- کراچی؛ شیر شاہ پل کے قریب سی ٹی ڈی کا مبینہ مقابلہ، دو دہشت گرد ہلاک، چھیپا حکام
- اسلام آباد؛ چائنہ چوک میں تاحال کارکنان موجود، مظاہرین کے خلاف آپریشن کرنے کا فیصلہ
- کراچی؛ جائیداد کے تنازع پر فائرنگ سے پولیس اہلکار قتل، ملزم زخمی حالت میں گرفتار
- ممنوعہ اورمضر صحت اسمگل شدہ17ٹن چائنیز نمک پکڑا گیا
- گورنر سندھ نے شیخ فارق کو گولڈ میڈل جبکہ دیگر شخصیات کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی
- IMFپروگرام پروفاق اورصوبوں کوایک پیج پرآناہوگا، شہبازرانا
- سپریم کورٹ: PTIپارٹی الیکشن نظرثانی کیس11اکتوبر کو مقرر
- بحریہ ٹاؤن کراچی میں منفرد تفریح پروجیکٹ دی موسٹ کروکڈ اسٹریٹ کا افتتاح ہوگیا
- کراچی کے علاقے لانڈھی میں فائرنگ سے شخص زخمی
- کراچی؛ پی ٹی آئی کے 8 کارکن انصاف ہاوس شاہراہ فیصل سے حراست میں لے کر تھانے منتقل
- غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں، 79 فیصد مساجد، 3 چرچ تباہ
- ڈاکٹر ذاکر نائیک کا گورنر ہاؤس کراچی میں ’’زندگی کا مقصد‘‘ موضوع پر خطاب
- فرانسیسی صدر کا اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے کا مطالبہ، نیتن یاہو کی تنقید
- پاکستانی بیوپاریوں نے کھجور کی روایتی لذت کو نئے انداز میں متعارف کرادیا
- کراچی: اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر تقریب کا انعقاد
- پنجاب میں 8 اکتوبر تک بارش کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے، محکمہ موسمیات
- کراچی: ڈاکوؤں نے لاکھوں روپے مالیت کا 90 من دودھ سے لدا ٹرک چھین لیا
- پی ٹی آئی جلسے کی آڑ میں دہشت گردوں کو پنجاب منتقل کرتی ہے، گورنر کے پی
- اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، ایران
- وزیراعلی گنڈا پور کے معاملے پر خیبرپختونخوا اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب
اپوزیشن کے بڑھتے اختلافات
گزشتہ سال قائم ہونے والے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں صرف چھ ماہ بعد ہی دراڑ اس وقت پڑی تھی جب اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی سے وضاحت طلب کی گئی تھی ، جسے پیپلز پارٹی نے شوکاز نوٹس سے تعبیر کیا تھا اور پارٹی اجلاس میں پی ڈی ایم کے جواب طلبی کے نوٹس کو پھاڑ دیا تھا۔
اے این پی نے بھی پی پی کی حمایت میں پی ڈی ایم کو چھوڑ دیا تھا اور دونوں پارٹیوں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ہر پارٹی کی اپنی پالیسی ہے اور وہ حکومت کے خلاف پی ڈی ایم میں شامل ہوئے تھے اور سب پارٹیوں کا جن متفقہ نکات پر اتفاق ہوا تھا اس میں اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی کوئی شرط شامل نہیں تھی اس لیے پیپلز پارٹی جو پارلیمنٹ میں تیسری بڑی قوت ہے، اس نے سندھ حکومت چھوڑنے اور پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد اپوزیشن نے اپنا لانگ مارچ ملتوی کردیا تھا حالانکہ پیپلز پارٹی لانگ مارچ پر تیار تھی اور اس نے تیار ی بھی شروع کر رکھی تھی۔
پی پی اور اے این پی کے چھوڑ جانے کے بعد پی ڈی ایم میں قومی سطح کی صرف دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ(ن) اور جے یو آئی باقی رہ گئی تھیں۔ باقی چھ پارٹیوں میں کوئی قومی پارٹی شامل نہیں بلکہ صوبوں تک محدود پارٹیاں اور سیاسی گروپ شامل ہیں اور بعض کے پاس اسمبلیوں میں کوئی ایک نشست بھی نہیں ہے بعض کے پاس ایک دو نشستیں ہیں اور وہ اپنے علاقوں تک محدود ہیں۔
پی ڈی ایم کا مقصد حکومت کا خاتمہ تھا مگر چھ ماہ بھی یہ اتحاد نہ چل سکا اور تیسری بڑی پارٹی کے الگ ہو جانے سے پی ڈی ایم غیر موثر ہوگئی ہے اور حکومت کے خلاف کوئی موثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اس کا خیال ہے کہ اگر پیپلز پارٹی استعفوں سے انکار نہ کرتی تو پی ڈی ایم کی تحریک سے حکومت دوبارہ انتخابات پر مجبور ہوجاتی جب کہ حکومت مسلسل دعوے کر رہی تھی کہ پی ڈی ایم استعفے دے تو حکومت خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرا دے گی۔
اپوزیشن کی طرف سے استعفیٰ دینے کی نوبت ہی نہیں آئی اگر بڑی تعداد میں استعفے دیے جاتے تو حکومت جانے پر مجبور ہوسکتی تھی کیونکہ تقریباً نصف استعفوں کے بعد بڑے پیمانے پر ضمنی انتخاب ممکن نہ تھا۔
ماضی میں بھی ایسا نہیں ہوا جس سے حکومت بھی امتحان سے بچ گئی۔جس طرح حکومتی اتحاد مفاد پرست پارٹیوں پر مشتمل ہے اسی طرح پی ڈی ایم بھی سیاسی مفاد اور حکومتی عتاب سے محفوظ رہنے اور نئے انتخابات کے لیے بنی تھی جس کے باہمی اختلافات اور غیر اصولی سے حکومت کو تو کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ حکومت نے اپنی انتقامی کارروائیاں بھی جاری رکھیں اور دوبارہ متحد ہونے کے بجائے پی ڈی ایم اپنی ضد سے باہمی اختلافات بڑھاتی گئی کیونکہ ان کا اتحاد اصولی نہیں مفاد پرستی پر قائم تھا اور پیپلزپارٹی اپنی سندھ حکومت کیوں چھوڑتی۔
18 ویں ترمیم کے بعد صوبے بااختیار اور ماضی کی طرح وفاق کے محتاج ہیں نہ وفاق کے لیے کسی صوبائی حکومت کو ہٹانا ممکن ہے۔ 2014 میں جب پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے محدود استعفے دیے تھے، اس وقت اس نے اپنی کے پی حکومت چھوڑی تھی نہ صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے استعفے دیے تھے اور وفاقی حکومت کو ہٹانے میں بری طرح ناکام ہوئی تھی حالانکہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں کو بالاتروں کی حمایت بھی حاصل تھی۔
پی ڈی ایم کا مقصد پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو ہٹانا تھا تو اسے صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں پر اصرار نہیں کرنا چاہیے تھا اور یہی پی ڈی ایم کی بنیادی غلطی تھی جس کے نتیجے میں وہ اختلافات کا شکار ہوئی۔ پی پی پی کی سندھ حکومت پی ڈی ایم کی طاقت تھی جسے ضایع کیا گیا۔
پی ڈی ایم میں ہوتے ہوئے (ن) لیگ، پی پی اور جے یو آئی من مانے فیصلے کرتی رہیں ان میں باہمی اعتماد نہیں تھا۔ (ن) لیگ اور پی پی اتحاد میں ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے مخلص نہیں رہیں۔ پی ڈی ایم نے پی پی سے وضاحت مانگ کر پی ڈی ایم کو نقصان پہنچایا جس سے پی پی اور اے این پی باہر آ کر ایک ہوگئے اور پی ڈی ایم میں مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی ایک ہوگئے اور باقی چھوٹی پارٹیاں بھی مل کر پی ڈی ایم کے اتحاد میں پی پی کو واپس نہ لاسکیں کیونکہ وہ موثر اور اس پوزیشن میں نہیں تھیں جس کے بعد سے اپوزیشن تقسیم اور سیاسی مفادات کے لیے باہمی اختلافات کا شکار ہے جس سے حکومت مکمل فائدہ اٹھا رہی ہے اور قوم اور بالاتر تماشا دیکھ رہے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔