فلسفۂ قربانی اور عصرِ حاضر

پروفیسر دلاور خان رحمانی  بدھ 21 جولائی 2021
 جذبۂ قربانی کو اگر جِلا ملی تو محبوب رب العالمین ﷺ کے ورود مسعود اور امت مسلمہ کے برپا کیے جانے کے بعد ملی۔ فوٹو : فائل

جذبۂ قربانی کو اگر جِلا ملی تو محبوب رب العالمین ﷺ کے ورود مسعود اور امت مسلمہ کے برپا کیے جانے کے بعد ملی۔ فوٹو : فائل

’’ بے شک! ( اے حبیبؐ) ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمایا۔ پس اپنے رب کے لیے نماز ادا کیجیے اور قربانی دیجیے، بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔‘‘

ذی الحج کا مہینہ آنے سے قبل ہی عید قرباں اور قربانی کا غلغلہ مچ جاتا ہے۔ خوش نصیب لوگ بارگاہ ایزدی میں فریضۂ حج کی ادائی کے لیے مکہ مکرمہ کھنچے چلے جاتے ہیں، تاہم کروڑوں مسلمان جو بہ وجوہ وہاں نہیں پہنچ پاتے، وہ اپنی ایمانی و روحانی تسکین کے حصول کے لیے سنّت مصطفوی ﷺ کی پیروی کر تے ہوئے اس عظیم واقعے کی یاد تازہ رکھتے اور انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ ہر سال جانوروں کی قربانی کر تے ہیں، تاکہ سیدنا ابراہیم اور ان کے فرزند ارجمند سیدنا اسمٰعیل علیہم السلام اور آپؑ کے خانوادے کی رضائے الٰہی کے لیے کی گئی عظیم قربانی کی یاد گار ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے۔

امام کائنات ﷺ کی بعثت مبارکہ سے قبل بھی یہ عمل ادا کیا جاتا رہا، بل کہ قرآن مجید کے مطابق ابتدائے انسانیت سے ہی یہ پاکیزہ جذبہ موجود ہے۔ البتہ اس جذبۂ قربانی کو اگر جِلا ملی تو محبوب رب العالمین ﷺ کے ورود مسعود اور امت مسلمہ کے برپا کیے جانے کے بعد ملی اور قیامت تک یہ سنّت ابراہیمی اہل ایمان ادا کر تے رہیں گے۔

ہم اور ہمارے اسلاف صدیوں سے یہ عمل دہراتے آرہے ہیں تاہم آج جب کہ امت مسلمہ بے شمار مسائل کی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، ایسے ماحول میں شدید ضرورت ہے کہ ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں جائزہ لیں کہ آیا اس عظیم عمل کی ادائی محض رسمی عبادت ہے اور اس کا مقصد صرف جانور ذبح کرنا اور گوشت کا حصول ہے یا اس عمل کے پس پردہ کار فرما رب تعالیٰ کو مطلوب مقاصد و حکمتیں ہیں۔

ذرا مشاہدہ کیجیے اور قرآن مجید و احادیث مبارکہ جن پر ہم نے جزدان سجا کر گرد و غبار کی موٹی تہیں جما رکھی ہیں، وہ کیا کہتی ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں ۔۔۔ ؟ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ اور ان کی امت کو جو مقام شرف و عظمت عطا فرما یا ہے اس کے تقاضوں کے تحت شکر ربانی کے طور پر نماز اور قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔

ﷲ تعالیٰ نے امام کائنات ﷺ کو جن بلندیوں و رفعتوں سے سر فراز فرمایا، انہیں امام الانبیاء، شفیع المذنبین اور رحمۃ اللعالمین ﷺ کے مناصب جلیلہ عطا فرمائے بل کہ ’’ وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَکَ‘‘ کہہ کر شان مصطفی ﷺ پر مہر تصدیق ثبت فرما دی کہ جب جب اور جہاں جہاں رب کی کبریائی ہے۔

وہاں وہاں میرے مصطفی ﷺ کی مصطفائی ہے۔ سبحان اﷲ! یہ مقام عظمت و بزرگی کسی پیغمبرؑ کو حاصل نہ ہوسکا جب خالق کائنات نے اپنی نعمتوں کو اپنے محبوبؐ پر اکمال و اتمام فرمایا تو شرط بھی عاید کردی کہ دنیا و آخرت میں ہم نے آپ ﷺ اور آپؐ کی امت کو سب سے بلندی عطا فرمائی تو شکر نعمت کا تقاضا ہے کہ اب آپ ﷺ اور آپؐ کی امت بھی اپنے رب کا حق ادا کریں اور اس کے لیے دو عمل بیان فرما دیے کہ ایک تو نماز قائم کریں اور دوسرے قربانی دیں۔

ہمارے معاشرے میں فریضۂ نماز کی ادائی کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے البتہ قربانی کے فریضے کا جائزہ لیں تو عجیب منظر دکھائی دیتا ہے۔ ہزاروں افراد مرد، خواتین یہاں تک کہ معصوم بچے اور بچیاں تک جانور کی تلاش میں دن دن بھر بل کہ رات رات بھر منڈیوں میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں اور نمازیں ضایع کر تے ہوئے ایک ایسے عمل میں منہمک رہتے ہیں جو یقیناً انتہائی محبوب و مستحسن ہے تاہم ایک ایسے فرض سے بے پرواہی جو کفر اور اسلام کا خط امتیاز ہے واجب یا مسنون عمل کی ادائی ہرگز اس کے مقابل نہیں ہو سکتا۔

قربانی نام ہے اپنی جان و مال سمیت فکر و نظریات، خواہشات، ضروریات، پسند نا پسند، خوشی غمی، حتیٰ کہ اہل و عیال اور عزیز ترین شے کو اپنے رب کی مرضیات کے مطابق ڈھال لینا اور ہر طرح کے ایثار کے لیے ذہنی، فکری، مالی، جسمانی رحجانات و میلانات کو سیرت مصطفی ﷺ کے مطابق ڈھال لینا۔ آئیے! بہ نظر عمیق خود احتسابی کی چھلنی سے اپنے آپ کو گزاریں۔ یقین جانیے صحیح تصویر سامنے آجائے گی کہ آیا ہم زبانی کلامی یا بعض نمائشی اقدامات کے ذریعے بہ زعم خود کسی پندار میں الجھے ہوئے ہیں یا واقعی ہم قربانی کی روح اور فلسفے سے آشنا ہوکر اپنے رب کے محبوب بندوں میں شمار ہو تے ہیں۔ اصولی بات ہے کہ اعمال کا دار و مدار نیّت پر ہے۔

عید الاضحیٰ اور قربانی کا سبق اہل ایمان کے لیے تو یہ ہے کہ ہر طرح کی عبادت و ریاضت کا مقصود و مطلوب خالق کائنات کی خالص بندگی اور رضا مندی حاصل ہوجائے۔ یقیناً قربانی بھی انہی اعمال میں سے ایک ہے، اگر یہ عمل خالصتاً اﷲ کے لیے ہے اور اس میں کسی قسم کی ریا کاری دکھا وا یا آج کل جیسا کہ رجحان بن چکا ہے، خاندان، برادری، محلے یا معاشرے میں مسابقت اور نمود و نمائش ہے تو پھر جان لیجیے کہ رب تعالیٰ کو ایسی قربانیوں کی ضرورت نہیں۔

ارشاد الٰہی کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ہی ان کے خون، بل کہ اسے (اﷲ تعالیٰ کو) تو تمہارے دلوں کی پرہیزگاری (تقویٰ) پہنچتی ہے۔ اسی طرح اﷲ نے ان جانوروں کو تمہارا مطیع کردیا ہے کہ تم اس کو (اﷲ تعالیٰ کی عطا کر دہ) ہدایت کے شکریے میں اس کی کبریائی بیان کر و اور (اے میرے حبیب! ﷺ) نیک لوگوں کو (جنت و رضائے الٰہی ) کی خوش خبری سنا دیجیے۔‘‘ (سورۃ الحج)

اب پتا چلا کہ ہمارا رب ہم سے کیا چاہتا ہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی، بالخصوص ہماری قومی، معاشی، اقتصادی، دفاعی، تعلیمی پس ماندگی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر فرد اپنی صلاحیتوں کے مطابق جذبۂ قربانی کو بیدار کر ے اگر آپ کے مالی وسائل نہیں اور قرض کی ادائی بھی ممکن نہیں تو آپ قربانی کے مکلف نہیں ہیں۔

البتہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دیگر نعمتوں آپ مثلاً علم و ہنر، معاملہ فہمی، شعور و ادراک یا جسمانی، ذہنی اور فکری صلاحیتوں سے سر فراز فرمایا ہے تو اب آپ کی قربانی و ایثار یہ ہے کہ دین متین اور امت مسلمہ کی سربلندی و ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں سے ایثار و قربانی کے جذبے کے تحت جو نمایاں خدمات سر انجام دے سکتے ہوں، تو ضرور دیجیے۔ یہی قربانی کا فلسفہ ہے کہ جہاں ایک طرف اہل اسلام اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے منکرات سے بچ کر معروفات پر کماحقہ عمل پیرا ہوں۔

وہیں سنت ابراہیمی کی روشنی میں نفس امارہ کے منہ زور گھوڑے کو اﷲ و رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی، خود غرضی، بے حسی، کفار کی نقالی، تہذیبی اقدار کی پامالی، معاشرتی بے اعتدالی، ملی و ملکی عزت و حرمت کے منافی امور سے اجتناب، جھوٹ، ملاوٹ ، خیانت، بددیانتی، نسلی، لسانی، علاقائی تفاخر کے بہ جائے اسلام کو وجۂ افتخار بنانے اور ظلم، زیادتی، کرپشن، رشوت لوٹ کھسوٹ اور تمام تر انفرادی و اجتماعی گناہوں سے استغفار و اصلاح نفس کے ساتھ پوری امت کی اصلاح و خیر خواہی کے جذبے کو بیدار کیا جائے اور اس کے عملی اظہار کی خاطر مضبوط جماعتی زندگی کی استواری ہو تو یقیناً ہم قربانی کے فلسفے کو سمجھ پائیں اور دنیا و آخرت کی کام رانیوں سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

آئیے! اس موقع پر ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے کتاب و سنّت سے راہ نمائی حاصل کریں اور قربانی کا درس دیں۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ( اے میرے حبیب! ﷺ) آپ فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز میری قربانی (ساری عبادتیں) اور میرا جینا اور میرا مرنا سب خالصتاً اﷲ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں (نہ ذات میں نہ صفات میں) اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ماننے والوں میں سے ہوں۔ (سورۃ الانعام )

اﷲ تعالیٰ اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کی زبانی فلسفۂ قربانی بل کہ تمام تر عبادات نماز، روزہ، حج، قربانی، زکوٰۃ و صدقات وغیرہ کی غرض و غایت اور روح یہ ہے کہ ہر عمل خالص رضائے الٰہی کے حصول اور تطہیر نفس کے ساتھ اعتقادی، انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا ہو اور مسلم معاشرہ باہمی رواداری، خیر خواہی اور انسانی ہم دردی پر مبنی ہو، جس میں ہر خاص و عام کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں۔ ایسا مثالی معاشرہ ضبط نفس اور ایثار و قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔