ابلاغ کی بدلتی دنیا

عارف انیس ملک  ہفتہ 17 جولائی 2021
arifanees@gmail.com

[email protected]

کچھ دن پہلے لندن میں فٹ بال کے یورو کپ کا فائنل کھیلا گیا۔ انگلینڈ 55 سال بعد ایک بین الاقوامی ٹائٹل جیتنے میں ناکام ہوگیا۔ تاہم فائنل ہارنے سے بڑی کہانی، تین سیاہ فام کھلاڑیوں کا پینلٹی کک مس کرنا تھا۔ سوشل میڈیا پر مغلظات کا طوفان امڈ آیا جس میں ان کھلاڑیوں پر رکیک جملے کسے گئے تھے اور نسلی امتیازی سلوک کیا گیا تھا جس نے پورے انگلستان میں ایک آگ لگا دی۔ لندن کے میئر سے لے کر برطانوی وزیراعظم کو اس سلوک کے خلاف آواز اٹھانی پڑی۔

ٹیلی ویژن کی ایجاد سے لے کر تقریباً 2010 تک ابلاغ کی دنیا میں نفسیاتی سانچہ کچھ اس طرح سے ترتیب دیا گیا کہ ٹیلی ویژن یا ایڈیٹ باکس پر آنے والا، دکھنے والا، بولنے والا ہر شخص اہم ہے۔ اسی طرح سے مارکیٹنگ میں سیلیبریٹی کلچر چل نکلا۔ کار ہو، سگریٹ ہو، چائے ہو، واشنگ پاؤڈر ہو، کوئی نہ کوئی کھلاڑی، ایکٹر وغیرہ سائن کیا گیا، خطیر رقم دی گئی اور پراڈکٹس بیچ کر اربوں کمائے گئے۔

2010 کے بعد سوشل میڈیا نے پرانے تصورات کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ ایڈیٹ باکس اپنی طاقت کھوتا چلا گیا۔ میں کچھ حالیہ ملاقاتوں میں یہ جان کر ششدر رہ گیا کہ اس وقت میڈیا کی دنیا کے ڈائنو سار بی بی سی، سی این این، فاکس نیوز شدید بحران کا شکار ہیں اور انھیں اپنی فنا کا چیلنج درپیش ہے۔

برطانیہ میں ایک اخبار کو اپنے قارئین سے عطیات لینے کی مہم چلانی پڑی۔ بڑے بڑے جریدے ردی کا ڈھیر بن گئے۔ برطانیہ کے سب سے طاقتور اخبار دی سن کی قیمت مالکوں نے حال ہی میں ایک پاؤنڈ سے کم لگائی ہے۔ ٹک ٹاک کو ہی لیجیے، کل کا شروع ہونے والا یہ میڈیم اس وقت بڑے سے بڑے میڈیا ہاؤس سے زیادہ رش لے رہا ہے اور عوامی رائے کو متاثر کر رہا ہے اور محض فیشن اور لچر پن کو ہی نہیں، اب تو سیاسی آراء کو بھی تشکیل دے رہا ہے۔ابلاغ کے حوالے سے سوشل میڈیا اس وقت سب سے زیادہ موثر کردار ادا کر رہا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نیوز کے ساتھ ساتھ فیک نیوز کا رواج بھی پڑگیا۔ آج کے دور میں ہر دسویں شخص کا یوٹیوب پر ایک ٹی وی چینل ہے جہاں پر وہ آزادی سے اپنے ورژن کے مطابق کسی بھی موضوع پر بات کرسکتا ہے۔  اب یہ آرٹییفشل انٹیلی جنس کی دنیا ہے جس میں الگروتھم اپنا کمال دکھا رہا ہے اورشعوری لاشعوری طور پر اپنی حقیقت آپ تشکیل دے رہا ہے۔ پانچ سال قبل کیمبرج انالیٹیکا کی ورچوئل حقیقت کی تشکیل اور پھر الگروتھم کی مدد سے پہلے بریگزٹ اور پھر ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت کی مہم کو اپنی مرضی کا موڑ دینا انقلابی پیش رفت سے کم نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا پہلے کبھی بھی اتنی تقسیم نہیں ہوئی جتنی آج ہے جب ہر موضوع پر حقیقت، سراب اور سازشی تھیوریوں کے سیکڑوں اور ہزاروں ورژن موجود ہیں۔

میڈیا اور ابلاغ کی اس نئی سائنس میں انفلوئنسرز نے خاص اہمیت اختیار کرلی یے۔ گزشتہ ایک برس سے امریکی ارب پتی ایلان مسک وہ بیل بنا ہوا ہے جس نے دنیا کو اپنے سینگوں پر اٹھایاہوا ہے۔ خاص طور پر ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن کے حوالے سے اس کے مشکوک اور پراسرار ٹویٹ دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیتے ہیں۔

ایلان مسک نے اپنی اسٹار پاور کے حوالے سے حال ہی میں کچھ انوکھی حرکتیں کیں جنھوں نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ چند سال قبل ڈوج کوائن کے نام سے مذاق ہی مذاق میں ایک میم کرپٹو کرنسی کا آغاز ہوا جس کی قیمت نہ ہونے کے برابر تھی۔ تاہم اس سال ایلان مسک کے پے درپے ٹویٹ کرنے کی وجہ سے اس جوک کرپٹو کرنسی کی مالیت میں ہزار فیصد سے زائد اضافہ ہوا اور اس مذاق کرنسی کی مارکیٹ ویلیو مئی 2021 میں میں پچاس ارب ڈالرز سے زیادہ بڑھ گئی۔اب یہ ایک معمول بن گیا ہے کہ ایلان مسک کا ٹویٹ کرپٹو کرنسی کی قیمت بڑھانے یا گھٹانے میں اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور حکومت کو کون بھول سکتا ہے جب دنیا کی سپر پاور کو ٹویٹر کے ذریعے چلایا جا رہا تھا اور بڑے بڑے پالیسی بیانات بھی ٹویٹر کے ذریعے داغے جا رہے تھے اور امریکی فارن آفس کو چکر چڑھے ہوئے تھے۔ تقریباً ایک ماہ قبل غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران بھی یہی ٹرینڈ دیکھا گیا کہ کچھ نامور لوگوں کی فلسطین کی حمایت کی وجہ سے پہلی مرتبہ اسرائیل پچھلے قدموں پر رہا اور ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ ہم رئیلٹی یا حقیقت کا جو روپ آج تک دیکھتے سنتے اور مانتے رہے ہیں، وہ کافی حد تک فرسودہ ہوچکا ہے اور اسے بہت سے طریقوں سے چیلنج کیا جائے گا۔ خاص طور پر ابلاغ کے حوالے سے یہ ایک نئی دنیا ہے جس میں ایک “انفلونسر” کسی ملک کی فوج یا اس کے صدر سے زیادہ متاثر کرسکتا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ ٹیلیویژن بھی گزرے ہوئے کل کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ دنیا کے ہر کارپوریٹ، سیاسی، مذہبی ، نظریاتی اور اسٹیبلشمنٹی وجود کو اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھتے ہیں کہ اگلے دس سال میں دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔