فلسفئہ قربانی ...  تقویٰ کی بنیاد پر کیا جانے والا حسن عمل اللہ کے ہاں قبول ہوتا ہے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  منگل 20 جولائی 2021
سوشل میڈیا پر قربانی کے جانور کی نمود ونمائش خسارے کا سودا ہے، مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی۔ فوٹو: ایکسپریس

سوشل میڈیا پر قربانی کے جانور کی نمود ونمائش خسارے کا سودا ہے، مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی۔ فوٹو: ایکسپریس

ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی معروف دینی سکالر ہیں اور پاکستان کے ایک بڑے دینی ادارے جامعہ نعیمہ کے مہتمم ہیں۔ عید الضحیٰ کی آمد کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ان کے خصوصی لیکچر کا اہتمام کیا گیا جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی
(مہتمم جامعہ نعیمہ لاہور)

’’قربانی‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ ’’قرب‘‘ سے نکلا ہے۔ اس کا معنی کسی چیز کا نزدیک ہونا ہے۔ اس کا متضاد دوری ہے۔ قرب سے قربان کا لفظ مبالغہ کے طور پر واقع ہوا ہے۔ اس کا معنی یوں بنے گا کہ ’’قربان‘‘ ’’فْعلَان‘‘ کے وزن پر ہونے کے اعتبار سے یہ اس قرب اور نزدیکی کی کیفیت کا نام ہے جو ماہ ذی الحجہ میں جانور کی قربانی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دینے کی وجہ سے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں برگزیدہ اور نیک بنا دیتی ہے اور اسے وہ قرب عطا ہوتا ہے جو کسی اور عمل سے حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ کبھی کبھی یہ قربت نوافل کی کثرت اور صدقہ و خیرات کی زیادتی سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

قربانی کا یہ عمل خیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ سے صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’سنۃ ابیکم ابراہیم‘‘ ’’تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا تو ہمیں کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’بکل شعرۃ حسنۃ‘‘ ’’ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا اور بھیڑ میں؟  اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’بھیڑ میں بھی ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔‘‘

(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۳۱۲۷)

حضرت ابراہیم علیہ السلام عباد صالحین سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ پر سلامتی بھیجی۔ حضورؐ کے بعد آپؑ سب سے افضل ہیں۔ آپؑ اپنے بعد آنے والے تمام انبیاء علیہم السلام کے والد ہیں۔ تین الہامی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) آپ علیہ السلام کی تعظیم کرتے ہیں۔ ان تینوں پر ابراہیمی دین کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ کعبۃ اللہ کی تعمیر آپؑ نے فرمائی، ارکانِ حج آپؑ کی یاد میں ہیں اور قربانی کا عظیم واجب عمل بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں دی گئی آپؑ کی قربانی کی یاد کو تازہ کرتا ہے۔

قربانی کا یہ عمل اس حقیقت کو آشکارا کرتا ہے کہ جب کبھی اللہ کی رضا اور راہ میں قربانی پیش کرنے کا وقت آئے تو اللہ کے بندے کسی قسم کی ہچکچاہٹ کے بغیر اس کے حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے قربانی پیش کردیں۔ جب کبھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی ناموس کی حفاظت کا مسئلہ ہو یا دین و شریعت کے بچانے کا اپنے جان و مال کو جیسے ممکن ہو سکے کام میں لے آئے۔ یہ قربانی خالصتاً رضائے الٰہی کے لیے ہو تو یقینا باعث اجر و ثواب ہو گی۔

جانور کی قربانی کا عمل ہابیل و قابیل کے قصے میں ملتا ہے۔ ہابیل نے مینڈھے کی صورت میں اپنی قربانی اللہ کی بارگاہ میں پیش کی۔یہ سب سے پہلی قربانی تھی جسے اللہ نے قبول فرمایا۔ اللہ کی بارگاہ میں قربانی مقبول ہونے پر ہابیل نے کہا: ’’انما یتقبل اللّٰہ من المتقین۔‘‘

(سورۃالمائدۃ، آیت:  27 )

’’اللہ اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہے۔‘‘

اس طرح قربانی کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں ہوگئی مشروعیت ہر امت میں رہی البتہ اس کی شہرت حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی اور اس کی یادگار کے طور پر امت محمدؐیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی اطاعت گزاری اور فرمانبرداری کے کئی مناظر پیش کئے۔ بتوں کی عبادت و شرک ختم کرنے کی کوشش میں جلتی آگ میں ڈالے گئے۔ یہ آگ اللہ تعالیٰ کے حکم سے گل و گلزار ہو گئی۔ حکم الٰہی پر عمل پیرا ہونے کے لیے اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور اپنے پیارے فرزند جسے بڑی دعاؤں کے بعد بڑھاپے کی عمر میں پایا تھا، کو وادی بطحا میں چھوڑ آئے جہاں سر چھپانے کو درخت اور پیاس بجھانے کو پانی کا قطرہ بھی میسر نہ تھا۔ اور نہ ہی کوئی مدد گار، مونس اور غم خوار۔ مکہ کی آبادکاری کی بنیاد یہی ماں بیٹا بنے۔ زم زم کا چشمہ بھی ان ہی کی بدولت اللہ نے عطا فرمایا۔

جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر 7 یا 13 سال کو پہنچی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ اور بیٹے سے ملنے کو آئے۔ آپ ؑ کو اپنے فرزند سے حد درجہ محبت تھی۔ ایک رات آپ ؑ نے خواب میں دیکھا کہ اپنی عزیز تر شے کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔ یہ رات یوم ترویہ (8 ذی الحجہ) کی تھی۔ ترویہ کا معنی سوچ بچار ہے۔

9 ذی الحجہ کی رات پھر خواب میں دیکھا کہ آپ ؑ عزیز ترین شے قربان کر رہے ہیں۔ آپ ؑ نے یوم عرفہ (پہچان کا دن) 9 ذی الحجہ کو پہچان لیا کہ یہ قربانی کس شے کی دینی ہے۔ 10 ذی الحجہ کی رات پھر آپ ؑ نے خواب دیکھا کہ آپ ؑ قربانی پیش کر رہے ہیں۔

10 ذی الحجہ کو یوم النحر کہتے ہیں یعنی جانور ذبح کرنے کا دن۔ اس دن آپ ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے اس قربانی والے خواب کا ذکر کیا کہ ’’اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تم سوچ لو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے عرض کیا کہ اے میرے باپ آپ اس حکم کو بجا لائیے جسے کرنے کا آپ کو حکم دیا گیا ہے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں سے پائیں گے۔‘‘ اور جب دونوں نے حکم مان لیا اور لٹا دیا اسماعیل علیہ السلام کو ماتھے کے بل تو آواز دی ہم نے اسے، اے ابراہیم! بے شک تو نے خواب سچ کر دکھایا ہے۔ بے شک اس طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک یہی تو آزمائش ہے کھلی اور ہم نے فدیہ کر دیا اس کا ایک قربانی عظمت والی سے اور ہم نے بعد میں آنے والوں میں اس واقعہ کا ذکر خیر چھوڑا۔‘‘

(سورۃ الصافات، آیت: 102  تا 108)

قرآن کریم نے حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کی قربانی کی تفصیل بیان کر دی۔ کیا خوب تسلیم و رضا ہے۔ کیا خوب اطاعت الٰہی ہے۔ ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب پر عمل پیرا ہونے کا حکم دامن گیر ہے تو دوسری طرف حضرت اسماعیل علیہ السلام اس خواب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے آپ ؑکو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اپنے والد کو یقین دلاتے ہیں کہ آپ ؑملنے والے حکم کو بجا لاتے ہوئے میری قربانی سے دریغ نہ کریں اور مجھے بھاگتا ہوا نہ پائیں گے بلکہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ کمال اطاعت گزاری اور بندگی کا اظہار والد و بیٹے کی طرف سے کیا گیا۔ کوئی کجی نہیں، کوئی اگر مگر نہیں، دوٹوک حکم الٰہی پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں۔

قرآن کریم میں 6 مختلف آیات مبارکہ میں قربانی کی حقیقت و حکمت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قربانی کے بھاری جانور (اونٹ، گائے) کو ایک طرف شعائر اللہ کہا گیا تو دوسری طرف ان کے گوشت کھانے اور کھلانے کی اجازت دی گئی۔ اللہ رب العزت کو نہ تو قربانی کے گوشت سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی اس کے خون سے۔ حکمِ الٰہی ہے: ’’لن ینال اللّٰہ لحومھا و لا دماؤھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم۔‘‘

(سورۃ الحج، آیت:  37 )

’’اللہ کو ہرگز نہ ان قربانیوں کو گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون اور لیکن تمہاری پرہیزگاری اس کی بارگاہ میں باریاب ہوتی ہے۔‘‘

حدیث مبارکہ اس آیت کی وضاحت یوں کرتی ہے:

’’ان اللّٰہ لا ینظر صورکم و اموالکم و لکن انما ینظر الی اعمالکم و قلوبکم۔‘‘

(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 4143)

’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور اموال کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے اعمال اور دل کی نیت دیکھتا ہے۔‘‘

یعنی معیار قبولیت عمل میں اخلاص اور دل کی کھری نیت ہے۔ تقویٰ کی بنیاد پر کیا جانے والا حسن عمل اللہ کے ہاں جگہ پاتا ہے اور مقبول ہوتا ہے۔ اسی لیے قربانی کے جانور کا ڈیل ڈول اور اس کا بیش بہا ہونا اکثر نمود و نمائش کی علامت بن جاتا ہے۔ قربانی کے قیمتی جانوروں کو لے کر اترانا اور ان کے خریدنے والوں کا سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چرچا حقیقتاً خسارے کا سودا ہے۔

اللہ تو یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ قربانی کرنے والے میں خوفِ خدا کتنا ہے؟ اور وہ کتنے خلوص کے ساتھ اس عبادت کو ادا کرنا چاہتا ہے؟ اسی طرح حضور ا کرمؐ نے فرمایا: جانور کے خون کا پہلا قطرہ جونہی زمین پر گرتا ہے اس قربانی کو بارگاہ الوہیت میں قبول کر لیا جاتا ہے۔ اسی لیے قربانی سے مقصود گوشت کا حصول نہ ہے بلکہ جانور کے حلقوم پر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر چھری چلا دینے کا نام قربانی ہے۔

قربانی کا جانور شعائر اللہ سے ہے اور اس کی تعظیم تقویٰ کی علامت بنتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ومن یعظم شعائر اللّٰہ فانھا من تقوی القلوب۔‘‘

(سورۃ الحج، آیت:  32)

’’اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری ہے۔‘‘

شعائر اللہ کی تعظیم قربانی کے معاملہ میں قربانی کے جانور کا خوبصورت اور جسمانی عیوب سے پاک ہونا اور اس سے کسی قسم کا کوئی نفع نہ اٹھانا ہے۔ اگر کوئی قیمتی جانور خریدتا ہے اور نہ دکھاوا کرتا ہے اور نہ ہی اس پر اتراتا اور تشہیر کرتا تو یقینا یہ تقویٰ کی نشانی ہے۔ ایسی قربانی یقینا قبول ہو گی۔

شاہ ولی اللہ ’’حجۃاللہ البالغۃ‘‘ میں اسی بارے تحریر فرماتے ہیں:

اور دوسرا (عید الاضحی) وہ دن ہے کہ جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح کا ارادہ کیا اور اللہ کا ان پر انعام ہوا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے عظیم ذبیحہ (جنتی مینڈھا) عطا فرمایا۔ اسی لیے اس میں ملت ا براہیمی ؑکے آئمہ کے حالات کی یاددہانی ہے۔ اللہ کی اطاعت میں ان کی جان و مال کو خرچ کرنے اور انتہائی درجہ صبر کرنے کے واقعہ سے لوگوں کی عبرت دلانا مقصود ہے۔ نیز اس میں حاجیوں کے ساتھ مشابہت ہے اور ان کی عظمت ہے۔ اور جس کام میں وہ مشغول ہیں اس میں ان کو رغبت دلانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تکبیرات (تشریق) کو مسنون قرار دیا گیا ہے۔

یوم النحر (عید الاضحی) کے دن اللہ رب العزت کو خون بہانے سے زیادہ پیارا کوئی اور عمل نہ ہے۔ اسی لیے اسے خوش دلی سے کرنے کا حکم ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’یوم النحر میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقبول ہو جاتا ہے لہٰذا اسے خوش دلی سے کرو۔‘‘

(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 3126)

امت مسلمہ کی اور کیا خوش نصیبی ہونی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ عید الاضحی کے دن دو موٹے تازے چتکبرے مینڈھے اللہ کی راہ میں قربانی کرتے ہیں۔ ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے۔

قربانی ہر اس مسلمان پر واجب ہے۔جو مقیم اور بالغ ہو اور صاحب نصاب ہو یعنی آج کے وقت میں اس کے پاس کم از کم 84000 روپے ہوں اور اس کی وقتی ضروریات سے زائد ہوں۔ ایک گھر میں ایک قربانی کفایت نہ کرے گی بلکہ جتنے افراد نصاب تک پہنچے ہوں گے ان سب پر قربانی واجب ہو گی۔

استطاعت کے باوجود نہ کرنے پر وعید آئی ہے۔ اس لیے اسے طیب نفس کے ساتھ کیا جائے۔ قربانی کرنے والے اپنے ثواب میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اگر وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے لے کر اپنی قربانی تک بال و ناخن نہ کاٹے، یہ استحبابی عمل ہے، کرے گا تو ثواب ملے گا نہ کرے تو گناہ نہ ہے۔ اسی طرح جو شخص قربانی نہ کر سکے وہ بھی ذی الحجہ کے چاند سے نماز عید پڑھنے تک بال و ناخن نہیں کٹواتا تو اسے قربانی کا ثواب ملتا ہے۔ قربانی کی کھال صدقہ کرنی چاہیے۔ اس کا بہترین مصرف مدارس دینیہ میں اور خاص طور پر یہ حالات کہ ان کو چلانا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ عوام الناس کو دین کی حفاظت کے لیے مالی صدقات کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔