کابل (حصہ دوم)

جاوید قاضی  اتوار 25 جولائی 2021
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کابل کی جغرافیائی حقیقتیں ہیں جس نے پورے برصغیر کو تبدیل کیا، سمندری جزیروں میں گھرے ہوئے انڈونیشیا، ملائیشیا کا یہ ماجرا نہ تھا۔ بنگال میں بھی اسلام اور طرح سے پھیلا مگر یہاں جو بھی تبدیلیاں آئیں وہ درۂ خیبر کے راستے سے آئیں۔ ہمیں تاریخ بھی رقم کرنا نہیں آئی۔

ہم غاصبوں اور ہیروز میں تفریق کرنا بھول گئے۔ ان صوفی منش لوگوں اور ان غاصبوں میں کون غدار ہے ؟ کون محب وطن ہے ؟ ہم یہ بھول گئے۔ برصغیر کی جن ریاستوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہ  وسط ایشیاء اور ایران کے قریب تھے اور جن میں اکثریت نہ بنی وہ وسط ایشیاء اور ایران سے دور تھے۔ جہاں اکثریت ہے وہاں پاکستان بنا اور جہاں اقلیت ہے وہاں ہندوستان۔ جب یہ بٹوارہ ہوا تو دنیا کی تاریخ کی بہت بڑی ہجرت ہوئی۔

جو برطانوی ہند کی فوج کا ہیڈ کوارٹر تھا، وہ ہمارا جی ایچ کیو بنا۔ یوں کہیے کہ ہم گیریژن علاقے تھے، بٹوارے سے پہلے۔ بٹوارے کے بعد سرد جنگ کے زمانوں میں ہماری ان سرحدوں کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی۔ ہندوستان سوویت یونین نواز اور ہم ٹھہرے امریکا نواز۔ ایسا جناح ہونے نہ دیتے اگر کلدیپ نیئر کی پیش کردہ حقائق درست ہیں تو… (اس پر جدا بحث ہوسکتی ہے)۔

جب جنرل ایوب نے پشاور کے اڈے سوویت یونین کی جاسوسی کرنے کے لیے امریکا کو دیے تو خروشیف نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان کو دھمکی دی۔ گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی سے تعلقات بھٹو کے زمانے میں استوار ہوئے نہ کہ ضیاء الحق کے زمانے میں۔ خارجہ پالیسی کے مقاصد میں سب ساتھ ہوتے ہیں۔

اسامہ بن لادن خود یہاں نہیں آئے بلکہ ان موصوف کو سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد خود میاں نواز شریف یہاں لائے، وہ نواز شریف جس کے خدو خال آج کے عمران خان سے ملتے جلتے تھے۔ کابل نے کیا کرنا تھا؟ اس نے یہاں پر پختونوں و بلوچ قوم پرستوں سے تعلقات استوار  کیے۔ دنیا بھر میں اس وقت کا بائیں بازو سوویت نواز تھی۔اس طرح افغانستان سوویت نواز تھا اور ہم امریکا نواز۔ یہ سرد تھی جنگ اور اس کی تقسیم بھی نظریاتی تھی۔

َََ میرے والد بھی کابل پہنچے سردار داؤد نے یہ کہہ کر ان کو جگہ نہ دی کہ افغانوں کے پختونوں اور بلوچوں کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں جب کہ سندھیوں کے ساتھ نہیں۔ خیر بخش مری اور اجمل خٹک کو تو جلا وطنی افغانستان میں نصیب ہوئی مگر میرے والد نے اپنی جلا وطنی کے دن لندن میں گزارے۔ میرے والد کو اس بات کا شدید احساس ہوا کہ یہ ہمارے قومی مسائل سرد جنگ کا ایندھن بن جائیں گے اور یہ مظلوم قوموں کی تحریک دو بڑی طاقتوں کے درمیان پراکسی جنگ کا ایک چھوٹا سا مہرہ ہے۔ وہ اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ سندھ کے قومی مسائل کا حل پاکستان کی وحدت کے اندر ہے۔

اپنی جلا وطنی کے بعد، بھٹو کے دور میں میرے والد اپنی باقی زندگی کے دن اسیری میں گزارے۔ یہ قصہ تمام ہوا یا نہ ہوا مگر آج بھی براہمداغ بگٹی اور خیر بخش مری کے  فرزند دلی میں جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ پورا ہندوستان افغانستان پہنچا ہوا ہے اور وہاں پر پاکستان کے خلاف سازشیں رچائی جاتی ہیں، ہر بڑے شہر میں ان کے دفاتر ہیں۔ طالبان سے بھی انھوں نے رابطے رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی ریاست بھی کوئی اہنساء کی ریاست نہیں۔ انھوں نے بھی تو اپنے دفاع میں یا دفاع کے لیے بڑھ کر کام کرنا تھا۔ مشکل مگر یہ ہے کہ کل تک کابل کو فتح کرنے میں اور سوویت یونین کو شکست دینے میں امریکا پاکستان کے ساتھ تھا مگر پھر امریکا نے بدترین آمر کی حمایت جاری رکھی اور اس کے بعد جمہوری قوتیں پاکستان میں پھر نہ سنبھل سکیں۔ بھٹو کا 1971 میں شیخ مجیب کے ساتھ نہ کھڑا ہونا، جنرل یحییٰ کی سازش میں شامل ہونا، جنرل ضیاء الحق کو لانا، پھر بھٹو کو مروانا یہ سب سرد جنگ میں امریکا کی بین الاقوامی پالیسی کا حصہ تھا۔

ایسے حقائق و روش نے یہاں جمہوری قوتوں کو کمزور کیا۔ پھر بھٹو کے اپنے مخالفین کے خلاف اقدام کیونکہ بھٹو مرکزیت پسند تھے۔ سوویت یونین کو شکست دینے والی قوت امریکا نے سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد بڑی تیزی سے اپنے اخراج کو تیز کیا۔ امریکا کے اس اقدام کی وجہ سے یہاں ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوا۔ پھر مجاہدین نے افغانستان میں اپنے پیر جمائے۔ اس وقت ہم  (expansionist) توسیع پسندی کی سوچ رکھتے تھے،ہماری  strategic depth پالیسی اسی سوچ کی عکاسی تھی۔

گلبدین اور برہان الدین نے افغانستان میں حکومت بنائی۔ان کے دورِ حکومت میں اقربا پروری کو بہت پروان چڑھایا گیا، جس نے طالبان کی تحریک کو جنم دیا۔ رنجیت سنگھ نے افغانوں کے ساتھ جنگ کی اور پنجاب کا حصہ بنایا، جو آگے جا کر انگریز نے صوبہ سرحد بنایا۔ وہ ثقافتی اعتبار سے اسی طرح کے قبائلی تھے اور پھر یہاں پوست بھی کاشت ہوتی تھی۔ افغانستان کا اپنا کوئی سی پورٹ نہیں چاروں طرف سے زمینی سرحدی ہے۔ ان کا دوسرا بڑا کاروبار افغان ٹرانزٹ کے ذریعے ہوتا تھا جو پاکستان میں اسمگلنگ کے سامان کا بہت بڑا ذریعہ رہا۔ مجاہدین کی جنگ میں امریکا نے ڈھیر سارا ڈالر پھینکا۔

سعودی عرب اور بہت سی مسلمان ریاستیں اس جنگ میں فنڈز دیتی رہیں۔ یوں کہیے کہ یہ جنگ ایک کاروبار تھا اور جنرل ضیاء الحق پاکستان میں جمہوریت پر تالا لگانے کا ذریعہ۔ اس کھیل میں ہمارے مذہب کا خوب استعمال ہوا۔ یہ جو اسلامو فوبیا کی شکل دنیا کو دکھا ئی گئی اس کا ایک رخ وہ اس طرح بھی دکھاتے رہے کہ جو طالبان کی حکومت میں ہوا۔ جنگ کاروبار بن گئی جو کل تک سائیکلوں پر تبلیغ کرتے تھے، اب ان کے پاس ’’پراڈو ‘‘آ گئیں۔ مذہب کے نام پر نفرتیں پھیلائی گئیں۔ مدرسوں کو خلیجی ریاستوں سے فنڈز ملنے لگے ، ہماری حکومتوں کا تعاون الگ تھا تو کیا ایسی صورتحال میں پھر ایران پیچھے رہ سکتا تھا؟

کچھ لوگ کہتے ہیں طالبان پشتون ایک قوم پرست نظریہ ہے اور کچھ لوگ اسے انٹرنیشنل نظریہ لکھتے ہیں جو عربوں کو بہت راس آیا۔ مصر، چیچنیا، سعودی عرب اور مسلم دنیا کے تمام ممالک سے انتہا پرست یہاں آپہنچے۔ایک دن نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ ٹاورز تباہ ہوئے۔  یہاں کیا مشرف خود بہ خود آگئے؟ جنرل ضیاء الحق کی طرح یہ امریکا کے ایجنڈے پر تو نہ تھے مگر9/11 کا واقعہ ان کے لیے آکسیجن بنا۔ ہم نے پہلے طالبان کی مدد کی اور پھر طالبان کے خاتمے کا پروجیکٹ ملا تو  پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں نے اسے قبول کرلیا۔

طالبان ایک نظریہ ہیں،ان کے آنے سے چین کے صوبے سنکیانگ میں بھی حالات پر اثر پڑ سکتا ہے۔چین ،کابل میں آئے اس بحران کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔ سینٹرل ایشیا کی ریاستیں اور روس بھی بحران پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ انتہا پرست، یورپی یونین سے لے کر تمام دنیا طالبان کے آنے سے نا خوش ہے، ان کے آنے سے پاکستان کے اندر بھی انتہا پرستی کو شہہ ملے گی۔

اگر کابل پر طالبان قابض ہو جاتے ہیں تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کے افغانستان کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے، شمالی افغانستان پشتون نہیں ہیں۔ پچھلی بار بھی طالبان کا اس پر زور نہ تھا بظاہران کی حکومت کابل میں تھی لیکن طالبان حکومت کا دارالحکومت قندھار تھا۔ افغانستان ہمارے سامنے ایک باریک پردہ ہے۔

امریکا کے جانے سے اب وہاں سے نقل مکانی ناگزیر ہو چکی ہے۔ پراکسی جنگوں کا آماجگاہ بن گیا ہے  افغانستان۔ ہندوستان ، پاکستان کے خلاف اس سرزمین سے جنگ لڑتا ہے،وہ اب نہیں لڑے گا اس بات کی گارنٹی کون دے گا؟ اور پھر ہمارا بیانیہ جو جنرل ضیاء الحق نے بنایا ہے وہ ہمیں دنیا میں تنہا کرنے کے لیے ویسے ہی کافی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔