- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا؟
اقوام عالم کی جدید تاریخ میں افغانستان وہ تنہا ملک ہے جو تقریباً گزشتہ نصف دہائی سے پیہم حالت جنگ میں ہے۔ افغانستان میں اس جنگ کا آغاز روس کی مداخلت سے ہوا تھا۔
روس کے انخلا کے بعد طالبان اور دیگر افغان مسلح گروہوں کے مابین حصول اقتدار کےلیے خانہ جنگی شروع ہوئی۔ اس خانہ جنگی میں طالبان کو فتح نصیب ہوئی اور وہ 1996 سے 2001 تک افغانستان میں برسر اقتدار رہے۔ طالبان کے دور اقتدار میں ہی 11 ستمبر کا سانحہ ہوا جس کے بعد امریکا کی سربراہی میں نیٹو اتحاد کی افواج نے افغانستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز کردیا۔ یہ جنگ تقریباً دو دہائیوں تک جاری رہنے کے بعد طالبان اور امریکا کے مابین ایک معاہدے سے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔
اس معاہدے کے نتیجے میں غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا کا عمل شروع ہوا اور اب امریکا اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا تقریباً مکمل ہونے کو ہے۔ اس انخلا کے ساتھ ہی افغانستان ایک نئی خانہ جنگی کا شکار ہوچکا ہے۔ افغان طالبان نے نیٹو افواج کے انخلا سے متصل ہی افغانستان کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کی جنگی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اس وقت افغانستان کے تقریباً دو سو اضلاع اور بیس صوبوں کے مرکزی شہر افغان طالبان کے حصار میں ہیں۔
افغان طالبان کی حالیہ کارروائیاں کل دنیا کےلیے بالعموم اور قریبی ممالک و وسطی ایشیا کےلیے خصوصاً باعث تشویش ہیں۔ وسطی ایشیا ریاستوں کو خدشہ ہے کہ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں افغانستان سے مسلح افراد و گروہ قریبی ممالک میں داخل ہوں گے۔
افغان طالبان کی تازہ کارروائیوں نے اس امکان کو بھی قوی کردیا ہے کہ افغان طالبان ایک بار پھر برسر اقتدار آ سکتے ہیں۔ طالبان حکومت کے سابقہ تجربے کی بنیاد پر ان خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ طالبان حکومت میں شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا جائے گا۔ اگرچہ طالبان ترجمان ان تمام امکانات کو رد کر رہے ہیں اور یہ یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں خواتین کی تعلیم سمیت کوئی انسانی و شہری حق سلب نہیں کیا جائے لیکن دنیا کا حافظہ ماضی کی تلخ یادوں کو محو کرنے کو تیار نہیں ہے۔
میرا احساس ہے کہ اگر طالبان برسراقتدار آجاتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ ان کا طرز حکمرانی ماضی سے قدرے مختلف ہو۔ طالبان اگرچہ بلاشبہ سیاسی قوت نہیں بلکہ جنگجو ہیں لیکن گزشتہ دو دہائیوں کی جنگ، بین الاقوامی دنیا سے ارتباط و اختلاط اور دنیا کی تنقید کے بموجب امکان ہے کہ ان کا طرز حکمرانی ماضی سے مختلف ہو۔
اس وقت افغانستان میں جو خانہ جنگی کی صورت حال ہے اس میں افغان طالبان اور افغان قومی فوج مدمقابل ہیں لیکن میرے نزدیک اگر افغان حکومت اور طالبان کے مابین کوئی معاہدہ طے نہیں ہوپاتا تو اس خانہ جنگی کے شدید ہونے کا خدشہ ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق افغانستان میں مقامی مسلح گرو مثلاً ذوالفقار امید گروہ، عبدالغنی علی پور گروہ وغیرہ اور دیگر درجنوں ایسے ہی مسلح گروہ طالبان کے خلاف متحرک ہوچکے ہیں۔ افغان خواتین نے بھی حال ہی میں اسلحہ اٹھا کر احتجاج کیا ہے۔ یہ احتجاج طالبان کے خلاف ایک علامتی اظہار تھا۔
افغانستان کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، چنانچہ اس کا سیاسی حل ہی تلاش کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک اس کی صائب صورت یہ ہے کہ تمام فریقین بشمول طالبان باہم مل کر ایک نیا افغان آئین تیار کریں۔ یہ یقیناً دونوں فریقین کےلیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا، کیونکہ اس طرح کے کسی معاہدے کے نتیجے میں فریقین کو لازماً کچھ نہ کچھ کھونا پڑے گا، لیکن اس کی قیمت بہرصورت ایک نئی جنگ سے کم ہوگی۔ اگر فریقین اس طرح کے کسی معاہدے پر متفق نہیں ہوتے تو بصورت دیگر نوے کی دہائی کی طرح طاقت ہی افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔