آبادی پر قابو پانے کیلئے کورونا کی طرز پر ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 26 جولائی 2021
حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’آبادی کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’آبادی کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

آبادی میں اضافہ پاکستان سمیت دنیا کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کیلئے دنیا بھر میں اقدامات کیے جا رہے ہیں اس حوالے سے 11 جولائی کو آبادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس اہم مسئلے پر بات کرنا ، اقدامات کا جائزہ لینا اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوتا ہے۔

اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہیں۔

کرنل (ر) ہاشم ڈوگر (صوبائی وزیر بہبود آبادی پنجاب )

آبادی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے منفی اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں مگر افسوس ہے کہ ہمارے ہاں دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے پر بھی توجہ نہیں دی گئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہمارے لیے درد سر بن گیا ہے۔ دنیا کی بات کریں تو 1820ء میں دنیا کی آبادی 1 ارب تھی جو بڑھ کر ساڑھے 7 ارب تک پہنچ چکی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ہزاروں برسوں میں اتنی آبادی نہیں بڑھی جتنا اضافہ گزشتہ چند صدیوں میں ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق زمین تقریباََ 10 ارب لوگوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے لہٰذا آبادی کے بڑھنے کی رفتار دنیا کے لیے الارمنگ ہے۔ آبادی سمیت لوگوں کے تمام مسائل کا حل موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر صدر پاکستان کی زیر صدارت خصوصی ٹاسک فورس بنائی گئی ہے جو آبادی پر قابو پانے کیلئے کام کر رہی ہے، صدر پاکستان اس کی میٹنگ چیئر کرتے اور رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں۔ پنجاب میں آبادی پر قابو پانے کیلئے تیزی سے کام ہو رہا ہے، اس حوالے سے مجھے تعریفی لیٹر بھی دیا گیا ۔ ہم نے آبادی کے حوالے سے مختلف منصوبوں کیلئے اپنے بجٹ میں 3 گنا اضافہ کیا ہے جبکہ وفاق بھی ہمیں 5 ارب روپے سالانہ دے گا۔ آبادی پر قابو پانے کیلئے ہم نے تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا ، علماء بھی اس میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔

آبادی کنٹرول کرنے میں ہماری مدد کرنے والوں کیلئے ہم نے پنجاب کے 10 اضلاع میں مالی مراعات کا سلسلہ شروع کیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے، اب اس کا دائرہ کار مزید 10 اضلاع میں بڑھایاجا رہا ہے ۔ آبادی کے حوالے سے لائحہ عمل بنانے کیلئے سپیکر پنجاب اسمبلی کی زیر صدرات اعلیٰ سطحی اجلاس بھی بلایا گیا جو پہلی مرتبہ ہوا جبکہ اسمبلی میں بھی اس معاملے کو زیر بحث لایا گیا۔ ہم اس معاملے میں سنجیدہ ہیںا ور ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی بنا دی گئی ہے تاکہ ایک موثر اور پائیدار پالیسی بنائی جائے جو اگلی حکومتوں میں بھی جاری رہے۔ اس وقت لاہور کی آبادی سوا کروڑ ہوچکی ہے جو بہت بڑی تعداد ہے ۔ ملک کی آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اگر یہی صورتحال رہی تو 2047 ء میں ہماری آبادی 50 کروڑ ہوجائے گی جو سنگین مسائل کا پیش خیمہ ہے۔ ہم نے 44 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دوبارہ ان کے بنیادی کام ’فیملی پلاننگ کی آگاہی‘پر لگا دیا ہے، اس سے بہتری آئے گی۔ ہمارے ہاں آبادی میں اضافے کی وجہ غربت اور رویے ہیں۔

بچے والدین کی کمائی کا ذریعہ ہیں، وہ اس لیے زیادہ بچوں کی طرف جاتے ہیں کیونکہ جتنے زیادہ بچے اتنی زیادہ کمائی ہے، والدین اپنے بچوں کو 10 سے 15 ہزار روپے معاوضہ پر گھروں میں ملازم رکھو ا دیتے ہیں، اس بچے کا سارا خرچ بھی مالک اٹھاتا ہے، والدین کو پیسے ملتے ہیں اور ان پر کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔ہمیں ایسے رویے کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔

ایک اور بڑا مسئلہ ناخواندگی ہے۔ تعلیم سے شعور ملتا ہے اور بے شمار مسائل خودبخود ہی حل ہوجاتے ہیں لہٰذا ہماری حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر ضلع میں کم از کم ایک یونیورسٹی لازمی قائم کی جائے گی۔ میرے نزدیک اس سے یقینا آبادی سمیت مختلف مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

ڈاکٹر روبینہ ذاکر (ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز جامعہ پنجاب)

آبادی کے حوالے سے اقدامات میں اگرچہ پہلے کی نسبت بہتری آئی ہے تاہم ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے۔ دوران زچگی خواتین کی اموات کی شرح تشویشناک حد تک زیادہ ہے جبکہ خواتین کی صحت، تعلیم، سوشل پروٹیکشن و دیگر حوالے سے بھی مسائل درپیش ہیں جو آبادی کے ساتھ براہ راست منسلک ہیں۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے ماضی میں فیملی پلاننگ پروگرام کا آغاز کیا گیا، اس میں بہت زیادہ فنڈنگ کی گئی مگر آبادی کم ہونے کے بجائے تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔

لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے اس پروگرام کے صحیح اثرات سامنے نہیں آئے اور اس سے خاطر خواہ فائدہ کیوں نہیں ہورہا۔ تعلیم کی بات کریں تو اس حوالے سے بھی ہم بہت پیچھے ہیں، خواتین کے سٹیٹس اور ایمپاومنٹ کے حوالے سے بھی اعداد و شمار حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔

آبادی کے مسئلے سے خواتین کی صحت جڑی ہے، دوران زچگی خواتین کی اموات سمیت بے شمار بیماریاں ان کی زندگی متاثر کر رہی ہیں، انہیں صنفی امتیاز کا بھی سامنا ہے کیونکہ گھر میں فیصلہ سازی مرد کے پاس ہے اور یا پھر سسرال کے پاس، خود اس خاتون کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، صنفی برابری کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو 154 ممالک میں سے پاکستان 151 ویں نمبر پر ہے جو الارمنگ ہے، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خواتین کو بااختیار بنائے بغیر آبادی سمیت دیگر مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔

میرے نزدیک جس حد تک معاشرے میں خواتین کے سٹیٹس میں اضافہ ہوگا اسی حد تک فیملی پلاننگ کے اثرات بھی سامنے آئیں گے۔ آبادی پر قابو پانے کے حوالے سے شہروں میں کام ہورہا ہے مگر اس کے اثرات نچلی سطح اور دیہات تک نہیں جاسکے، اب ہر ضلع میں یونیورسٹی بھی قائم کی جارہی ہے لہٰذا امید ہے کہ معاملات میں بہتری آئے گی۔

میلینیم ڈویلپمنٹ گولز میں بھی ہم آبادی اور خواتین کے حقوق و تحفظ کے اہداف حاصل نہیں کرسکے تھے، اب پائیدار ترقی کے اہداف میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آرہی ہے لہٰذا اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کیے تو ہم یہ اہداف حاصل کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے مسائل پر قابو پاسکیں گے۔

ہمیں خواتین کے حوالے سے پروگراموں میں مردوں کو بھی شامل کرنا ہوگا، ہمیں خواتین کی صحت اور پیچیدہ مسائل پر بات کرنا ہوگی، ہمیں میاں بیوی میں آپس کی کمیونیکیشن کو مضبوط بنانے پر کام کرنا ہوگا، خواتین کو کمیونیکیشن سکلز سکھانا ہونگی تاکہ وہ اپنے خاوند سے درست انداز اور پراعتماد لہجے میں اپنے مسائل پر بات کرسکیں۔

فیملی پلاننگ کے حوالے سے آگاہی دینے کیلئے لیڈی ہیلتھ ورکرز بھرتی کی گئی مگر بعدازاں انہیں اصل کام سے ہٹا کر پولیو، ڈینگی و دیگر کاموں پر لگا دیا جس سے آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا لہٰذا انہیں ریفریشر کورسز کرواکر فوری طور پر واپس فیملی پلاننگ کی ذمہ داریاں دی جائیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ ساتھ کالج، سکول و نچلی سطح تک آگاہی دینے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے لائحہ عمل بنایا جائے اور آبادی کنٹرول کرنے پر کام کیا جائے۔

آئمہ محمود (نمائندہ سول سوسائٹی )

آبادی کے لحاظ سے پاکستان اس وقت دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے ۔ ہیومن ریسورس کی بات کریں تو ہمارے ہاں اس حوالے بہت زیادہ بوجھ ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان 189 ممالک میں سے 154ویں نمبر پر ہے جو تشویشناک ہے۔ آبادی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جسے اکیلے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ تعلیم، صحت، روزگار، صنفی برابری، چائلڈ لیبر، سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی سمیت تمام مسائل کا تعلق اس سے ہے لہٰذا جب تک سنجیدگی سے آبادی پر قابو کے لیے اقدامات نہیں کیے جائیں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔

بدقسمتی سے گزشتہ 70 برسوں میں آبادی کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا، حکومتوں نے وہ اقدامات ہی نہیں اٹھائے جس سے آبادی کو کنٹرول کیا جاتا بلکہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی وجہ سے آج آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے ، اس میں مذہبی اور روایتی حوالے سے بھی مختلف عوامل درپیش رہے اور ہماری کمزور و خوفزدہ حکومتیں ان مسائل کو حل نہیں کرسکیں۔ ہمارے ہاں غربت بھی آبادی کے بڑھنے کے عوامل میں شامل ہے۔ کمزور سوشل سیکٹر میں’ زیادہ ہاتھ، زیادہ کمائی‘ کی سوچ پیدا ہوئی اور 2 بچے خوشحال گھرانے کا نعرہ دم توڑ گیا۔

یہ بچے مسائل بھی ہیں اور وسائل بھی لہٰذا لوگوں نے اپنے خاندان کو وسیع کیا، چھوٹے چھوٹے بچوں کو ملازم رکھوایا اور اپنی آمدن میں اضافہ کیا، یہ بچے ان کی آمدن کا ذریعہ ہیں لہٰذا کیسے انہیں 2 بچوں پر راضی کیا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک 2 بچے خوشحال گھرانہ کے نعرے کے ساتھ جب تک عملی طور پر اقدامات نہیں کیے جائیں گے تب تک فائدہ نہیں ہوگا۔اس کیلئے ایک مضبوط سوشل سٹرکچر کی ضرورت ہے، ایسا معاشرہ ہو جو لوگوں کی فلاح کا خیال رکھے۔ اس کیلئے حکومت کو ایک جامع سوشل پالیسی لانا ہوگی جس کے تحت بروقت اور دیرپا اقدامات کیے جائیں اور آبادی پر قابو پایا جائے۔

میری تجویز ہے کہ آبادی کنٹرول کرنے کیلئے 3 بچوں سے کم والے گھرانے کو مراعات دی جائیں جن میں مفت معیاری تعلیم، دودھ، روزگار کی ضمانت و دیگر شامل ہوں، اس سے فائدہ ہوگا اور لوگ اس طرف راغب ہوں گے۔ وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں بچوں کی سٹنٹڈ گروتھ اور غذائیت کی کمی کی بات کی لہٰذا اگر والدین مناسب وقفہ رکھیں تو اس مسئلے سے بچا جاسکتا ہے، حکومت کو اس حوالے سے کام کو تیز کرنا ہوگا۔

وزیراعظم کہتے ہیں کہ وہ چین کے سسٹم سے سیکھ رہے ہیں، آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے وہاں ایک بچے کی پالیسی تھی، ہم شاید یہاں یہ لاگو نہ کر پائیں لہٰذا ہمیں عوام کو صرف نعروں اور دعووں تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں۔ آبادی میں اضافہ خواتین کی صحت کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔ ان کی صحت کے حوالے سے بھی کوئی بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔

دوران زچگی 30 ہزار خواتین کی اموات ہوتی ہیں لہٰذا ان کی صحت اور زندگی کو محفوظ بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ جتنی تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اتنی تیزی سے ترقی نہیں ہورہی لہٰذا آبادی میں تیزی سے اضافہ بڑے مسائل کا پیش خیمہ ہے جس میں قدرتی و مالی وسائل کی کمی، بے روزگاری، ترقی کا نہ ہونا سر فہرست ہیں لہٰذا کورونا کی طرح آبادی کے مسئلے پر بھی ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے 1 کروڑ نوکریوں کی بات کی، سوال یہ ہے کہ کیسے ممکن ہوگا؟ لیبر فورس میں پاکستان کا 9 واں نمبر ہے ، ہماری اَن سکلڈ لیبر بوجھ بنتی جارہی ہے۔

لہٰذا ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانا ہوگی اور سکلڈ لیبر پیدا کرنا ہوگی۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہنر کی تعلیم دیکر ہنرمند بنانا ہوگا تاکہ وہ اپنا روزگار کماسکیں۔ ہیومین ڈویلپمنٹ میں ہم جنوبی ایشیاء میں سب سے پیچھے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے لوگوں پر خرچ کرنا ہوگا، ہمیں لوگوں کو تعلیم، صحت، سوشل سکیورٹی و دیگر سہولیات دینا ہونگی۔ ہمیں ان کی معاشی حالت بہتر کرکے اور مراعات دیکر آبادی کنٹرول کرنے کی جانب راغب کرنا ہوگا۔ آباد ی میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔

لہٰذا ہمیں کورونا کی طرح اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہونگے۔کورونا پر قابو پانے کیلئے جس طرح گاؤں، دیہات، شہر، گلی گلی، ہر سطح پر فوکس کیا گیا اسی طرح آبادی پر قابو پانے کیلئے بھی سٹرٹیجی بنانا ہوگی۔ موجودہ حکومت سے توقعات زیادہ ہیں لہٰذا حکومت کو تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آگے بڑھنا ہوگا اور ایک سنجیدہ اور ہنگامی ایکشن پلان بنانا ہوگا، اگر اب بھی اس پر کام نہ کیا گیاتو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔