آزاد کشمیر میں نظام کا تسلسل

سالار سلیمان  بدھ 28 جولائی 2021
آزاد کشمیر انتخابات میں تحریک انصاف پہلے، پیپلز پارٹی دوسرے اور ن لیگ تیسرے نمبر پر ہے۔ (فوٹو: فائل)

آزاد کشمیر انتخابات میں تحریک انصاف پہلے، پیپلز پارٹی دوسرے اور ن لیگ تیسرے نمبر پر ہے۔ (فوٹو: فائل)

آزاد کشمیر کے انتخابات بھی مکمل ہوگئے اور توقعات کے عین مطابق پاکستان تحریک انصاف نے وہاں کا معرکہ جیت لیا۔ یہ توقعات کے عین مطابق کیوں ہوا، کیونکہ 1996 سے تاحال جو حکومت بھی اسلام آباد میں ہوتی ہے، وہی پارٹی آزاد کشمیر میں حکومت بناتی ہے۔

سینئر صحافی ماجد نظامی نے اپنے ٹویٹ میں اس ٹرینڈ کو واضح بھی کیا ہے کہ 96 میں پی پی تھی اور آزاد کشمیر میں بھی پی پی آئی، پھر اس کے بعد ق لیگ کا دور تھا تو مسلم لیگ وہاں برسر اقتدار رہی اور پھر جب دوبارہ 2011 میں آزاد کشمیر کے انتخابات ہوئے تو چونکہ 2008 میں مرکز میں پی پی تھی لہٰذا وہاں پھر سے پی پی ہی اقتدار میں آئی۔ اس کے بعد آزاد کشمیر میں 2016 میں انتخابات ہوئے تو مسلم کانفرنس نے حکومت بنائی اور اب 2021 میں پاکستان تحریک انصاف نے حکومت بنائی ہے۔ لہٰذا حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت کو ہم نظام کا تسلسل کہہ سکتے ہیں۔

ان انتخابات میں تحریک انصاف پہلے، پیپلز پارٹی دوسرے اور ن لیگ تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ حیرانی کی بات ہے کہ پی پی دوسرے نمبر پر کیسے آگئی، جبکہ الیکشن پی ٹی آئی اور ن لیگ کے مابین تھا اور غیر جانبدار مبصرین کے نزدیک ن لیگ بڑے جلسے بھی کر رہی تھی۔ یہاں یہ نکتہ سمجھنے والا ہے کہ انتخابی سیاست ایک الگ بات ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن عمران خان میں ایک خوبی ہے کہ وہ بور سے بور معرکے کو بھی دلچسپ بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے ضمنی انتخابات کو دلچسپ بنایا اور پھر حکومت میں رہتے ہوئے بھی یہی کیا۔ اور اب بھی جب کہ آزاد کشمیر کا الیکشن اظہر من الشمس تھا، انہوں نے اس معرکے کو دلچسپ بنا دیا تھا۔ یہ معرکہ پی ٹی آئی 26 اور ن لیگ 6 پر اختتام پذیر ہوا ہے۔

مسلم لیگ ن کی ہار کی ساری ذمے داری مریم نواز کے کندھوں پر جائے گی۔ وہ چاہے یہ ٹویٹ کریں کہ میں ان نتائج کو تسلیم نہیں کرتی۔ جب ان کے بڑوں نے ان نتائج کو تسلیم کرلیا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ مریم ان نتائج کو تسلیم کریں یا نہ کریں۔ انہوں نے 2018 کے انتخابات کو بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ کیا وہ ایک بھی سیٹ یا اینٹ ہلا سکی ہیں؟ اب تک محض بیان بازی کے علاوہ کیا ہوا ہے؟

یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ میاں شہباز شریف کیوں اس منظرنامے سے غائب رہے؟ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ وہ نتائج کو پہلے سے جانتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کو یہ نتائج بہرصورت قبول کرنے ہی ہیں تو انہوں نے یہ میدان اپنی بھتیجی کے حوالے کردیا۔ میاں صاحب کو البتہ یہ سوچنا چاہیے کہ وہ ہر اس وقت سجدہ ریز کیوں ہوجاتے ہیں جب وقت قیام ہوتا ہے؟ کیوں یہ تاثر جاتا ہے کہ مریم نواز مشرق کی سمت جا رہی ہیں اور شہباز شریف مغرب کی سمت جارہے ہیں؟ اس رحجان نے مسلم لیگ ن کی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اب بھی یہی تاثر گیا ہے کہ مریم نواز اور شہباز شریف میں پالیسی کے حوالے سے کشمکش جاری ہے۔ بھلے ایسا نہ ہو لیکن شہباز شریف کے منظرنامہ سے غائب ہونے نے نہ صرف یہ پیغام دیا ہے بلکہ مریم نواز کو ن لیگ کے ووٹر کے سامنے ایک ہارے ہوئے لشکر کا قائد بنا کر پیش کردیا ہے، جس کی ہار کی تمام تر ذمے داری ان کے کندھوں پر ہے۔

پیپلز پارٹی نے کشمیر میں سارے ہی جلسے ٹھنڈے ماٹھے کیے تھے۔ ایک دو کے علاوہ ان کا کوئی قابل ذکر جلسہ نہیں تھا، لیکن مفاہمت کی سیاست نے ان کو آزاد کشمیر میں نمبر 2 کی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ پی پی کی اصل قیادت آج بھی آصف زرداری کے ہاتھ میں ہے جنہیں سیاست کے میدان کا مفاہمت کنگ کہا جاتا ہے اور اگر پی پی نے لائن بدلنی ہوتی تو وہ پی ڈی ایم کے اس دور میں بدل لیتی جب ان کے گرما گرم جلسے ہوتے تھے اور بات استعفوں پر آکر ختم ہوگئی کہ پی پی نے اسمبلیوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا۔

آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن میں بھی جیسے ہی پی پی نے ہارڈ لائن لینے کی کوشش کی تو ساتھ ہی وزرا نے بیانات دیے کہ ہم آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کے بعد سندھ میں بھی حکومت بنائیں گے اور پھر سب نے دیکھا کہ پی پی نے قدم پیچھے ہٹا لیے اور نتائج سب کے سامنے ہیں۔ لہٰذا، زرداری صاحب کسی بھی صورت میں سندھ حکومت نہیں چھوڑنے والے ہیں۔ وہ اس کےلیے ہر قسم کی مفاہمت بھی کریں گے اور اس کا پھل بھی کھائیں گے جس کا مظاہرہ ماضی میں بھی ہوا ہے اور اب بھی آزاد کشمیر کے الیکشن کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

جماعت اسلامی کا یہاں پر ذکر کرنا ضروری ہے۔ اس جماعت کی کشمیر کاز کےلیے بے شمار قربانیاں ہیں۔ جماعت اسلامی نے ہی کشمیر کاز کو دنیا بھر میں متعارف کروایا اور حکومت کو مجبور کیا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر واضح اسٹینڈ لے۔ 5 فروری کو یوم کشمیر بھی سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کی وجہ سے منایاجاتا ہے۔ تاہم جماعت اسلامی کو اس نقطے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ وہ کیوں پارلیمانی سیاست میں ووٹرز کی جانب سے مسترد کردی جاتی ہے؟ جماعت اسلامی کو اپنی سیاسی پالیسیاں جتنی جلدی ہوسکے بدلنا ہوں گی ۔اذہان بدلنا مشکل کام ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ اب یہ جماعت پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے اگلے انتخابات کےلیے کیا پالیسی بناتی ہے اور پھر آزاد کشمیر کے اگلے الیکشن کےلیے اس کی کیا پالیسی ہوتی ہے۔ آج کی تاریخ میں جماعت اسلامی کی پارلیمانی سیاست مایوس کن ہے۔

تحریک انصاف اب آزاد کشمیر میں حکومت بنائے گی تو دیکھیں گے وہ کتنےانتخابی وعدے پورے کرتی ہے اور کتنے وعدوں سے یوٹرن لیا جاتا ہے۔ تاہم اگر ہم 2018 سے آج تک اس پارٹی کی پاکستان میں کارکردگی دیکھیں تو یہاں بھی صرف مایوسی ہی ہے۔ کیا ہم دور مایوسی میں جی رہے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔