طبی تحقیق کا نیا امید افزا میدان ’آرگنوئڈز‘

ویب ڈیسک  جمعـء 23 جولائی 2021
انسانی اعضا کو مختصر کرکے ان کے آرگنوئڈز بناکر ان پر تحقیق کی جارہی ہے۔ فوٹو: فائل

انسانی اعضا کو مختصر کرکے ان کے آرگنوئڈز بناکر ان پر تحقیق کی جارہی ہے۔ فوٹو: فائل

کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی نے طبی تحقیق میں نئے امکانات پر قابلِ قدر کام کیا ہے جس سے تحقیق کی ایک نئی شاخ کا ظہور ہوا ہے جسے ’آرگنوئڈز‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں انسانی جسم کے بڑے اعضا کے بہت چھوٹے ماڈل لیکن حقیقی ماڈل بنائے جاتے ہیں اور ان پر دوا استعمال کرکے قابلِ قدر تحقیق کی جاتی ہے۔

چند ماہ قبل دال کے دانے جتنا دھڑکتا ہوا انسانی دل تیار کیا گیا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ جگر، گردے، آنتوں اور دماغ جیسے اہم اعضائے انسانی کے چھوٹے ماڈل تشکیل دیئے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم نام پروفیسر ٹیریسا بروینی کا ہے جو ایک طویل عرصے سے اس پر کام کررہی ہیں۔

پروفیسر ٹیریسا کی تجربہ گاہ میں ایک ٹرے میں گول گڑھوں کے اندر مائع بھرا ہے اور ان پر گرد کے ذرات کی مانند کچھ اشیا تیررہی ہیں جو حقیقت میں اعضائے انسانی کے مِنی ایچر ماڈل ہیں۔ ان میں گردوں، جگر، بائل رطوبتوں کی نالیاں، دماغ کے خردبینی گوشے اور دیگر اعضا موجود ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر انہیں آرگنوئڈز کہا جاسکتا ہے جسے اردو میں ہم عضویئے کہہ سکتے ہیں۔

دوماہ قبل آسٹریا کے سائنسدانوں نے نے دال کے دانے جتنا دھڑکتا زندہ دل بنایا تھا جس سے ہمیں خود انسانی قلب کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ پھر خلوی سطح پر بیماری اور علاج کو سمجھنے کے راستے بھی کھلیں گے۔ چند ہفتے قبل بوسٹن کے سائنسدانوں نے آنتوں کا عضویہ بنایا اور یہ دیکھا کہ کووڈ 19 کا وائرس انہیں کسطرح متاثر کرتا ہے۔

اب کیمبرج میں واقع ویلکم ایم آرسی اسٹیم سیل انسٹی ٹیوٹ نے انسانی جگر جیسا پیچیدہ ماڈل بنایا ہے جو ایک چمچے میں ہزاروں کی تعداد میں سماسکتے ہیں۔ یہ اعضا ٹیکے کے ذریعے جسم کے متاثرہ عضو میں بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور شدید بیماری کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آرگنوئڈز کی بدولت انسانی اعضا کی پیوندکاری کو بھی انقلابی جست مل سکتی ہے۔ کئی انسانی اعضا پیوندکاری کے لیے غیرموزوں ہوتے ہیں اور ایک انارسو بیمار کی مصداق عطیہ کردہ اعضا کی تعداد کم ہے اور اس کے امیدوار بہت سے ہوتے ہیں۔

اس مقام پر آرگنوئڈز متاثرہ عضو کو بہتر بناکر انہیں مریض میں منتقل کرنا آسان ہوگا۔ دوسری جانب دنیا بھر میں جانوروں پر دوائیں آزمائی جاتی ہیں اور آرگنوئڈزعام ہونے سے جانوروں کے ماڈل کی ضرورت کم ہوسکتی ہے۔ اس طرح ممالیوں بالخصوص چمپانزی اور بندروں پر انسانی استحصال کم ہوسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔