سلطان، راکھا، شیرو اور جنت

شہباز علی خان  جمعـء 23 جولائی 2021
جنت کے ٹکٹ لے لو۔ اصیل اور سستے بکرے لے لو۔ (فوٹو: فائل)

جنت کے ٹکٹ لے لو۔ اصیل اور سستے بکرے لے لو۔ (فوٹو: فائل)

سلطان، راکھا اور شیرو نسلی اعتبار سے بکرے تھے مگر اقبال عرف بالے قصائی اور ایک نام نہاد وٹنریری ڈاکٹر کی کارگزاریوں نے انہیں مصنوعی طور پر انتہائی بھاری بھرکم اور طویل قامت بنادیا تھا۔ اقبال عرف بالے کے منڈی مویشیاں اسٹال نے انہیں وہ سبق پڑھا دیے تھے کہ انہیں یوں دکھائی دینے لگا تھا جیسے اگر وہ بالے قصائی کی دھوکے بازیوں میں برابر کے شریک کار نہ سہی مگر سہولت کار ضرور ہیں۔

سلطان، راکھا اور شیرو کو منڈی مویشیاں میں آئے آج تیسرا دن تھا۔ ان کے اردگرد طرح طرح کے مویشیوں کی بہار تھی مگر یہ بہار صرف امیر امرا اور اعلیٰ اشرافیہ کےلیے تھی۔ یوں کہہ لیجئے کہ یہ بہار اہل ایمان اور مڈل کلاس (ویسے تو مڈل کلاس کا صفایا کردیا گیا ہے) سے کوسوں دور ہی تیز و گرم اور محرومی کے تھپیڑوں میں بدل جاتی تھی۔

بالے قصائی نے ایک بار پھر آواز لگا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے سلطان، راکھا اور شیرو کے خواص گنوائے۔ لوگ اس کے اسٹال کی طرف آتے مگر جب ان بکروں کی قیمت سنتے تو ان کی بولتی بند ہو جاتی اور نتیجہ یہ کہ وہ اسٹال سے دور جاکر بے بسی سے انہیں دیکھتے۔ بچوں کی آنکھوں میں اداسی دکھائی دیتی تو کئی ایسے بھی تھے جو جاتے جاتے زور سے چٹکی کاٹ کر اپنا غصہ اتارتے۔

ایک خاندان بڑے جوش و ولولے سے آگے آیا اور ان کے بڑے میاں نے شیرو کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے قیمت دریافت کی۔ بالے قصائی نے ان کی چال ڈھال، لباس کے ساتھ ساتھ ان کے مہنگے موبائل فونز سے وڈیو بنانے کے اسٹائل سے جان لیا کہ یہ پوش ایریا کی فیس بکی کلاس سے ہیں۔ بالے نے آگے بڑھ کر سب سے پہلے شیرو کا منہ کھول کر دانت دکھاتے ہوئے کہا کہ دیکھیں جی پورے چار سال کا ہے، اور دانتوں کی صفائی چیک کریں، یہ خوبصورت کان اور چہرہ تو دیکھیں کتنا پر نور ہے، پھر کنوارہ بھی ہے اور کردار کی مضبوطی کی گواہ ساری منڈی ہے، انتہائی پرہیز گار، کھانے کے معاملے میں بھی یوں سمجھو کہ سی این جی گاڑی لے کر جارہے ہو۔ خرچہ ہے ہی نہیں۔ اجی جناب یوں سمجھیے کہ آپ جنت کا ٹوکن لے کر جارہے ہیں۔ ادھر قربانی ہوئی اور اس کا لذیذ گوشت ابھی آپ کے پیٹ میں نہیں اترے گا مگر اس سے پہلے ہی اہل جنت کی فہرست میں یہ آپ کا نام شامل کروا دے گا۔

شیرو حیرت سے کبھی بالے کو اور کبھی ان بڑے میاں کو دیکھے جارہا تھا۔ ایک لاکھ سے جنت کی بولی شروع ہوئی اور نوے ہزار میں ڈیل مکمل ہوئی۔ شیرو نے منمناتے ہوئے بڑے میاں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بہت مہنگا لے جارہے ہیں اور جنت میں مقام ہم جانوروں پر نہیں بلکہ انسانوں کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ یہ حد سے زیادہ پھولا ہوا پیٹ گوشت سے نہیں بلکہ مختلف ادویات اور کیمیکل سے بھرا ہے جس کا اثر دس سے بارہ گھنٹوں تک رہتا ہے اور پھر اس کے بعد سب خارج۔

شیرو جتنا منمناتا بالا قصائی اتنا ہی ذکر خدا کرکے کہتا کہ دیکھ لیں بڑے میاں یہ شیرو گواہی دے رہا ہے آپ کی۔ بڑے میاں نے خوش ہوکر ایک ہزار اضافی بالے کی جیب میں ڈال دیے۔ بڑے میاں کے ساتھ آئے اہل خانہ نے سب سے پہلے تو جلدی جلدی جلدی شیرو کے ساتھ سیلفیاں لیں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا شروع کردیں۔ ڈھیروں مبارک باد تو وہیں منٹ میں ہی وصول کرلیں۔ بڑے میاں کے پوتے نے اسکرین ٹچ پر انگلیاں گھماتے ہوئے کہا کہ بڑے ابا، چھوٹے ابا سب سن لو، میں نے ایک لاکھ دس ہزار کا بکرا بتایا ہے آپ بھی اس پر قائم رہنا۔ اتنے میں کسی خاتون کی آواز آئی اسٹوپڈ میں نے پیج پر ڈیڑھ لاکھ کی پوسٹ لگائی ہے، پہلے پوچھ تو لیتے۔ یہ سن کر شیرو نے پھر منمنانا شروع کردیا جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ اے پاکستانی مسلمانو، ایتھے وی جھوٹ (یہاں بھی جھوٹ) اور یوں یہ قافلہ ہنسی خوشی شیرو کو لیے منڈی سے واپس ہوا۔

بالے قصائی کی کمینگی، حرص و لالچ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھی تھی اور اس میں زیادہ ہاتھ ایسے گاہکوں کا تھا جنہیں قربانی کے حقیقی مقصد کی فکر سے زیادہ فیس بکیوں کے لائکس اور کمنٹس کی فکر کھائے جارہی ہے۔ دوسری طرف بالے کو یہ فکر بھی تھی کہ جیسے ہی اس کے مال مویشی پر ادویہ کا اثر ختم ہوگا اور وہ اپنے اصلی خدوخال میں آنا شروع ہوں گے تو لوگ اسے پھینٹی لگانے اسی اسٹال کا رخ کریں گے۔ اس سے پہلے اسے یہاں سے نکلنا ہوگا۔

بالے نے اپنی چارپائی، ٹینٹ وغیرہ سمیٹا۔ سلطان اور راکھا کو رسی سے گھسیٹتے ہوئے اپنے طبیلے کا رخ کیا تاکہ اگلی صبح وہ کسی دور دراز علاقے جاکر باقی کے جانور بھی فروخت کرسکے۔

رات کا پچھلا پہر تھا۔ سلطان اور راکھے کا برا حال تھا، کیونکہ بالا ہر گھنٹے بعد ایک انجکشن انہیں ٹھوک رہا تھا جس سے انہیں بھوک لگنے لگتی اور وہ پھر سے دابڑے میں مختلف مصنوئی اجزا سے بنی خوراک کھانے لگتے۔ پیٹ تھے کہ پھولتے جارہے تھے مگر بھوک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

صبح سویرے جب بڑے میاں لان میں داخل ہوئے تو جہاں شیرو بندھا تھا ساری جگہ بدبودار اور لیس دار مینگنیوں سے بھری تھی۔ شیرو کا سب کچھ بہہ کر نکل چکا تھا، اب پسلیوں اور کھال کا مجموعہ دکھائی دے رہا تھا۔ شیرو نے منہ کھول کر منمنانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ دوسری طرف ٹھیک اسی وقت بالے قصائی نے شہر کے دوسرے کونے میں اسٹال سجاتے ہی سب سے پہلے اگربتیاں جلائیں اور موبائل فون پر تلاوت پاک سنتے ہوئے خدا سے رزق حلال اور برکت کی دعا کرنے کے بعد آوازیں لگانا شروع کردیں۔

’’رب کو راضی کرنے کا آخری موقع… جنت کے ٹکٹ لے لو۔ اصیل اور سستے بکرے لے لو۔ اے بڑے میاں… اے بھائی صاحب… اے بہن جی۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔