نہ دھوپ برداشت ہوتی ہے نہ بارش!!

شیریں حیدر  اتوار 18 جولائی 2021
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہم اپنی نسلوں کے لیے کیا کیا مسائل ، تحائف کی صورت چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ کیا ہمیں اس کا ادراک بھی ہے… جس طرح ہم میں سے بہت سے لوگوں کا اصول ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر کھانا آخری کھانا سمجھ کر کھاتے ہیں ، اسی طرح بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا، یہ زمین اور اس کے وسائل صرف ان کے لیے ہیں اور ان کے دنیا سے جاتے ہی ان کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔

ہم ان وسائل کو نعمت سمجھتے ہی نہیں تا وقتیکہ ہمیں ان کی کمی کا سامنا ہو یا ( ہماری لاپروائیوں اور کوتاہیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ) ان کی زیادتی ہمیں نقصان پہنچانا شروع کر دے ۔ اب کے بار، اسلام آباد میں بھی ایسی جھلسا دینے والی گرمی پڑی کہ انسان تو انسان، جانور بھی نڈھال ہوگئے۔

گھروں سے اگر کسی مجبوری سے نکلنا بھی پڑتا تھا تو باہر منہ نکالتے ہی لو کا ایسا تھپیڑا استقبال کرتا تھا کہ اپنی مجبوری بری لگتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اندر موجود رش کی وجہ سے، کسی دکان یا بینک کے باہر انتظار کرنا پڑا اور عمارت کے اندر نہ جا سکے تو ایک فٹ کا سایہ تک نہیں نظر آتا تھا۔

گاڑی پارک کرنے کے لیے بڑے سے بڑے میدان میں بھی کوئی شجر سایہ دار نظر نہیں آتا کہ پوری گاڑی نہ سہی، کچھ حصہ ہی سایے میں ہوجائے، نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جب دس منٹ کا کام کر کے واپس گاڑی میں بیٹھیں تو ایک بار تو سر گھوم جاتا ہے اور متلی محسوس ہوتی ہے۔

اس کی سب سے اہم وجہ یہی ہے کہ ہم نے مزید درخت لگانے کے بجائے ، جو چند موجود تھے انھیں بھی ختم کر دیا ہے ۔ دنیا بھر میں درختوں کی اہمیت کو محسوس کیا جاتا ہے اور پسماندہ ترین ملکوں میں بھی اس خزانے کو سنبھال سنبھال کر رکھا اور ان میں اضافہ کیا جاتا ہے… ایک ہم ہیںکہ ان کی اہمیت کو سمجھتے ہی نہیں۔

چند ممالک کا ڈیٹا دیکھیں… آبادی ، رقبے اور درختوں کا تناسب، ان ممالک میں درختوں کی تعداد فی کس کتنی ہے۔

کینیڈا۔ 953‘ روس۔4451‘ آسٹریلیا 3266‘ برازیل۔1494‘ امریکا۔716‘ فرانس۔182‘ برطانیہ۔47‘ ہندوستان 28‘ چین۔ 28‘ پاکستان ۔5 ۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں جو درخت موجود ہیں وہ اوسطا 422 درخت فی کس بنتے ہیں۔ کسی ایک ملک میں کم از کم سات درخت فی کس ہونا اس ملک کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری آبادی کے لحاظ سے ہمارے ملک میں پچاس کروڑ تک درختوں کی کمی ہے۔ یہ کم از کم تعداد ہے، درختوں کا زیادہ ہونا، زیادہ فوائد کا باعث ہے۔

کسی ملک کی آب و ہوا کا تعین وہاں موجود درختوں کی وجہ سے ہوتا ہے، ہوا کا خالص پن، آکسیجن کی فراوانی، وافر سایہ، پانی کے بہاؤ کو قابو میں رکھنا اور پہاڑوں کو کٹاؤ سے بچانا ایسے بنیادی فوائد ہیں جن کا ادراک ہو نا لازم ہے۔ ہمارے ہاں ذرا سے فائدے کی خاطر درخت یوں آسانی سے کاٹ دیے جاتے ہیں جیسے درخت راتوں رات یوں تناور ہو جاتے ہیں ۔ درختوں کو کاٹ کر ایندھن کے طور پر استعمال کرنا، اس کے زیاں کا سب سے بڑا سبب ہے۔

اس کے بعد ہمارے ہاں تعمیراتی کاموں میں لکڑی کا استعمال ہے، جس میں بہترین درختوں کی بہترین لکڑی کو بے دردی سے کاٹا اور فروخت کیا جاتا ہے۔ ہاؤسنگ کے شعبے میں، سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں درختوں کو کاٹ کر زمین کو ہموار کیا اور پلاٹ بنا کر دولت کمائی جاتی ہے۔ ایسی دولت کا کیا فائدہ جو آپ اپنی دھرتی کی خوبصورتی کو تباہ کر کے کمائیں، اس دولت کو ضایع کر کے جس سے قدرت نے آپ کو نوازا ہے۔

دنیا میں جہاں جہاں بھی گئے ہیں، مصروف ترین علاقوں میں بھی درختوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ آپ جہاز سے نظارہ کرتے ہیں اور آپ کو میلوں تک زمین نظر نہیں آتی۔ ہمارے ملک میں بھی کبھی اتنے درخت تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاتھوں برد ہوئے اور اس سے ملک میں نہ صرف درجہ حرارت بڑھا ہے بلکہ سیلاب کی تباہ کاریاں بھی بڑھ گئی ہیں ۔

ہم عام زندگی میں ایسی بہت سی اشیاء استعمال کرتے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف ہمارے ملک میں ، بلکہ دنیا بھر میں درختوں کو کاٹ کر ان کی لکڑی استعمال کرنے کا رجحان ہے۔ جب کہ ان سب اشیاء کا کوئی نہ کوئی متبادل موجودہے ۔ کبھی غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہمارے گھروں میں کتنی ہی ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے کئی درختوں کا قتل ہوا ہو گا جس کے نتیجے میں ہم اس وقت اس گرمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سے کہیں بڑھ کر یہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں کے لیے نا قابل برداشت ہو جائے گی۔

اپنے ملک کے درجہء حرارت کے لیے ہمارے اپنے ہی ملک میں درختوں کا ہونا اہم ہے نا، کینیڈا کے درختوں سے ہمارے ہاں کا درجہ ء حرارت تو نہیں بہتر ہو سکتا ۔ گرمی سے بلبلا کر اللہ تبارک و تعالی سے بارش کی دعا کرتے ہیں اور اس کی قبولیت کے نتیجے میں ہونے والی ایک ہی بارش پول کھول دیتی ہے کہ ہم بارش کتنی برداشت کر سکتے ہیں۔ سارے ندی نالوں میں طغیانی آ جاتی ہے اور ہم بارش رکنے کی دعائیں کر نے لگتے ہیں۔

ہمارے ہاں سب سے بڑا زیاں کاغذ کا ہے، چند دن پہلے میں ایک لیبارٹری میں خون کا ٹسٹ کروانے گئی تو انھوں نے مجھے A-4 سائز کے پورے کاغذ کی رسید دی، اس کے ایک کونے پر رسید تھی، کاغذ کا صرف آٹھواں حصہ استعمال ہوا تھا، ساتھ ہی مجھے فون پر بھی رسید آ گئی۔ میں نے کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے نوجوان سے کہا کہ اگر ای۔ رسیدملنا تھی تو اس کاغذی رسید کی ضرورت نہ تھی، اگر دینا ہی ہے تو آپ اس کاغذ کی آٹھ رسیدیں بنا سکتے ہیں۔

کہنے لگا، ’’ کوئی بات نہیں، پرنٹر کو اتنا ہی بڑا کاغذ چاہیے ہوتا ہے اور ہم کون سے آپ سے اس کاغذ کے پیسے لے رہے ہیں! ‘‘ کیا شاندار جواب تھا۔ پیسے تو آپ جناب کسی نہ کسی طرح اس کاغذ تو کیا، اس پرنٹر کے بھی ہمی سے بٹورتے ہیں مگر اس ادا سے کہ ہمیں محسوس نہیں ہوتا۔ ٹشو پیپر، ٹائیلٹ پیپر، فرنیچر، دروازے، کھڑکیاں، کاغذی سٹرا، ڈسپوزایبل کپ، گلاس اور پلیٹیں … یہ فہرست بہت طویل بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ہم بہت بے حسی سے ان سب چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، اس بات کو سوچے بغیر کہ اس کے نتیجے میں ہم اپنے بچوں کا مستقبل تاریک اور ان کی اگلی نسلوں کی زندگیاں مشکل ترین کر رہے ہیں۔

درست ہے کہ ہم نے اس وقت یہ سب دیکھنے کے لیے موجود نہیں ہونا مگر اس بات کی پیش بینی کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے ۔ جہاں کہیں اور جس حد تک مجبوری ہو وہاں ان سب اشیاء کا استعمال ترک نہیں کیا جا سکتا مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سارے استعمال شدہ مواد کو ری سائیکل کیا جائے… اسے صفائی کے سارے عمل سے گزار کر ایسی چیزوں کی دوبارہ بناوٹ کے لیے استعمال کیا جا سکے جس کے لیے نیا کاغذ استعمال اور ضایع ہوتا ہے مثلًا ٹائیلٹ پیپر، کاغذی تھیلے، جھنڈیاں اور کاغذی آرائشی سامان وغیرہ۔

سوشل اور پرنٹ میڈیا کا یہاں بھی کام یہی ہونا چاہیے کہ آج کے لوگوں میں یہ شعور بیدار کرے کہ ان کے اور ان کے بچوں کے کل کے لیے لازم ہے کہ وہ باشعور شہری ہونے کا حق ادا کریں ۔ حکومت کی مخالفت کو ایک طرف رکھ کر اس اہم ترین مسئلے اور وقت کی ضرورت کو سمجھیں۔ اعتراضات، سیاست اور مخالفت کرنے کے لیے اس کے علاوہ کافی وجوہات ، اوقات اور موضوعات موجود ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔