سوشل میڈیا کے ’’ورلڈ چیمپئن‘‘

سلیم خالق  منگل 13 جولائی 2021
گراؤنڈ میں کارکردگی صفر مگر سوشل میڈیا پر دیکھو تو لگتا ہے جیسے ہم ورلڈ چیمپئن ہیں

گراؤنڈ میں کارکردگی صفر مگر سوشل میڈیا پر دیکھو تو لگتا ہے جیسے ہم ورلڈ چیمپئن ہیں

’’پاکستان میں آل راؤنڈر اسے کہا جاتا ہے جو اچھی بیٹنگ کرسکے نہ بولنگ‘‘

ہمارے دفتر میں نعیم الرحمان صاحب ہوا کرتے تھے،یہ جملہ انھوں نے کئی بارکہا، سچ بولوں تو میں اس سے متفق نہیں تھا مگر آہستہ آہستہ جب خود ساختہ آل راؤنڈرز کی کارکردگی دیکھی تو یہ بات درست لگنے لگی، ان دنوں فہیم اشرف اس تعریف پر پورا اترتے ہیں، 30 ون ڈے میچز میں اگر کوئی 11 کی اوسط سے208 رنز بنائے اور44 کی اوسط سے23 وکٹیں لے توکوئی بھی اسے آل راؤنڈر نہیں کہے گا، ہمارے ملک میں عمران خان،وسیم اکرم، شاہد آفریدی، عبدالرزاق اور اظہر محمود جیسے آل راؤنڈزر رہے مگر بدقسمتی سے اب ہم فہیم جیسے پلیئرز کو آل راؤنڈر کہتے ہیں۔

شاید ٹیم کے ناقص کھیل کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے، ٹیل بہت لمبی ہو گئی اور سوائے حسن علی کے لوئر آرڈر میں کوئی بہتر پرفارم نہیں کر پاتا، فٹنس مسائل سے نجات کے بعد حسن نے شاندارکم بیک کیا اور بہترین بولنگ کے ساتھ وہ پاور ہٹنگ میں بھی لوہا منوا رہے ہیں، اگر مزید محنت کریں تو شاید مستقبل میں آل راؤنڈر بھی بن سکیں،حسن کو دیکھ کر دیگر کھلاڑیوں کو بھی سبق سیکھنا چاہیے، بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی کی مجموعی کارکردگی بھی اچھی ہے لیکن انگلینڈ میں انھیں تاحال زیادہ وکٹیں نہیں ملیں۔

حارث رؤف وقت سے پہلے شعیب ایکٹر سوری شعیب اختر بن گئے،انھیں چاہیے کہ پہلے کچھ پرفارم کریں پھر ایکٹنگ ورنہ ٹیم سے باہر ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی،2 سال قبل انگلینڈ کے آخری دورے میں پاکستان ٹیم آئی تھی تو چاروں میچز میں شکست ہوئی اورہر بار340 سے زائد رنز بنوا دیے تھے، اس مرتبہ بھی بولرز تاحال ناکام ہیں، ایسے میں کہیں پیچھے چھپے وقار یونس پر بھی سوال اٹھتے ہیں کہ وہ کر کیا رہے ہیں،کتنے بولرز انھوں نے تیار کیے؟ سیریز سے پہلے ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ ’’پاکستان ٹیم کی قسمت اچھی ہے۔

جس ٹیم سے سیریز ہو اس کے اسٹار کرکٹرز ہی دستبردار ہو جاتے ہیں، اس مرتبہ تو پوری حریف سائیڈ ہی تبدیل ہو گئی، اب تو انگلینڈ میں 3-0 سے فتح پکی ہے‘‘ پی سی بی نے تو شاید احسان مانی اور وسیم خان کے بڑے بڑے مبارکباد کے پیغامات بھی تیار کر لیے ہوں گے، ہمیں لگتا تھاکہ 46 سال میں جو نہیں ہوا وہ اب ہو جائے گا اور پاکستان ٹیم برطانوی سرزمین پر پہلی بار ون ڈے سیریز اپنے نام کر لے گی، مگرگرین شرٹس کی بے اعتباری کے قصے تو ہم بچپن سے ہی سن رہے ہیں۔

کبھی تو یہ ورلڈچیمپئن حریف کو آسانی سے ہرا دیں تو کبھی زمبابوے سے بھی ہار جائیں، کتنے کپتان اور کھلاڑی بدلے لیکن ناقابل پیشگوئی ٹیم کا لیبل نہیں ہٹا۔ حالیہ سیریز کرانا انگلش بورڈکیلیے بیحد اہم تھا، اگرمیچز نہ ہوتے تو اسے کروڑوں پاؤنڈز کا نقصان اٹھانا پڑتا، اس لیے جب 7 کھلاڑیوں و آفیشلز کے کورونا میں مبتلا ہونے کا علم ہوا تو کسی پریشانی کا شکار ہوئے بغیر فوراً ہی نئی ٹیم تشکیل دے دی،بحالی فٹنس کیلیے کوشاں بین اسٹوکس کو گھر سے بلا کر قیادت سونپ دی، اسکواڈ کے 9 کھلاڑی ایسے تھے جنھوں نے کبھی انگلش کیپ سر پر نہیں سجائی، شاید ہم لوگوں کی طرح کرکٹرز بھی جذباتی ہو گئے، انھیں لگا کہ ان ’’بچوں‘‘ کو تو ہم آسانی سے قابو کر لیں گے، مگر یہ بچے بھی بڑے شاطر نکلے اور پہلے میچ میں ہی ہمیں آسمان سے زمین پر لاکر پٹخ دیا۔

ثاقب محمود پی ایس ایل کے کراچی میں منعقدہ میچز میں دھاک بٹھا چکے تھے، انھوں نے پہلے ون ڈے میں 4 وکٹیں اڑا کر پاکستانی بیٹنگ کی کمر توڑ دی، اوپننگ میں پاکستان کو بڑے عرصے سے مسائل کا سامنا ہے، امام الحق کی کارکردگی میں تسلسل نام کی کوئی چیز موجود نہیں، جنوبی افریقہ میں انھوں نے 2اچھی اننگز کھیلی تھیں لیکن پی ایس ایل میں ناکامی سے اعتماد ختم ہو گیا، پہلے ون ڈے میں صفر اور دوسرے میں ایک رن پر آؤٹ ہو گئے، فخر زمان ساتھی کی جلد رخصتی کے سبب اپنا روایتی کھیل نہیں پیش کر پاتے،دوسرے ون ڈے میں تو وہ بہت پھنس کر کھیلے، دراصل دیگر ٹیموں اور ہماری اپروچ میں بڑا فرق ہے، اگر ہماری 1، 2 وکٹیں جلد گر جائیں تو دفاعی خول میں چلے جاتے ہیں، اس سے رنز بھی نہیں بنتے اورپلیئرز آؤٹ بھی ہوتے رہتے ہیں، دیگر ٹیمیں کم از کم اسکورنگ کا سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش توکرتی ہیں، بابر اعظم انگلینڈ کے خلاف دونوں میچز میں ناکام رہے، ٹیم اگر ہارتی رہی تو اس سے بطور بیٹسمین بھی ان پر دباؤ بڑھے گا،ورلڈکپ والے سال ہم بابرکی فارم متاثر ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

اسی طرح حالیہ کچھ عرصے کی فتوحات میں محمد رضوان کا بھی اہم کردار رہا ہے، بدقسمتی سے انگلینڈ میں وہ بھی تاحال آؤٹ آف فارم ہیں،پاکستان ٹیم ان دونوں پر حد سے زیادہ انحصار کرتی ہے، ان کے پرفارم نہ کرنے کا کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے،صہیب مقصود کو اب پی ایس ایل کے سحر سے نکلنا ہوگا، یہ ٹی ٹوئنٹی نہیں بلکہ ون ڈے کرکٹ ہے، اس میں 2چھکے لگا کر آؤٹ ہونا کوئی کمال نہیں بلکہ بڑی اننگز کھیلنا پڑتی ہے، پہلے ون ڈے میں جب صہیب بیٹنگ کیلیے آئے تو43 اور دوسرے میں 36.1 اوورز باقی تھے۔

ان کے پاس سنچری بنانے کا اچھا موقع تھا جسے گنوا دیا، اب تیسرے ون ڈے میں بھی بڑی اننگز نہ کھیل پائے تو صرف ٹی ٹوئنٹی پلیئر کا ٹھپہ لگ جائے گا۔ نائب کپتان شاداب خان کی فارم بھی اب ٹیم کو پریشان کرنے لگی ہے، وہ انجریز سے نجات کے بعد واپس آئے تھے اس لیے تھوڑا مارجن دیا جا سکتا تھا مگر ایسا زیادہ عرصے تک نہیں چلے گا، ان کو بیٹنگ اور بولنگ دونوں میں اچھا پرفارم کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی کرکٹ اب میدان سے زیادہ سوشل میڈیا پر کھیلی جا رہی ہے۔

گراؤنڈ میں کارکردگی صفر مگر سوشل میڈیا پر دیکھو تو لگتا ہے جیسے ہم ورلڈ چیمپئن ہیں، اصل بات میدان میں فتوحات حاصل کرنا ہے، جب آپ زمبابوے اور اسٹار کرکٹرز سے محروم انگلینڈ سے ہاریں گے تو ’’غیراعلانیہ ترجمان‘‘ یا ’’کی بورڈ واریئرز‘‘ بھی تنقید سے نہیں بچا سکتے، ’’ورک فرام برطانیہ ہوم‘‘ کی پالیسی سے فائدہ اٹھانا چھوڑ کر بورڈ حکام ذرا کچھ ہمارے ملک کی کرکٹ کا بھی سوچیں،آپ کو تو ایکسٹینشن تقریباً مل ہی گئی ہے مگر اس سے کرکٹ شائقین کی ٹینشن بڑھ گئی کہ اب آگے نجانے کیا ہوگا؟

(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔