افغانستان کے موجودہ حالات اور پاکستان

ایمان ملک  منگل 20 جولائی 2021
امید ہے افغانستان، پاکستان اور دیگر ریاستوں کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال نہیں ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

امید ہے افغانستان، پاکستان اور دیگر ریاستوں کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال نہیں ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

اگرچہ افغانستان کے متعدد صوبائی دارالحکومتوں نے طالبان کے حملے کی مزاحمت کی مگر وہ سب بری طرح ہار گئے، تاہم اب تک غیر ملکی افواج اور فضائیہ کے انخلا کے پس منظر میں، افغان طالبان کی فتح سب کےلیے ایک حیرت انگیز اور ناقابل یقین نتیجے کے طور پر ابھر کر منظر عام پر آئی ہے۔ دریں اثناء، قطر میں طالبان کے دفتر نے بڑے علاقائی ممالک کو وفد ارسال کیا ہے تاکہ یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ غیر ملکی جنگجوؤں کو کسی بھی ملک کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس سے ان کی ماضی کی روش ٹوٹ جانے کا اشارہ ملتا ہے اور ایک امید بھی قائم ہوتی ہے کہ اب یہ دہشت گردوں کا میزبان ملک (افغانستان) ہمارے ملک پاکستان اور دیگر ریاستوں کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ سرزمین افغانستان گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ و جدل اور خانہ جنگی سے دوچار ہے۔ اور دنیا کی ایک بڑی طاقت کی بری طرح افغانستان میں ناکامی کے چالیس سال بعد، اور جدید اسلحہ سے لیس دنیا کی دیگر بڑی ’طاقتوں کا اتحاد‘ بھی گزشتہ بیس برس کی جنگ کے بعد یہاں سے ناکامی کی ہزیمت اٹھا کر اب اپنے اپنے گھر لوٹ رہا ہے۔

غیر ملکی طاقتوں سے آزادی کے بعد افغانستان ایک بار پھر ماضی کی طرح خانہ جنگی اور بدامنی کی دہلیز پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے یا نہیں؟ یہ کہنا فی الحال قبل از وقت ہوگا۔ البتہ موجودہ صورتحال سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ماضی کے برعکس افغان حکومت اور افغان طالبان میں اس بار مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔ اور افغان طالبان بھی بار بار اعادہ کرچکے ہیں کہ وہ تمام معاملات بذریعہ بات چیت حل کرنے کے خواہاں ہیں۔

اور تو اور ’افغان امن عمل‘ میں مذاکرات کا دور افغان طالبان کی مضبوط سفارتکاری اور ان کے اپنائے گئے مربوط طریقہ کار کا غماز ہے، جس میں ناصرف عالمی طاقتوں کو قائل کرنے کی سکت موجود تھی بلکہ اپنے آپ کو بطور بااختیار مذاکرات کار شناخت کروانے کی صلاحیت بھی تھی۔ واضح رہے کہ مذکورہ امن مذاکرات صرف امریکا، برطانیہ اور نیٹو اتحادیوں کے علاوہ ایران، پاکستان، بھارت، چین، ترکی، قطر اور دیگر ممالک کو بھی دائرہ کار میں لاچکے ہیں۔

تاہم، طالبان افغانستان کو اماراتِ اسلامیہ میں تبدیل کرنے کےلیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ طالبان کے ترجمان کا مؤقف ہے کہ یہ اسلامی آمریت نہیں ہوگی۔ تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ موجودہ اسلامی جمہوریہ افغانستان سے کس لحاظ سے مختلف ہوگا؟ افغان طالبان نے اعتراف کیا ہے کہ خواتین کے بنیادی حقوق کو یقینی بنایا جائے گا، نیز انہیں تعلیم تک رسائی اور کام کرنے کی سہولت فراہم کی جائے گی جبکہ آزادی اظہار کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ تاہم، ابھی یہ اندازہ لگانا محال ہے کہ موجودہ طالبان کے ماتحت ملک ملا عمر کے ماتحت افغانستان سے کتنا مختلف یا ملتا جلتا ہوگا۔

فی الوقت سماجی میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں متعدد زاویوں سے افغانستان ناصرف زیر بحث ہے بلکہ گرما گرم موضوع کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسی ضمن میں ایک طرف ترک افواج کی افغانستان میں امن کے قیام اور اس کے بقا کےلیے تعیناتی زیر بحث ہے تو دوسری طرف توانائی کے منصوبوں میں وسط ایشیائی ممالک، نیز ایران اور پاکستان بھی افغانستان کےلیے مزید اہمیت اختیار کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں چین کا کردار بھی اہم ہوگا کیونکہ اس کی ’ون روڈ ون بیلٹ‘ کے منصوبے کے تحت اس خطے میں بھاری سرمایہ کاری ہے۔ اسی لیے ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ قوی امکان ہے کہ چین افغانستان کو بھی اپنے منصوبے سے منسلک کرلے۔ یہاں میں یہ گوش گزار کرتی چلوں کہ نظریہ باہمی معاشی انحصار کے تحت ایسے ممالک میں جنگ نہیں ہوسکتی جہاں معاشی ضروریات ایک دوسرے سے وابستہ ہوجائیں، نیز جس ملک کا بھی مفاد دوسرے ملک سے جڑ جائے وہاں بھی وہ مذکورہ ملک بدامنی پیدا نہیں ہونے دیتا۔

مگرپریشان کن امر یہ ہے کہ لولی لنگڑی افغان حکومت جو افغان طالبان کے سامنے تو بے بس ہے بلکہ گھٹنے ٹیک چکی ہے اور اس کے فوجی ہمسایہ ملک میں راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں، مگر نجانے کیوں اپنی تمام تر امداد اور تیس لاکھ افغانیوں کا تیس سال سے بوجھ برداشت کرنے کے باوجود اس کی الزام تراشیوں کی زد میں ابھی تک پاکستان ہے؟

ابھی حال ہی کی بات ہے کہ پاکستان نے افغان سیکیورٹی فورسز کے 40 اہلکاروں کی مدد کی، جو سرحد پار پاکستان آگئے تھے۔ انہیں باعزت واپس روانہ کیا۔ نیز پاکستان نے افغان افواج کی درخواست پر لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا مگر اس کے برعکس افغان حکومت پاکستان کی شکر گزار ہونے کے بجائے پاکستان پر الزام لگانے میں جُت گئی۔ البتہ پاکستان نے افغان نائب صدر امر اللہ صالح کے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان پر طالبان کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ بننے کا الزام عائد کیا تھا۔

علاوہ ازیں، قطر میں گزشتہ برس بات چیت کا آغاز ہوا تھا لیکن ابھی تک اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے اور طالبان جس تیزی سے علاقوں پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں اس سے تو یہ لگتا ہے کہ بات چیت کے بجائے طالبان کابل کو طاقت کے زور پر فتح کرلیں گے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو افغان طالبان کا اسپین بولدک پر قبضہ حالیہ ہفتوں کے دوران سرحدی گزرگاہوں اور خشک بندرگاہوں پر طالبان حملوں کے تسلسل کی کڑی ہے، کیونکہ آمدنی کے اس ذریعے کی ضرورت کابل کو تو ہے ہی تاہم طالبان لیڈر بھی اسے اپنی جیبیں بھرنے کےلیے ضروری سمجھتے ہیں۔

اِدھر جو بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ بدھ اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے دوران امریکی افواج کی مدد کرنے والے ’افغان مترجمین‘ کو ملک سے نکال کر لے جانے کےلیے تیار ہے، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان افراد کی منزل کیا ہوگی اور انہیں پروازوں تک محفوظ طور پر پہنچنے کو کس طرح یقینی بنایا جائے گا۔ خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ ’آپریشن الائیز ریفیوج‘ کے نام سے یہ مشن جولائی کے آخری ہفتے میں شروع ہوگا اور سب سے پہلے ان افغان شہریوں کو افغانستان سے باہر لے جایا جائے گا جو پہلے ہی امریکا میں رہائش کی درخواست دے چکے ہیں۔

مذکورہ بالا امریکی منصوبہ بہت حیرت انگیز ہے کیونکہ اسے صرف ان افغانیوں کی پروا ہے جنہوں نے اس کے لیے کام کیا مگر افغانی عوام کی جان و مال اور انسانی حقوق کی کوئی پروا نہیں، جس کا واویلا یہ 2001 میں مچاتا افغانستان میں ایسے دوڑا چلا آیا تھا جیسے کسی نے اسے باقاعدہ دعوت دے کر بلایا ہو۔ ادھر امریکا کی شریک جرم برطانوی حکومت کے اہم ترین وزیر دفاع بین والیس کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھال لیا تو برطانیہ ان کے ساتھ کام کرے گا۔ یہ کتنی متضاد اور مضحکہ خیز بات ہے کہ برطانیہ کو اب طالبان سے کوئی اختلاف نہیں، نیز وہ ان کے ساتھ گھی شکر ہونے کو بالکل تیار کھڑے ہیں مگر شاید یہ بھول گئے ہیں کہ وہ انہی طالبان کی حکومت کو ختم کرکے ساری عالمی طاقتوں کے ہمراہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے علم تلے افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے۔

مزید برآں، پاکستان کی طرف جنوب مغربی سرحدی علاقے چمن میں بڑی تعداد میں افغان شہریوں کا ہجوم پاکستان میں داخل ہونے کو تیار کھڑا ہے۔ علاوہ ازیں، سماجی میڈیا پر نامعلوم عناصر کی باڑ کاٹنے کی تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں جو پاکستانی فورسز نے اپنی جانیں جوکھم میں ڈال کر لگائی تھی۔ لہٰذا ان تمام مذکورہ بالا حقائق، پیشرفتوں اور ان کے نتیجے میں ابھرنے والے نئے منظرنامے میں پاکستان کو افغان مہاجرین اور افغانستان میں نئی ​​حقائق کو تسلیم کرنے کے وقت کے بارے میں فوری فیصلے کرنے کی ضرورت درکار ہے۔ نیز خارجہ پالیسی کے امور کی حساسیت کا احساس کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے جس میں نازک ہینڈلنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے غیر متعلقہ وزرا، خصوصی معاونین اور ترجمانوں کو اس معاملے پر بولنے سے روکنا بھی وقت کی پکار ہے۔ کیونکہ حال ہی میں ایک اہم وفاقی وزیر نے ’’نئے، مہذب افغان طالبان‘‘ کے بارے میں بات کی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ پہلی نسل کے طالبان مہذب نہیں تھے؟

بہرحال، اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان کو ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی افغان پالیسی واضح کرنی چاہیے۔ کیونکہ حکومت کا ابہام اور مزید تاخیر معاشرے میں انتشار کا باعث ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں جتنی دیر حکومت لگائے گی اتنی دیر میں عوام افغان طالبان کے متعلق اپنی رائے تشکیل دے چکے ہوں گے اور اس حوالے سے اپنی ہمدردیوں کا تعین بھی کرچکے ہوں گے۔ اس لیے حکومت یہ جان لے اس کام میں مزید تاخیر زہر قاتل ثابت ہوسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایمان ملک

ایمان ملک

بلاگر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان سے پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز میں ایم فل ڈگری کی حامل اور دفاعی امور سے متعلق ایک تھنک ٹینک میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ آفیسر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یونیٹار، اوسی، یوسپ، یونیورسٹی آف مرڈوک آسٹریلیا جیسے نامور اداروں سے انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی اسٹڈیز میں متعلقہ کورسز کر رکھے ہیں۔ ان کی مہارت کی فیلڈز میں ڈیفنس اینڈ اسٹرٹیجک اسٹڈیز اور پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔