- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
آپ کی اعلیٰ تعلیم، آپ کے والدین کی صحت کے لیے بہتر ہوتی ہے
نیویارک: نوعمر بچوں کی اعلیٰ تعلیم نہ صرف ان کا مستقبل سنوارتی ہے بلکہ ان کے والدین کی دماغی، نفسیاتی اور جسمانی صحت کے لیے بھی بہت مفید ہوتی ہے۔
یونیورسٹی آف بفیلو سے وابستہ کرسٹوفر ڈینیسن کہتے ہیں کہ نئے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ جن والدین کے بچے یونیورسٹی اور کالج کی ڈگری مکمل نہیں کرسکتے ان میں خرابی صحت اور ڈپریشن کے آثار دیکھے جاسکتےہیں۔ اسی طرح بچوں کی اعلیٰ تعلیم والدین کے ذہنی اور جسمانی صحت پر مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔
1994 میں شروع کئے گئے ایک سروے کو مزید جاری رکھا گیا اور اس سے حاصل شدہ نئے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں ایک سے زائد نسلوں پر اعلیٰ تعلیمی اثرات کو بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ پروفیسر کرسٹوفر نے بتایا کہ جن والدین کا ایک بیٹا یا بیٹی بھی جامعہ کے درجے تک نہ پہنچ سکا ان کے والدین نے خود ایسی علامات کا اظہار کیا جو ڈپریشن اور صحت کی خرابی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ تحقیق جرنل آف گیرنٹولوجی کے سوشل سائنس جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ گویا اس میں بچوں کی کم تعلیم اور والدین کی ناخوشی کے درمیان گہرا ربط بھی ملا ہے۔
اس مطالعے میں 20 ہزار افراد کے ڈیٹا کو پہلے ہی دیکھا گیا ہے جبکہ 30 سے 60 سال کے والدین کے ساتھ مزید دوہزار ایسے والدین کو شامل کیا گیا جن کی عمریں 50 سے 80 برس کے درمیان تھیں۔ یہ تحقیق 2015 اور 2017 میں کی گئی تھی۔ اگرچہ یہ کھوج امریکی تناظر میں کی گئی ہے جہاں والدین پر معاشرتی دباؤ ہوتا ہے لیکن اس کا کچھ نہ کچھ اطلاق پاکستان پربھی کیا جاسکتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ہماری تعلیم ہماری صحت پر اثرڈالتی ہے جبکہ خود بچوں کی تعلیم بھی ان کے والدین پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ سروے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کم ترین معاشی گنجائش والے والدین پر ان کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانے والے بچوں کے والدین ڈپریشن اور دیگر مسائل میں بھی گرفتار ہوسکتے ہیں۔ والدین کی یہ فکرمندی ان کی صحت کو متاثرکرسکتی ہے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تعلیم یافتہ بچے اچھی ملازمت اور معاشی مواقع حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ان کے والدین سکون اور بے فکری کی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں زور دیا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم پرتوجہ دیں کیونکہ نہ صرف یہ ان کی اولاد بلکہ خود ان کی صحت کے لیے بھی بہترین سرمایہ کاری ہوگی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔