بچوں کی تربیت

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 22 جنوری 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

میرے ساتھ دو دوست بیٹھے چائے پی رہے تھے، چائے سے فارغ ہو کر ایک دوست نے دوسرے دوست کی جانب سگریٹ بڑھاتے ہوئے سگریٹ پینے کو کہا مگر اس نے انکار کر دیا۔ میرے لیے یہ انکار بہت حیرت ناک تھا کیونکہ میں اپنے دوست سے اچھی طرح واقف تھا کہ وہ سگریٹ پینے کا پرانا شوق رکھتا تھا اور جنون کا شوق رکھتا تھا اور جنون بھی اس حد تک کہ کئی مرتبہ اس کے والد اس کی مرمت بھی کر چکے تھے۔

میری حیران زدہ نظروں کو دوست نے بھانپ لیا اور مسکرا کر کہنے لگا کہ حیران مت ہوئیے ڈاکٹر صاحب! میں نے کافی عرصہ پہلے سگریٹ پینا چھوڑ دی ہے۔ اب مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے سوال کر ہی ڈالا کہ بھئی! یہ معجزہ کب اور کیسے ہوا؟

میرے دوست کا کہنا تھا کہ وہ شادی کے بعد بھی سگریٹ شوق سے پیتا تھا اور بیگم کے منع کرنے پر بھی اس نے ارادہ نہ بدلا۔ والد صاحب نصیحت کر کر کے تھک ہار بیٹھے لیکن جب بچے کی پیدائش ہوئی اور بچہ ذرا سمجھدار ہونے لگا تو اس نے محسوس کیا کہ بچہ کسی نصیحت سے نہیں مانتا بلکہ وہ بڑوں کی نقالی کرتا ہے۔

میرے دوست کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی بچے کو کچھ کھانے کو دیتا تو بچہ اس میں دلچسپی کم لیتا بعض اوقات کھانے سے انکار کر دیتا البتہ وہ خود جو کچھ کھاتا بچہ بھی وہی کھانے کے لیے لپکتا۔ چنانچہ اس نے تجربہ کیا کہ جو کچھ بچے کو کھلانا ہے خود کھانے کے انداز کا ناٹک کرے، بچہ خود ہی وہ چیز کھائے گا۔ اس کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔

اس تجربے کے بعد بقول ہمارے دوست کے وہ سمجھ گیا کہ اگر بچے کی درست خطوط پر تربیت کرنی ہے تو پہلے خود اس پر عمل کر کے دکھانا ہو گا۔ چنانچہ دوست نے پہلے اپنے آپ کو درست کرنا شروع کر دیا، اس مرحلے میں اس نے بچے کے سامنے پہلے خود اپنے بڑوں کو ادب سے سلام کرنا، ادب سے بڑوں کی بات سننا شروع کیا تو بچے نے بھی بالکل ویسے ہی عمل کرنا شروع کر دیا۔ میرے دوست نے سوائے عیدین کے کبھی نماز نہ پڑھی تھی لیکن اس مرحلے میں اس نے نماز پڑھنا شروع کر دی اور بچہ بھی بغیر کسی نصیحت کے اپنے انداز میں نماز پڑھنا شروع ہو گیا۔

میرے دوست کا کہنا ہے کہ اس نے پھر اپنے ذہن میں ایک اچھے نوجوان کا خاکہ بنایا کہ ایک اچھا انسان کس قسم کی عادت اور اعمال والا نوجوان ہو سکتا ہے پھر اس خاکے کے مطابق اپنے کردار کو ڈھالنا شروع کیا تاکہ بچہ اس کے کردار کو دیکھ کر سیکھے اور بالکل ویسا ہی باکردار بنے جیسا اس کو میں نظر آؤں۔

بس اسی کردار کو اپنانے کے لیے دوست نے سگریٹ نوشی ترک کی۔ پہلے سینما اور مووی دیکھنے کی بہت عادت تھی چنانچہ یہ عادت ترک کی۔ محلے میں پہلے بزرگ کو دیکھ کر کترا کر نکلنا ہوتا تھا اب بزرگوں کو سلام کر کے ان کا کوئی کام ہو تو وہ بھی کرنا دوست نے اپنے عمل میں شامل کر لیا تھا۔ گلی محلے میں سب سے محبت کے ساتھ سلام دعا کرنا، بلاتفریق مذہب، مسلک اور رنگ و نسل یا زبان کے۔ بقول دوست کے اسی عمل سے بچے میں تعصب اور غلط رویوں کی نفی ہوتی ہے اور وہ ایک ضبط و تحمل اور برداشت طبیعت کا مالک بنتا ہے۔

بقول دوست کے گھر میں بھی کیبل کنکشن کی موجودگی کے باوجود وہ اور ان کی بیگم مذہبی چینل یا پھر پاکستانی ڈرامے ہی دیکھتے ہیں اور بس! یہی وجہ ہے کہ ان کا بچہ بھی کبھی کارٹون چینل کے علاوہ کوئی دوسرا چینل نہیں لگاتا۔ گو کہ ابھی کم عمر ہے لیکن اس کی راہ درست سمت میں ہے۔

مجھے نہیں معلوم کے پڑھنے والے ہمارے اس دوست کی باتوں سے کسی حد تک متفق ہوں مگر مجھے اس چیز کا احساس بہت اچھی طرح ہو گیا کہ آج بھی اگر ہم اپنے بچوں کی اچھی تربیت چاہتے ہیں اور انھیں ایک اچھا اور کامیاب انسان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو ان بچوں کے سامنے رول ماڈل بنا کر آنا ہو گا، جیسا کردار ہم اپنے بچے کے سامنے پیش کریں گے ہمارے بچے بھی اسی کردار سے متاثر ہو کر اپنا کردار تعمیر کریں گے۔

ایک بات بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ جناب! ابھی بچہ ہے بڑا ہو گا تو عقل آ ہی جائے گی، بڑا ہو پھر بھی کردار درست نہ ہو تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شادی کر دو، سب ٹھیک ہو جائے گا، جب ذمے داریوں کا بوجھ آن پڑے گا تو!

ایک ایسا ہی واقعہ ہمارے جاننے والے نے سنایا۔ آپ بھی سن لیجیے کہ ایک صاحب نے اپنے بچے کی پرورش میں یہی نقطہ نظر پیش کیا۔ یعنی کم عمری میں ان کے بچے نے جب بھی شرارت کی اور بدتمیزی و ہٹ دھرمی تک کا مظاہرہ کیا ان صاحب نے یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا کہ بڑا ہو گا تو عقل آئے گی پھر سب درست ہو جائے گا۔

یہ بچہ بڑا ہوکر اچھا خاصا بالغ بن گیا لیکن اس کی حرکتیں خراب تربیت کے باعث تبدیل نہ ہوئیں۔ ایک روز والد صاحب عمرے کے لیے جانے لگے تو اس لڑکے نے بھی ساتھ چلنے کی ضد کی۔ والد صاحب نے بہت منع کیا مگر بچپن سے ضدی تھا سو اپنی جگہ اڑا رہا آخر کار والد صاحب عمرے پر لے گئے۔ وہاں جا کر اس نے پھر ضد کی کہ وہ اکیلا ہی عبادت کرے گا اور خود واپس اکیلا ہوٹل آ جائے گا۔

خیر والد صاحب اس کی ضد کے آگے پھر مجبور ہو گئے، اگلے روز والد صاحب عبادت کر کے ہوٹل آ گئے مگر بیٹا نہ آیا، ایک ہفتہ ڈھونڈتے رہے معلوم ہوا کہ وہ لڑکا وہاں کسی سیکیورٹی والے (شُرطے) سے لڑ بیٹھا تھا اور الٹا سیکیورٹی والے کی پٹائی بھی کر دی چنانچہ اس پر نقص امن کا کیس بن گیا۔ مختصراً یہ کہ کئی ماہ کی اسیری کے بعد پاکستانی ایمبسی کی مداخلت پر جان بخشی ہوئی اور وہ اللہ اللہ کر کے گھر پہنچا۔

بہرکیف یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا، نہ جانے اس قسم کے کتنے واقعات ہوں گے۔ اگر ہم اولاد کی تربیت کے لیے خود اپنے آپ کو بھی درست کر لیں تو قوی امید ہے کہ اس کے اثرات ضرور اولاد پر بھی مرتب ہوں گے جس کا ثمر ضرور ملے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔