سیاستدان اور سچ کا خوف

سالار سلیمان  جمعـء 9 جولائی 2021
آخر کیوں میڈیا کو پابند سلاسل کرنے کا بل اس حد تک خفیہ طریقے سے پیش کیا گیا؟ (فوٹو: فائل)

آخر کیوں میڈیا کو پابند سلاسل کرنے کا بل اس حد تک خفیہ طریقے سے پیش کیا گیا؟ (فوٹو: فائل)

جب عقلوں پر پردے پڑ جائیں تو ایسی حماقتیں ہی ہوتی ہیں جیسی پنجاب اسمبلی کی کمیٹی نمبر 9 سے ہوئی۔

پیپلز پارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی مخدوم عثمان نے ایک بل پیش کیا، جس سے میڈٰیا کی مشکیں کسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کو آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ پنجاب اسمبلی کے کسی ممبر کا، اس کے اسٹاف کا ’’استحقاق‘‘ مجروح کرنا جرم ہے۔ استحقاق کی خلاف ورزی قابل سزا جرم ہوگی۔

بل کے تحت اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کو ایک دن کے اندر سزا دینے کے اختیارات ہوں گے اور اگر کسی اسمبلی رکن کا استحقاق مجروح ہوتا ہے تو اسپیکر کے پاس اختیارات ہوں گے کہ وہ متعلقہ ڈسٹرکٹ آفیسر کو کہہ کر گرفتاری کروا سکتا ہے۔ اس معاملے میں جوڈیشل کمیٹی بنانے اور اس میں کتنے ارکان رکھنے ہیں، یہ اختیار بھی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو حاصل ہوگا۔ اسمبلی کے ملازمین کی ڈیوٹی کے دوران مداخلت کرنے پر بھی متعلقہ شخص کے خلاف کارروائی ہوگی جبکہ اسپیکر ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کسی بھی شخص کی سزا کم یا بڑھا سکتا ہے۔ اس بل کے تحت اسپیکر کے کنڈکٹ پر بھی کوئی بات نہیں کی جاسکے گی اور اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کے پاس فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات بھی ہوں گے، جو خود ہی سزا و جزا کا فیصلہ کریں گے۔

یعنی اگر ہم اس بل کو تھوڑا سا غور سے دیکھیں تو اسپیکر صاحب اس بل میں امتیازی اور مرکزی حیثیت میں نظر آتے ہیں۔ جبکہ صحافیوں کے احتجاج کے بعد یہ فرماتے ہیں کہ صحافیوں کے تحفظات پر تحفظ استحقاق بل سے شقیں ختم کی گئیں، ان کےلیے صحافی قابلِ احترام ہیں، وہ خود اور ان کی جماعت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے۔

یہ تو خیر ہم نے دیکھ ہی لیا کہ آپ کو میڈیا سے کتنی ’’محبت‘‘ ہے اور آپ ہمارا کتنا احترام کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھ ہی لیا کہ آزادی صحافت پر آپ کا کتنا یقین ہے اور آزادی اظہار رائے کے حوالے سے آپ کی سوچ کیا ہے۔

تھوڑی مزید تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس بل پر محکمہ قانون کی رائے تک نہیں لی گئی۔ بل کو منظور کروانے کےلیے کمیٹی نمبر 9 کا خصوصی اجلاس بلایا گیا اور اس میں بھی بل پر بحث ہی نہیں ہوئی، بس خاموشی سے بل کو منظور کرلیا گیا۔ واضح رہے کہ محکمہ قانون اس اجلاس کے بارے میں لاعلم تھا۔

یہ حرکتیں اب سنجیدہ سوالات پیدا کرتی ہیں۔ آخر کیوں میڈیا کو پابند سلاسل کرنے کا بل اس حد تک خفیہ طریقے سے پیش کیا گیا؟ یہ بل پی پی کے رکن اسمبلی مخدوم عثمان نے پیش کیا، جب کہ ایسا ’’حساس‘‘ بل تو پارلیمانی لیڈر کو پیش کرنا چاہیے اور پی پی کے پارلیمانی لیڈر تو محمد حسن مرتضیٰ ہیں، انہوں نے کیوں نہیں پیش کیا؟ اس بل پر ایوان میں بحث کیوں نہیں ہوئی؟ اس بل میں صحافی فریق ہیں لیکن کسی باڈی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کیوں؟ اس بل پر محکمہ قانون تک کو کیوں لاعلم رکھا گیا؟ اس بل کی اتنی اہمیت کیوں ہے کہ عوامی مسائل پر منقسم سیاسی جماعتیں اس بل کےلیے ایک ہوگئیں؟ آخری مرتبہ کس حساس بل پر ق لیگ، ن لیگ، پی پی اور پی ٹی آئی ایک صفحہ پر نظر آئی ہیں؟ میڈیا کا گلا دبانا تو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، کیا اس بل کو ڈرافٹ کرنے والے کی ذہنی استعداد اس قدر کمزور ہے کہ اس کو اس بات تک کا علم نہیں؟ پی پی تو آزادی اظہار کی چمپیئن بنتی ہے، کیا وہ اس گھٹیا بل پر اپنے رکن اسمبلی کی گوشمالی کرے گی؟ کیا یہ بل پی پی کی اعلیٰ قیادت کے علم میں لائے بغیر اسمبلی میں لایا گیا ہے؟ میں ضمنی سوالات چھوڑ دیتا ہوں لیکن بنیادی سوال وہیں کا وہیں ہے۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس بل کو ڈرافٹ کرنے پر فرعون کی روح ضرور سکون میں آگئی ہوگی۔ جیسے یہ سب جماعتیں اس بل پر ایک ہوئی ہیں، اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ سارا کام مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پنجاب اسمبلی ہم صحافی برادری کی جانب سے اپنی عقل و دانش اور ذہنی صلاحیت اور معاملہ فہمی پر سلام قبول کرے۔ یقین کیجیے، آپ جیسے ذہین ترین نگینے تو ہمیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملنے ہیں۔

رپورٹنگ کرنا صحافیوں کا حق ہے، کالم نویسی سے اپنی رائے کا اظہار صحافیوں کا حق ہے اور کوئی مائی کا لعل یہ حق ہم سے نہیں چھین سکا۔ جن صحافیوں کو زبردستی آف اسکرین کیا گیا ہے، وہ سوشل میڈیا پر زیادہ کھل کر بات کر رہے ہیں اور کیا بگاڑ لیا آپ نے ان کا؟ ایک پلیٹ فارم چھینا تھا، وہ دوسرے سے سامنے آگئے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ ریاست کے ایک ستون کا جمہوری اور آئینی حق سلب کریں گے تو ہم آپ کےلیے تالیاں بجائیں گے؟

سوشل میڈیا کو قابو کرنے کی کوشش کی تھی ناں؟ کیا کرلیا تھا پھر؟ آپ سے قبل کے حکمرانوں کا بھی یہ زعم تھا کہ وہ میڈیا کو قابو کرلیں گے، وہ اس کو ہتھکڑی لگا لیں گے اور وہ احمق ابتدائی کامیابیوں پر ڈھول بھی بجاتے تھے۔ پھر ان میں سے کوئی دبئی میں پناہ گزین ہے اور کوئی لندن میں دوا کی پرچی لیے گھوم رہا ہے اور کوئی کراچی کے اسپتالوں کے چکر لگا رہا ہے۔ ہمارے پریس کلب الحمدللہ کل بھی آباد تھے، وہ آج بھی آباد ہیں۔

ہم صحافی ایسی ایسی مصدقہ خبر رکھتے ہیں کہ اگر وہ چھپ جائیں تو یہ سیاستدان کسی کو کیا، اپنے ہی گھر میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ امانت ہے۔ یہ سیاستدان ہی اپنی کولیگز کے بارے میں کیا کیا گفتگو ہمارے ساتھ کرتے ہیں، ہم اس کو بھی امانت سمجھتے ہیں۔ کیا یہ ریاستی اداروں کے خوف سے ہم صحافیوں سے مدد نہیں مانگتے؟ جب اپنے ہی کرتوتوں سے کسی دلدل میں پھنستے ہیں تو کس طبقے کو سب سے پہلے فون کرتے ہیں؟ اور پھر اسمبلیوں میں ایسے بل پیش کرتے ہیں۔

اسمبلی کی رپورٹنگ ایک سجنیدہ معاملہ ہے اور اس کےلیے کوئی عام صحافی نہیں بلکہ سنجیدہ اور منجھے ہوئے صحافی جاتے ہیں۔ میرا سوال ہے کہ بتائیے کس نے اور کب غلط رپورٹنگ کی ہے؟

رپورٹنگ کیسے کرنی ہے، اس کےلیے کسی بھی صحافی کو کسی رکن اسمبلی سے لیکچر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا کام ہے، ہم جانتے ہیں۔ اگر حقائق سے ہٹ کر ہے تو اس پر آپ بات کیجیے لیکن ہمیں طریقہ سکھانے کی جرأت بھی مت کیجیے گا۔

ق لیگ اور پی ٹی آئی تو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لیکن مجھے حیرانی ن لیگ اور پی پی کی منافقت پر ہورہی ہے۔ اس حد تک گرنا نہیں چاہیے تھا۔ اس ستون کو جو توڑنا چاہتے تھے، وہ ستون الحمدللہ قائم ہے۔ اگر میڈیا سے مسئلہ ہے تو سیدھا سیدھا بتائیے، ہم اپنا پلان کرتے ہیں، آپ پھر اپنا پلان کیجیے۔ لیکن یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے پی آر ڈپارٹمنٹ کی استعداد کیا ہے، اس کی کل حیثیت کتنی ہے اور آپ کو رائے عامہ کےلیے، اظہار کےلیے، کوریج کےلیے اسی میڈیا کی اور ان ہی صحافیوں کی ضرورت ہے۔ اس طرح تو صحافی آپ کے محسن ہوئے اور آپ ایسے احسان فراموش اور محسن کش ہیں کہ ہماری ہی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں۔ میں اگر ایک سیاستدان کے شہرۂ آفاق الفاظ مستعار لوں تو کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے، کوئی تمیز ہوتی ہے، کوئی اخلاقیات ہوتی ہے۔ جو کہ شاید آپ میں نہیں ہے۔

پورے پاکستان کی صحافی برادری اس بل کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ یہ بل تو انشااللہ ہم واپس کروا لیں گے لیکن اس بل نے نیت میں فتور کو بے نقاب کردیا ہے اور اس اسمبلی کی صلاحیت اور معاملہ فہمی پر بھی سنجیدہ سوال پیدا کردیے ہیں۔ اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ صحافی سیاست کی کالی بھیڑوں کو بے نقاب نہیں کریں گے، وہ معاشرتی معاملات پر خاموش رہیں گے، وہ اسمبلی کی کارروائی کو عوام کے سامنے نہیں لائیں گے، وہ ویسا ہی رپورٹ کریں گے جیسا کہ سیاستدان چاہیں گے تو ایسی سوچ والوں کو فوری طور پر احمقوں کی جنت سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنا کام کیا ہے اور ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ آپ روکنے کی کوشش کیجیے، ہماری مزاحمت جاری رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔