- 5 ہزار ایکڑ پر چارے کی کاشت، سعودی کمپنی سے معاہدہ
- بجلی 5روپے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان
- ڈیجیٹل ذرائع سے قرض، ایس ای سی پی نے گائیڈ لائنز جاری کر دیں
- موبائل کی درآمدات میں 156 فیصد اضافہ
- ایچ بی ایف سی نے عوام کو سستے تعمیراتی قرضوں کی فراہمی بند کردی
- حسن اور حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
- مفت راشن اسکیم؛ عوام کی عزت نفس کا بھی خیال کیجیے
- مشفیق الرحیم، انجیلو میتھیوز کے ٹائم آؤٹ کا مذاق اڑانے لگے
- کراچی میں سی ٹی ڈی کی کارروائی، ٹی ٹی پی کا اہم دہشتگرد گرفتار
- تیسرے ون ڈے میں کئی بنگلہ دیشی کرکٹرز انجرڈ ہوگئے
- پی ایس ایل؛ عماد کی دوران میچ سیگریٹ نوشی کی ویڈیو وائرل
- رضوان کا سپر لیگ میں اپنی کارکردگی پر عدم اطمینان
- پی سی بی بدستور غیر ملکی کوچ کی تلاش میں سرگرداں
- راولپنڈی پولیس نے مراد سعید، پرویز الٰہی کی گرفتاری کیلیے وارنٹ حاصل کرلیے
- یونائیٹڈ کے کھلاڑیوں نے ٹائٹل جیتنے کے بعد گراؤنڈ میں فلسطینی پرچم لہرادیئے
- ایلون مسک کا منشیات استعمال کرنے کا اعتراف
- جرمنی میں نوجوان نے ٹرینوں کو ہی اپنا گھر بنا لیا
- واٹس ایپ کا چیٹ کی حفاظت کے لیے نئے فیچر پر کام جاری
- چہرے کے تاثرات سے ڈپریشن کا پتہ لگانے والی ایپ متعارف
- پاکستان کے حملے جوابی کارروائی تھی، طالبان اپنی سرزمین سے حملے روکیں، امریکا
چین نے امریکی ’ورلڈ آرڈر‘ کو ’جنگل کا قانون‘ قرار دے دیا
تیانجن: چین کے نائب وزیر خارجہ نے اپنی امریکی ہم منصب پر واضح کیا کہ اپنے داخلی مسائل کا مورد الزام ہمیں نہ ٹھہرایا جائے۔
عالمی خبر رساں ادارے ’’اے ایف پی‘‘ کے مطابق امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین 2 روزہ دورے پر چین پہنچیں جہاں ان کے چینی ہم منصب شے فینگ نے پُرتپاک استقبال کیا۔ دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں باہمی امور کی دلچسپی پر تبادلہ خیال کیا۔
چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات کے دوران نائب وزیر خارجہ شے فینگ نے امریکی ہم منصب وینڈی شرمین سے کہا کہ امریکا چین کو برا بھلا کہہ کر کسی نہ کسی طرح اپنے داخلی مسائل کےلیے ہمیں مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت چین امریکا تعلقات تعطل کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ امریکا میں کچھ لوگوں کا چین کو ’’خیالی دشمن‘‘ سمجھنا ہے:
’’ایسے لوگ چین امریکا تنازعات اور امریکا کو درپیش چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے نام نہاد ’’پرل ہاربر لمحے‘‘ اور ’’اسپتنک لمحے‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں جس کا مقصد دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا کے دشمن جاپان اور سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے ساتھ چین کا موازنہ ہے۔
’’یہ لوگ چین کو ایک ’’خیالی دشمن‘‘ کی صورت میں پیش کرتے ہوئے امریکا کےلیے قومی مقصد کے احساس کو دوبارہ اجاگر کرنا چاہتے ہیں تاکہ معاشرتی عدم اطمینان اور ساختی تضادات کے حوالے سے امریکی عوام کے غم و غصے کو چین کی جانب منتقل کیا جاسکے۔‘‘
شے فنگ نے کہا کہ امریکا کی جانب سے نام نہاد ’’قواعد پر مبنی بین الاقوامی آرڈر‘‘ کے تحفظ کا مطلب دوسرے ممالک کو دبانے اور امریکا اور چند مغربی ممالک کے ’’گھریلو قوانین‘‘ کو بین الاقوامی سطح پر رائج کرنا ہے۔
امریکا بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی برادری کے تسلیم شدہ عالمی نظام پر عمل پیرا نہیں۔ امریکا نے موجودہ عالمی نظام کو ترک کر دیا ہے جس کی تعمیر میں وہ خود بھی شامل تھا؛ اور اب وہ امریکی ساختہ نام نہاد ’’قواعد پر مبنی بین الاقوامی آرڈر‘‘ کی تشکیل چاہتا ہے جس کا مقصد بدمعاشی ہے۔
یہ کمزور اور چھوٹے ممالک کو زیر تسلط لاتے ہوئے ’’جنگل کا قانون‘‘ نافذ کرنے کی کوشش ہے۔
شے فنگ کا مزید کہنا تھا کہ آج دنیا کو اتحاد اور تعاون کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ چین اختلافات سے نمٹتے ہوئے امریکا کے ساتھ مساویانہ سلوک اور ایک مشترکہ بنیاد کی تلاش کا خواہاں ہے۔
امریکا کو اپنی پالیسی میں تبدیل لانی چاہیے اور چین کے ساتھ مشترکہ کوشش کرنی چاہیے، ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، منصفانہ مسابقت ہونی چاہیے اور پرامن طور پر ایک دوسرے کے ساتھ چلنا چاہیے۔
چینی نائب وزیر خارجہ نے امریکی ہم منصب سے مزید کہا کہ امریکا اپنی انتہائی گمراہ کن ذہنیت اور خطرناک پالیسی کو تبدیل کرے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ امریکا چین کو اپنا دشمن تصور کرتا ہے۔
نائب وزیر خارجہ ژائی فینگ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو تعطل کا شکار اور شدید مشکلات سے دوچار قرار دیتے ہوئے کہا کہ چینی عوام امریکا کی ”منفی بیان بازی‘‘ کو چین کو قابو میں رکھنے اور اسے کچلنے کی درپردہ کوشش سمجھتے ہیں۔
امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے بھی امریکی تحفطات کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے چین کی جانب سے سائبر کرائم، معاشی پابندیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جانب توجہ دلائی۔
امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین آج چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے بھی ملاقات کریں گی۔ امریکا کے موجودہ سفیر برائے ماحولیات اور سابق وزیر خارجہ جان کیری نے بھی اپریل میں چین کا دورہ کیا تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔