نائب وزرائے خارجہ ملاقات؛ چین نے امریکا پر ’آخری حدیں‘ واضح کردیں

ویب ڈیسک  منگل 27 جولائی 2021
چینی نائب وزیر خارجہ شے فنگ اور ان کی امریکی ہم منصب وینڈی شرمین میں مذاکرات جاری ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چینی نائب وزیر خارجہ شے فنگ اور ان کی امریکی ہم منصب وینڈی شرمین میں مذاکرات جاری ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شنگھائی: تھیان جن میں چینی اور امریکی نائب وزرائے خارجہ میں اہم ملاقات کے دوران چین نے امریکا پر ’آخری حدیں‘ واضح کرنے کے علاوہ دو مطالبات کی فہرستیں بھی پیش کردی ہیں۔

خبروں کے مطابق، چینی نائب وزیر خارجہ شے فنگ نے آج (26 جولائی 2021) کو تھیان جن اپنی امریکی ہم منصب وینڈی شرمین سے ملاقات کی۔ مارچ کے آخر میں امریکی شہر اینکریج میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد چین اور امریکا کے مابین یہ دوسری اعلیٰ سطحی سفارتی بات چیت ہے۔

بات چیت کے دوران چینی فریق نے چین اور امریکا کے تعلقات پر اپنے اصولوں اور مؤقف کو سختی سے بیان کیا، امریکی فریق پر چار ’’آخری حدیں‘‘ واضح کی گئیں اور دو ’’مطالبات کی فہرستیں‘‘ پیش کی گئیں جن میں امریکا سے چین کے بارے میں غلط تاثر اور پالیسی کو تبدیل کرنے کامطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: چین نے امریکی ’ورلڈ آرڈر‘ کو ’جنگل کا قانون‘ قرار دے دیا

چین کا واضح پیغام اور تجاویز چین کی تشویش کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے بیرونی دنیا یہ سمجھ سکتی ہے کہ چین امریکا تعلقات میں موجودہ مشکلات کی تمام تر ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی ہے۔

ایک طرف ناول کورونا وائرس، تائیوان، سنکیانگ، ہانگ کانگ، جنوبی بحیرہ چین اور دیگر امور پر امریکا کی خطرناک اشتعال انگیزی کے جواب میں، چین نے ایک بار پھر بات چیت کے دوران سخت عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ امریکا چین کے اندرونی معاملات میں فوری مداخلت بند کردے اور چین کے مفادات کو نقصان پہنچانا بند کرے۔ چین کے صبر کی آخری حد کو آزمانا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے لہٰذا اس حوالے سے تصادم کی کیفیت ختم ہونی چاہیے۔

دوسری جانب، چین نے امریکا سے چین کے بارے میں اپنے ’’انتہائی غلط‘‘ خیال کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان دو فہرستوں میں چین کے بارے میں امریکا کے قول و فعل میں غلط پالیسی کو درست کرنے سمیت دیگر مطالبات شامل ہیں اور ایسے اہم معاملات بھی ہیں جن کے بارے میں چین کو تشویش ہے۔

اگر امریکا واقعتاً چاہتا ہے کہ چین امریکا تعلقات میں ’’حفاظتی حد‘‘ قائم کی جائے تو اسے چین کی طرف سے پیش کیے جانے والے مطالبات کی دو فہرستوں پر مثبت ردعمل کا مظاہر ہ کرنا چاہیے؛ اور دو طرفہ تعلقات کی بہتری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔