ٹریفک اور ہمارے اخلاقی تقاضے

قمر عباس نقوی  اتوار 25 جولائی 2021

ہارن بجانا پوری مہذب دنیا میں ممنوع فعل ہے جو نہ صرف ٹریفک کے حادثات کا سبب ہے بلکہ فضائی آلودگی میں اضافہ کا سب سے بڑا سبب بھی ہے۔ مہذب معاشروں میں یہ حیوانیت سے ملتا جلتا فعل شمار کیا جاتا ہے۔

عام زندگی میں ہم مجموعی طور پر آرام طلب،کاہل اور سست کسی حیوانی قبیلہ کی رعایا معلوم ہوتے ہیں۔ اس میگا سٹی کراچی میں تقریبا کوئی گھر ایسا نہیں ہوگا جس میں نئی یا سیکنڈ ہینڈ کار موجود نہ ہو۔ ظاہر ہے چار پہیوںکی گاڑی کی موجودگی ہرگھرکی بنیادی ضرورت بن چکی ہے تو طرز زندگی میں نزاکت تو ضرور آئے گی، سادہ طرز زندگی اب کوسوں دور ہے۔ یہ چیزیں ساتھ ساتھ اخلاقی روایات کے دائرہ میں تہذیب یافتہ ہونے کی متقاضی بھی ہیں۔

روپے پیسے کے بل بوتے پر ہمارا معیار زندگی بلند تو ضرور ہو رہا ہے اور نمود ونمائش کی اندھی تقلید ہمارا وطیرہ بن چکی ہے۔ ہم اپنی اخلاقی روایات کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ سڑک پر چلتے ہوئے ہر شخص اپنے آپ کو ہر شے سے بالاتر سمجھ رہا ہے۔ خواہ وہ موٹر سائیکل پر سوار ہو یا دیگر فور وہیکل میں۔ ٹریفک سگنل ہم توڑنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہم میں صبر نام کی کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔

بار بارکہا جا رہا ہے کہ پیدل چلنا صحت کے لیے بہت ضروری ہے خواہ آپ عمرکے کسی بھی حصے میں ہوں۔ ایسی سڑکوں یا مقامات پر جہاں آپ کی گاڑی دوسروں کی آمدورفت میں تکلیف کا باعث ہو وہاں آپ کوکوشش کرنی چاہیے کہ کچھ فاصلہ پر اترکرکچھ پیدل ہی چل لیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی گاڑیوں کو ایمبولینس یا میت گاڑ ی کی شکل نہ دیں۔ یاد رکھیے ! بوڑھے اور لاغر افراد ، زخمی افراد یا میت گاڑیاں ہی گھرکے دروازے پر رکنے کی مجاز ہو اکرتی ہیں۔

ایک زمانہ تھا غیر منقسم ہندوستان کا ، جس میں گاڑی چلانا صرف اچھے خاندانوں تک محدود ہوا کرتا تھا۔ امیر اور غریب کے درمیان بہت فاصلہ ہوا کرتا تھا۔ غریب زیادہ تر پیدل ، سائیکل ، سائیکل رکشہ یا سرکاری سطح پر بسیں چلا کرتی تھی، آٹوکا دور تک نشان نہیں تھا۔ کہیں اکا دکا موٹر سائیکل چلتی ہوئی نظر آتی تھی۔ سڑکوں پر ٹریفک کا یہ حال نہیں تھا جیساکہ آج ہے۔ ظاہر ہے ایسے پرسکون ماحول میں ٹریفک نام کی پولیس تک کا تصور نہ تھا۔ وہاں صرف ایمبولینس حسب ضرورت وہ بھی دھیمی آواز میں ہارن کا استعمال کرتے تھے اور یہا ں کیا عجب دنیا ہے کہ گائے، بھینس، بکرے سڑک کراس کر رہے ہوں گے تو بھائی لوگ ان پر بھی ہارن کی بوچھاڑ کررہے ہو نگے۔

اپنی منزل پر جلدی پہنچنے کی چکر میں اگلے جہان پہنچ جانا اور اپنا حق سمجھتے ہوئے بلاوجہ ہارن بجانا اس قوم کا مزاج بن چکا ہے جو فضائی آلودگی پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ سڑک اور راہداریاں عوام کی آمدورفت کی سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں اور ان سڑکوں پر چلنے کوکچھ ادب وآداب اور اخلاقی ضابطوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، ہر انسان برابر ہے۔کوئی قانون سے برتر نہیں۔ ہمیں سڑک پر چلتے ہوئے اپنا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ دوسروں کو سہولت فراہم کرنی چاہیے۔

حال ہی میں ایس پی سٹی ٹریفک کراچی کی ہدایت پر ڈی ایس پیز ٹریفک سٹی کی نگرانی میں تمام ایس اوز اور چالان افسران نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے چالان کیے۔ ڈبل پارکنگ اور رانگ وے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف 28 رنگین شیشے اور فینسی نمبر پلیٹس والوں کے خلاف 182 جب کہ بغیر ڈرائیونگ لا ئسنس والے افراد کے خلاف 34 اور مجموعی طور پر 696 چالان کیے گئے۔

گاڑی کی ملکیت کے حوالے سے گاڑی کے مستند کاغذات کے نہ ہونے اور سڑکوں پر ہونے والی قانونی بے ضابطگیوں کے خلاف کیے گئے چالان کے تحت نہ صرف چالان کاٹے گئے بلکہ سنگین قانونی خلاف ورزیوں پر گاڑیا ں بھی ضبط کی گئیں اور ان گاڑیوں کے مالکان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مختلف عدالتوں میں مقدمات بھی قائم کیے گئے جو غالبا ایک طویل عرصے سے زیر التوا بھی ہیں۔

اس وقت شہرکا کوئی پولیس اسٹیشن ایسا نہیں ملے گا جہاں ہزاروں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں کھڑی ہیں اور ان کے ورثا کا شاید اس لیے نہیں پتا ہوگا کہ وہ چوروں کی گرفتاری کے موقع پر ان سے برآمد کی گئی ہوں یا حادثات کی صورت میں زیر حراست کی گئی ہوں۔ ان ضبط شدہ گاڑیوں کے مالکان کی نشاندہی نہ ہوسکی یا وہ فرار ہیں۔ شہر میں آسان قسطوں پر موٹر سائیکلوں کی فروخت کا سلسلہ عروج پر ہے۔ بسا اوقات اقساط کی طے شدہ شرائط وضوابط کی خلاف ورزی یا ادائیگی میں تاخیرکی صورت میں بات فریقین کے درمیان تھانہ کچہر ی تک نوبت آجاتی ہے۔

شہر کے مختلف علاقوں میں علاقہ پولیس کی طرف سے گاڑیوں کی پارکنگ کی وقفہ وقفہ سے چیکنگ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ شہرکے اکثر رہائشی علاقوں میں آ پ کو ایسی تباہ شدہ گاڑیاں کچرے کے ڈھیرکی طرح کھڑی نظر آئیں گی جو ایک عرصے سے وہیں کھڑے کھڑے زمیں بوس ہوگئیں۔ شنید ہے کہ یا تو یہ گاڑیاں چوری شدہ ہیں یا لا وارث ہیں جو نہ صرف علاقے کے حسن میں بگاڑ پیدا کر رہی ہیں بلکہ ٹریفک کی روانی کے تسلسل میں بھی تعطل پیدا کر رہی ہیں۔

عین ممکن ہے کہ یہ گاڑیاں امن و امان کی صورت حال پیدا کرنے میں بھی معاون ثابت ہو سکیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے یہ امرکہ ان علاقوں کی ضلعی انتظامیہ بشمول علاقہ یونین کونسلیں اور علاقہ پولیس کہا ں غائب ہیں۔ ایسی خستہ اور مشکوک گاڑیوں کی بیخ کنی کی اشد ضرورت ہے۔

ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے سب سے پہلے لوگوں میں سوک سینس پیدا کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ سڑکوں کے دونوں اطراف گاڑیوں کی پارکنگ کو ممنوع قرار دیا جائے۔ ٹریفک جام بالخصوص پیک آورز میں طویل فاصلوں پر محیط یوٹرن کا ہونا بھی ٹریفک جام کی بنیادی وجہ ہے۔ اکثر و بیشتر ان ہی مقامات پرگھنٹوں گھنٹوں لوگو ں کو سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال میں بہت زیادہ فیول خرچ ہوجاتا ہے، جو بلا ضرورت جیب پر اضافی مالی بوجھ پڑنے کے سواکچھ نہیں۔

دیکھا گیا ہے شہرکی سڑکوں پر بے شمارکالے شیشے اور جعلی گورنمنٹ آف سندھ کی نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں دندناتی پھر رہی ہیں۔ گنجان آبادیوں میں موجود کمرشل مارکیٹس میں ٹریفک پولیس کی کرینیں غلط پارکنگ سے گاڑیاں اٹھاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ شہرکی سڑکوں کو سگنل فری بنانے کے لیے گزشتہ حکومت نے شہرکی مین شاہراہوں اور مصروف سڑکوں پر بالائی گزرگاہیں تعمیر کروا دی تھیں، اس کے باوجود سڑکوں پر ٹریفک کا ایک اژدہام دکھائی دیتا ہے۔

جا بجا ٹریفک جام کی اذیت اپنی جگہ جوں کی توں ہے۔کچھ مقامات پر ان فلائی اوورز کے نیچے کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جو شہرکی بد نمائی کا سبب بنتے ہیں۔ ان فلائی اوورز کے نیچے اگر پارکنگ کا انتظام کردیا جائے یا انڈور پودوں کی نرسری بنا دی جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ کسی حد تک سڑکوں پر ٹریفک کے اژدہام میں کمی ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔