خلوی تجزیاتی ٹیکنالوجی سے تپ دق کو شکست دینے میں مدد مل سکتی ہے

ویب ڈیسک  اتوار 25 جولائی 2021
سائنسدانوں نے ٹی بی بیکٹیریئم اور اس کے میزبان خلیات کے درمیان تعلقات کو سمجھنے میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ فوٹو: فائل

سائنسدانوں نے ٹی بی بیکٹیریئم اور اس کے میزبان خلیات کے درمیان تعلقات کو سمجھنے میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ فوٹو: فائل

 نیویارک: جدید ترین طریقہ علاج کے باوجود ہم تپِ دق (ٹی بی) سے کئی محاذ پر شکست کھارہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک نئی خلوی تجزیاتی ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جس کی بدولت اس مرض کو قابو کرنے اور معالجے میں مدد مل سکتی ہے۔

کورنیل یونیورسٹی میں خردحیاتیات اور امیونولوجی کے ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ رسل اور ان کے ساتھیوں نے انفرادی امنیاتی خلیات اور ٹی بی بیکٹیریا کے درمیان تعلق کو دریافت کیا ہے ۔ اس تحقیق سے ایک جانب تو ٹی بی کے مؤثر علاج میں مدد ملے گی اور دوم ٹی بی ویکسن کا کام بھی آگے بڑھے گا۔

کئی برس سے ڈاکٹر ڈیوڈ اور ان کے ساتھی جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر ٹی بی کا بیکٹیریا، یعنی مائیکوبیکٹیریئم ٹیوبرکلوسِس (ایم ٹی بی) ایسے خلیات میں کیوں جا بیٹھتا ہے جو عام طور پر امنیاتی خلیات یعنی میکروفیجز ہوتے ہیں؟

اس ضمن میں نئی ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جو بیکٹیریا اور اس کے میزبان (خلئے) کے درمیان تعلق سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ پہلے طریقے میں آر این اے سیکوینسنگ اور سنگل سیل آر این اے سیکوینسنگ سے مدد لی گئی۔ دوسرے طریقے میں ایم ٹی بی بیکٹیریئم کو اس طرح تبدیل کیا گیا کہ وہ مختلف ماحول میں مختلف قسم کی روشنی خارج کرتا ہے اور اس تبدیل شدہ بیکٹیریئم کو رپورٹر بیکٹریئم کا نام دیا گیا ہے۔

پھر رپورٹر بیکٹیریئم سے چوہوں کو ٹی بی کی بیماری دی گئی۔ اس کے بعد چوہے کے پھیپھڑے سے کئی متاثرہ میکروفیجز نکالے گئے۔ پھر ہر خلئے کو دیکھ کر اندازہ لگایا گیا کہ کون ٹی بی کے رپورٹر جراثیم سے زیادہ متاثر ہے اور کون کم متاثر ہورہا ہے۔ اس کا ادراک خارج ہونے والی روشنی کی بنا پر کیا گیا۔

اگلے مرحلے میں ان کا آراین اے تجزیہ کیا گیا تاکہ ہر انفرادی میزبان خلیے کی جینیاتی ترکیب سامنے آسکے۔ معلوم ہوا کہ ایک خلئے کے جین نے بیکٹیریا کو بڑھایا تو دوسرے خلیے کے جین نے بیکٹیریا کی نشوونما روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ بلاشبہ یہ ایک بہت اہم دریافت ہے۔

اس طرح ٹی بی کے پھیلاؤ کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور ان خلیات پر کئی مرکبات آزما کر ہم جلد یا بدیر ٹی بی ویکسین تک پہنچ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔