Sleepers Cells

نصرت جاوید  جمعـء 24 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بنوں اور راولپنڈی میں فوجی اہل کاروں پر حملوں کے بعد شمالی وزیرستان کے شہر میر علی میں پاک فضائیہ کے طیاروں کے ذریعے دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اسلام آباد کے ایک نسبتاََ خوش حال محلے کے ایک کشادہ اور ابلاغ کے جدید ترین ذرایع کے ساتھ مزین گھر کے ایک کمرے میں قیمتی لکڑی سے بنی میز اور گھومنے والی کرسی پر بیٹھا میں اس دعوے کی تصدیق یا تردید کرنے کے ہرگز قابل نہیں۔ ویسے آپ اگر امریکی یا یورپی سیاست کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں تو بس سوال کردیں اور میں ہر موقعہ کی غزل آپ کو منہ زبانی سنا دوں گا۔

اپنے وطن کے بارے میں بنیادی حقائق سے ایسی بے خبری میرے جیسے اپنے تئیں عقل کل بنے کئی صحافیوں میں عموماََ عیاں نظر آتی ہے۔ ہم مگر اس پر شرمندہ ہونے کو تیار نہیں۔ ہمارے قاری اور ناظرین بھی بڑے دل والے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ کئی دنوں سے کراچی جیسے اہم اور مستونگ جیسے دوردراز شہروں اور قصبوں میں دہشت اپنی پوری وحشت کے ساتھ سرگرم نظر آرہی ہے۔ شام ہوتے ہی لیکن ریموٹ اٹھائیں تو ہمیں 24/7’’باخبر‘‘ رکھنے کے دعوے دار چینلوں کی اسکرینوں پر کہیں نہ کہیں وینا ملک کسی مذہبی رہنما کی شفقت بھری معاونت سے خود کو Reinventکرتی نظر آجائے گی۔ اپنے شوہر سے اس نے اپنے سر سے دوپٹہ نہ اتارنے  کا وعدہ بھی کرلیا ہے۔ ایسے میں کوئی صحافی دیوانہ ہوکر ہی اپنے ادارے کو یہ اطلاع دینا چاہے گا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے شمالی وزیرستان جاکر صرف اور صرف سچ کو دریافت کرنا چاہے گا۔ اسکرین اور اخباری صفحات سے لمبے عرصے تک دوری آپ کو مارکیٹ سے ’’غائب‘‘ کر دیتی ہے۔ آپ کوئی جگہ خالی چھوڑیں تو اسے پر کرنے کو ایک نہیں بے شمار لوگ تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ انھوں نے آپ سے بہتر لکھ اور بول لیا تو پھر کوئی صحافتی ادارہ آپ کی ناز برداری کیوں کرے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ گھر میں بیٹھے آئیں بائیں شائیں لکھتے رہو اور رات کو سرخی پائوڈر لگا کر کسی اسکرین پر نمودار ہوکر سیاپا فروشی۔

اس بارے میں اب کم ازکم مجھے تو ہرگز کوئی شبہ نہیں رہا کہ ہماری ریاست کے دائمی اداروں اور ہمارے ووٹوں کے ذریعے بادشاہ بن جانے والے سیاست دانوں کو ’’حکومت‘‘ نام کی کسی شے سے کوئی دلچسپی نہیں باقی رہی۔ دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو بے بس بیوائوں کی طرح مذمتی بیانات جاری کردیتے ہیں۔ کبھی کبھار کوئی کمیٹی بناکر تحقیقات کا حکم بھی سنادیا جاتا ہے۔ اتفاقاََ تحقیقات مکمل ہوکر رپورٹ کی صورت اختیار کر بھی لیں تو وہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آتی۔ ایسی رپورٹیں منظر عام پر نہ آنے کی وجہ سے ہمارے عوام کی اکثریت ابھی تک یہ تصور کیے بیٹھی ہے کہ ایبٹ آباد کے کسی گھر میں اسامہ بن لادن اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ کافی برسوں سے پناہ گزین ہوا نہیں بیٹھا تھا۔ ’’جھوٹے اور مکار‘‘ امریکی پتہ نہیں وہاں کیوں درآئے اور جانے کسے مارکر اس کی لاش اپنے ساتھ لے گئے۔ اگر اس مکان میں واقعی اسامہ موجود تھا تو اسے مارنے کے بعد اس کی لاش کی تصویر ہمیں کیوں نہ دکھائی گئی؟

شمالی وزیرستان ہمارے صحافیوں اور سیاستدانوں کو خود کبھی جانے کی جرأت نہیں ہوتی۔ مگر وہاں کسی گھر پر ڈرون حملہ ہوتا ہے تو ہماری قومی غیرت جوش میں آجاتی ہے اور ہم اپنی خود مختاری کی پامالی پر سینہ کوبی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ حکومت کو مجبور کرتے ہیں کہ آیندہ کبھی کوئی ڈرون طیارہ ہماری فضائوں میں داخل ہوا تو اسے مارگرایاجائے۔ ڈرون مارگرانے کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال پر غور کیوں کریں۔ شاعر مشرق تو صاف الفاظ میں بتاچکے ہیں کہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔

شمالی وزیرستان کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ میں ایک بار پھر خلوصِ دل سے اعتراف کررہا ہوں کہ مجھے ہرگز علم نہیں۔ مگر ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں دہشت گردی کی جو لہر ان دنوں تیز تر ہوتی نظر آرہی ہے اب اس کا علاج صرف شمالی وزیرستان میں کوئی ’’بڑا آپریشن‘‘ کے ذریعے ممکن نہیں رہا۔ شاید ایک وقت تک ایسا ممکن تھا۔ ہماری ریاست مگر افغانستان کے مستقبل کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے ’’اثاثوں‘‘ کو بچانے کے چکر میں اس آپریشن کو ٹالتی رہی۔ ہماری ریاست کے تساہل کا “Bad Taliban”نے پورا فائدہ اٹھایا۔ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں Sleepers Cellsکا ذکر کیا تھا اور یہ دعویٰ بھی کہ وہ پاکستان کے تمام شہروں اور قصبوں میں پھیل چکے ہیں۔ ’’میدان جنگ‘‘ میں بھیجے ان ’’مجاہدین‘‘ کے اہداف طے شدہ ہیں۔ انھیں ان اہداف تک پہنچنے کے لیے اب کسی Command and Control Centreسے مسلسل رابطے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ آپ شمالی وزیرستان کے کسی گائوں میں واقع ایسے ’’مرکز‘‘ کا مکمل صفایا بھی کردیں تو جنگ فوراََ ختم نہیں ہوگی۔

اپنے اس دعوے کو آسان الفاظ میں سمجھانے کے لیے آپ کو یاد دلانا ہے تو صرف اتنا کہ 1994ء سے ہماری ریاست کی جانب سے Badٹھہرائے طالبان نے طے کررکھا ہے کہ پولیو کے قطرے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے ایجاد کیے گئے ہیں۔ نائن الیون سے کئی ماہ پہلے ہی ملا فضل اللہ کے ریڈیو نے سوات میں ان قطروں کا استعمال رکوادیا تھا۔ ہماری ریاست پولیو کے خلاف اس مہم کا تدارک کرنے میں ناکام رہی۔ اب پاکستان میں جہاں کہیں بھی بچوں کو پولیو سے تحفظ کے لیے قطرے پلانے والا جو بھی رضا کار موجود ہے وہ ریاست کی طرف سے Badٹھہرائے طالبان کے لیے ایک Legitimate Targetہے۔

اسی لیے منگل کی صبح کراچی کے ایک قصبے میں پولیو رضا کاروں پر حملے کے عین دوسرے دن اس شہر سے کئی دور واقع چارسدہ میں پولیو مہم کے رضا کار لے جانے والی پولیس وین پر حملہ ہوگیا اور یہ حملہ شمالی وزیرستان کے شہر میر علی پرپاکستانی طیاروں کے ذریعے کی جانے والی بمباری کے باوجود ہوا۔Sleepers Cellsکے پورے ملک میں پھیلائو اور انھیں دیے گئے اہداف کے حوالے سے یکسوئی کی اس سے زیادہ ہیبت ناک مثال اس وقت میرے ذہن میں موجود نہیں۔ ویسے بھی اسلام آباد میں بارش کے بعد موسم کھل کر مناظر کو خوش نما بناچکا ہے۔ میرے ہیٹر کے لیے گیس بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ مجھے ریموٹ اُٹھاکر یہ پتہ کرنے دیں کہ شادی کے بعد ایک نئی عورت بنی وینا اس وقت کون سے چینل پر نظر آرہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔