کو بچانا ہے اور مزید تقسیم کے عمل کو روکنا ہے،تو جرأت مندی کے ساتھ اس خطے میں صوفیاء کے متعارف کردہ’’ ہمہ دینیت‘‘ کے فلسفے کو آگے بڑھانا ہوگا،کیونکہ یہ ہماری رگ وپے میں سمایا ہوا ہے۔اس طرح ایک طرف مسلم اور غیر مسلم کی تمیز ختم ہوگی اور دوسری طرف متشدد فرقہ واریت کا خاتمہ ہوسکے گا۔موجودہ حالات نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ کوئی معاشرہ اس وقت تک پھلتا پھولتا نہیں ، جب تک کہ وہ شہریوں کے امتیازی سلوک کی گرداب میں پھنسا رہتا ہے۔لہٰذا اب اس بات میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کے وجود کو قائم رکھنے کا واحد ذریعہ1973ء کا آئین اور وفاقی جمہوری نظمِ حکمرانی ہے۔ اس لیے حکومت اور سیاسی قیادتیں دہشت گردی کے مسئلے پر منقسم ہونے کے بجائے اس عفریت کوجڑسے ختم کرنے کے لیے اپنے سیاسی عزم کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی ترتیب دیں۔ اگر حکومت دہشت گردی کی عفریت پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو ایک طرف مذہب اور فرقے کی بنیاد پر جاری دہشت گردی سے نجات دلاکر اپنے عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کرے گی ۔دوسری جانب ہم اپنے ملک کا ایک روشن جمہوری چہرہ عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔