لیاری کا فنکار 35 سال سے سندھ کی ثقافت کی ترویج میں مصروف

کاشف حسین  پير 26 جولائی 2021
عبدالکریم نے لیاری کی چھوٹی سی دکان میں ملک کا منفرد ثقافتی عجائب گھر قائم کررکھا ہے جس میں 20 فن پارے موجود ہیں۔  فوٹو : ایکسپریس

عبدالکریم نے لیاری کی چھوٹی سی دکان میں ملک کا منفرد ثقافتی عجائب گھر قائم کررکھا ہے جس میں 20 فن پارے موجود ہیں۔ فوٹو : ایکسپریس

 کراچی: لیاری کے ایک فنکار اپنے فن کے بل بوتے پر 35 سال سے سندھ کی ثقافت کی ترویج کررہے ہیں۔

سندھ کی قدیم اور دنیا میں منفرد ثقافت کو محفوظ رکھنے اور اس کے فروغ کے لیے سندھ حکومت کے تحت محکمہ ثقافت قائم ہے جس میں درجنوں اسامیاں ہیں اور کروڑوں روپے کا فنڈ سالانہ خرچ کیا جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں سندھ کی ثقافت کے ساتھ محبت کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے لیاری کے ایک فنکار اپنے فن کے بل بوتے پر 35 سال سے سندھ کی ثقافت کی ترویج کررہے ہیں، اس فنکار کا نام عبدالکریم سولنگی ہے جن کے بنائے فن پارے جیتے جاگتے حرکت کرتے معلوم ہوتے ہیں۔

عبدالکریم سولنگی کراچی کے علاقے لیاری میں بسنے والے قدیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کی عمر 78سال ہوچکی ہے سرکاری شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے، سندھ کی ثقافت کو  اپنے فن پاروں سے دنیا بھر میں اجاگر کرنے کا ذریعہ بننے والے عبدالکریم  متحرک مجمسہ بنانے کے ماہر ہیں آرٹ کے اس شعبہ کوkinetic sculptures کہا جاتا ہے اس حوالے سے اگر انھیں پاکستان کا واحد اور اس خطے کا ممتاز فنکار کہنا غلط نہ ہوگا۔

عبدالکریم سولنگی لیاری کے علاقے موسیٰ لین کے رہائشی ہیں اسی علاقے میں شاہ عبداللطیف بھٹائی شادی ہال کے عقب میں ایک چھوٹی سی دکان میں پاکستان کا واحد اور منفرد ثقافتی عجائب گھر (کلچرل میوزیم) قائم کررکھا ہے جسے انھوں نے سٹی میوزیم کا نام دیا ہے، تنگ گلی میں واقع چھوٹی سی دکان میں قائم میوزیم میں 20 کے لگ بھگ فن پارے موجود ہیں۔

عبدالکریم سولنگی کا خاندان آرٹ کی مختلف شاخوں سے وابستہ ہے ان کے بچے بحری جہازں اور بوٹس کے ماڈلز بناتے ہیں جو مڈل ایسٹ، یورپ تک جاتے ہیں اور ان ماڈلز کو نئے جہازوں اور بوٹس ڈیولپ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

میں نے اس فن کو زندہ رکھا جو اب معدوم ہو چکا ہے

عبدالکریم سولنگی کہتے ہیں کہ انہوں نے اس فن کو زندہ رکھا ہے جو اب معدوم ہوچکا ہے۔ نئی نسل او نوجوان یہ فن سیکھنا چاہتے ہیں لیکن میرے پاس سکھانے کے لیے جگہ نہیں ہے۔

عبدالکریم سولنگی کی عمر تیزی سے ڈھل رہی ہے حال ہی میں انھیں صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ایک بڑی سرجری سے بھی گزرنا پڑا جس کے بعد وہ میوزیم کو باقاعدہ وقت نہیں دے پاتے، عبدالکریم سولنگی اپنے فن او سندھ کی ثقافت کے اس پیغام کو آگے جاری رکھنے کے لیے فکر مند ہیں۔

عبدالکریم سولنگی کہتے ہیں کہ سندھ کے محکمہ ثقافت نے اس حد تک سپورٹ نہیں کی جتنی کرنی چاہیے تھی، عبدالکریم سولنگی کی خواہش ہے کہ سندھ حکومت اس فن کو زندہ رکھنے اور نئی نسل کو یہ ہنر منتقل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے، حکومتی سطح پر میوزیم کے لیے کوئی مناسب جگہ فراہم کی جائے تو اس فن کو آنے والی کئی نسلوں کے لیے محفوظ کیا جاسکتا ہے اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں سندھ کی ثقافت کی ترویج کا ذریعہ بنایا جاسکتاہے۔

سندھ کی ثقافت سے محبت ورثے میں ملی، کریم سولنگی

عبدالکریم سولنگی کہتے ہیں کہ انھیں سندھ کی ثقافت سے محبت ورثہ میں ملی بچپن سے انھیں ہینڈی کرافٹس اور آرٹ کا شوق تھا ان کا مشاہدہ بچپن سے گہرا تھا، شعبہ تعلیم سے وابستگی کے زمانے میں انھوں نے کافی وقت سندھ کے مختلف علاقوں میں گزارا جہاں انھیں سندھ کی ثقافت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

عبدالکریم سولنگی کہتے ہیں کہ انھوں نے سندھ کی ثقافت کو نئی نسلوں تک پہنچانے کے لیے اپنے فن کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا اور ایسے فن پارے تخلیق کرنے کا ارادہ کیا جو پہلے کسی نے نہ بنائے ہوں۔

انھوں نے 1985میں ایک فن پارہ بنایا جس میں ایک لوہار اور اس کا شاگرد بھٹی سے نکلے سرخ لوہے پر ضرب لگاکر اسے ایک اوزار کی شکل دینے میں مصروف ہیں اس طرح کے ابتدائی فن پاروں کی ان کے گھر والوں اور ملنے جلنے والوں نے بے حد تعریف کی اور ان کی حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عبدالکریم سولنگی نے مزید فن پارے تخلیق کیے جن میں سندھ کے صوفی اور لوک فنکاروں الن فقیر، جلال چانڈیو، مصری خان سمیت دیگر لوک فنکاروں کے متحرک مجسمہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے سندھ کے ہنرمندوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکڑی کا کام کرنے والے کاریگر، کمہار شامل ہیں ان فن پاروں میں سندھ کے دیہات اور دیہی طرز زندگی کو اجاگر کرنے والے فن پارے بھی شامل ہیں جن میں خواتین گھریلو کام کاج کرتی نظر آتی ہیں اور مرد حضرات اوطاق میں بیٹھ کر حال احوال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

فن پاروں میں بچے، خواتین اور بزرگ دلچسپی لیتے ہیں

سندھ کی ثقافت کی مٹھاس، رنگا رنگ پہناوے اور قدرتی ماحول ان فن پاروں کو چار چاند لگاتا ہے، عبدالکریم سولنگی کے فن پارے کسی مصور کی قدرت کی عکاسی کرنے والے لینڈ اسکیپ کی طرح مکمل ہوتے ہیں جس میں پیش منظر کے ساتھ پس منظر اور ماحول کی جزیات پر پوری توجہ دی جاتی ہے، عبدالکریم سولنگی کے فن پاروں میں بچوں سے لے کر بزرگ اور خواتین ہر عمر کے افراد دلچسپی لیتے ہیں۔

موسیٰ لین کی دکان میں سٹی میوزیم میں داخلے کا کوئی ٹکٹ نہیں اسی طرح یہ فن پارے فروخت بھی نہیں کیے جاتے، عبدالکریم سولنگی کا کہنا ہے کہ ان کے فن کو عوامی سطح پر بے حد پذیرائی حاصل ہوئی، فن کے قدر دان ان کے فن پارے خریدنے کی پیشکش کرتے ہیں لیکن عبدالکریم ان سے یہ کہہ کر معذرت کرلیتے ہیں کہ یہ فن عوام کے لیے اور نئی نسل کے لیے ایک پیغام ہے اگر یہ فن پارے فروخت کیے تو یہ ڈرائنگ رومز کی زینت تو ضرور بن جائیں گے لیکن نئی نسل اور عوام کی پہنچ سے دور ہوجائیں گے۔

عبدالکریم کو خدمات کے اعتراف میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازاگیا

عبدالکریم سولنگی کو سابق صدر ممنون حسین مرحوم نے ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا اس کے علاوہ بھی انہیں قومی سطح پر کئی اعزازات ملے۔ عبدالکریم سولنگی کے فن پارے سندھ لٹریچر فیسٹیول کی جان ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی سندھ میں لگنے والے لوک میلوں اور نمائشوں میں ان کے فن پارے عوام سے داد تحسین پاتے ہیں۔

متحرک مجمسے بنانے پرزیادہ لاگت نہیں آتی

عبدالکریم سولنگی کے مطابق انھوں نے یہ تمام مجمسے اپنے سرمائے سے بنائے ان فن پاروں پر اتنی زیادہ لاگت نہیں آتی جتنا وقت صرف ہوتا ہے، زیادہ تر استعمال شدہ اشیا استعمال کی جاتی ہیں، متحرک مجسموں میں سب سے زیادہ اہمیت اس طریقہ کار کی ہوتی ہے جو ان مجسموں کے جسمانی اعضا چہرے، ہاتھ پیر، گردن کو ایک ردھم میں متحرک رکھتا ہے، یہ مکینزم موٹر اور گیئرز پر مشتمل ہوتا ہے، مجسموں کے مکینزم کی تیاری کے بعد مجسمہ تیارکیا جاتا ہے اس پر رنگ و روغن کیا جاتا ہے اور کپڑے بنائے جاتے ہیں اس میں زیادہ تر استعمال شدہ کپڑے اور پلاسٹک کے بے کار ٹکڑے لکڑی وغیرہ استعمال ہوتی ہے۔

حکمرانوں کو سندھ کی ثقافت کی ترویج سے زیادہ سیاست کی فکر ہے

اپنی زندگی متحرک فن پاروں کے ذریعے سندھ کی ثقافت کی ترویج کے لیے وقف کرنے والے اس عظیم فن کار کو حکومتی سطح پر اس طرح سپورٹ نہیں کی گئی جس کے وہ حق دار ہیں، اپنے فن کے مستقبل کے بارے میں فکر مند عبدالکریم سولنگی ایک میوزیم بناکر اپنے فن پارے وہاں نئی نسلوں کیلیے محفوظ بنانا چاہتے ہیں اور اس خواہش کا اظہار ہر پلیٹ فارم پر کرتے رہے ہیں لیکن شاید سندھ کے حکمرانوں کو سندھ کی ثقافت کی ترویج سے زیادہ سندھ کے نام پر کی جانے والی سیاست کی فکر ہے۔

عبدالکریم سولنگی کے احساسات کا اندازہ ان کی فیس بک پر کی جانے والی ان کی ایک حالیہ پوسٹ سے کیا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے تحریر کیا ہے کہ ’’جس فن سے فنکار کو میسر نہ ہو روزی، اس فن کار کے بے کار فن پاروں کو جلا دو‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔