بی اے پی کو پارٹی الیکشن اور پی ٹی آئی کو کارکن مطمئن کرنے کا مرحلہ درپیش

رضا الرحمٰن  بدھ 28 جولائی 2021
سینیٹ کے انتخابات کے دوران بھی تحریک انصاف بلوچستان کا پارلیمانی گروپ اس حوالے سے انتشار کا شکار ہوگیا تھا۔فوٹو : فائل

سینیٹ کے انتخابات کے دوران بھی تحریک انصاف بلوچستان کا پارلیمانی گروپ اس حوالے سے انتشار کا شکار ہوگیا تھا۔فوٹو : فائل

 کوئٹہ:  بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی تحریک انصاف اس وقت تذبذب کا شکار دکھائی دے رہی ہیں۔

حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن کے عمل سے گزر رہی ہے جسے اگست کے پہلے عشرے میں اپنی جماعت کے انتخابات مکمل کرانے ہیں جبکہ تحریک انصاف گورنر بلوچستان سید ظہور آغا کی تقرری کے بعد کارکنوں میں ملے جلے اور بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی گروپ کی شدید تنقید کے عمل سے گزر رہی ہے۔

تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی سربراہ سمیت دیگر 6ارکان نے پارٹی چیئرمین و وزیر اعظم عمران خان کے گورنر بلوچستان کی تقرری کے فیصلے میں انہیں ایک بار پھر نظر انداز کرنے اور اعتماد میں نہ لینے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے یہی وجہ تھی کہ بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصا ف کے پارلیمانی گروپ جس کی تعداد سات ہے نے ماسوائے ایک رکن اسمبلی محمد مبین خلجی کے علاوہ کسی نے بھی گورنر بلوچستان سید ظہور آغا کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔

تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ کا یہ شکوہ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے فیصلوں میں پارٹی چیئرمین و وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر قائدین انہیں اعتماد میں نہیں لیتے۔

سینیٹ کے انتخابات کے دوران بھی تحریک انصاف بلوچستان کا پارلیمانی گروپ اس حوالے سے انتشار کا شکار ہوگیا تھا جبکہ گورنر بلوچستان کی تبدیلی کے لئے پارلیمانی گروپ نے ہی احتجاج کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ وہ اس عہدے پر پارٹی سے وابستہ کسی شخصیت کا تقرر کریں اور اس عہدے کیلئے پارٹی چیئرمین ووزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر پارلیمانی گروپ نے تین نام بھی تجویز کئے تھے جنہیں وزیر اعظم عمران خان نے مسترد کر دیا تھا۔

سینیٹ الیکشن کے دوران پارٹی ٹکٹ کے معاملے پر تحریک انصاف بلوچستان کا پارلیمانی گروپ انتشار کا شکار رہا۔ جبکہ پارلیمانی لیڈر و وزیر تعلیم سردار یار محمدرند نے سینیٹ کے لئے اپنے بڑے صاحبزادے کو آزاد حیثیت سے نامزد کرکے ایک ہلچل سی مچا دی تھی۔ جنہیں بعد میں منایا گیا تھا۔

تاہم اس دوران جو وعدے اتحادی و حکمران جماعت بی اے پی کی قیادت خصوصاً وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی اور چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی نے سردار یار محمد رند سے کئے تھے بعد ازاں ان پر بھی عمل درآمد نہ ہونے پر ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یارمحمد رند نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور پھر انہوں نے جام کابینہ سے مستعفی ہونے کا اعلان بجٹ اجلاس میں کرکے ایک بار پھر بلوچستان کے سیاسی ماحول کو گرما دیا۔سردار یار محمد رند نے وزارت سے استعفیٰ گورنر بلوچستان تک پہنچایا لیکن ابھی تک یہ استعفیٰ منظور نہیں ہوا۔

بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ جام کمال اور تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے مابین جو اختلافات ہیں انہیں ختم کرنے کیلئے بعض شخصیات متحرک ہیں یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ان کا وزارت سے استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال اور سردار یار محمد رند کے درمیان اختلافات ختم کرنے اور انہیں منانے کی کوششوں میں کافی پیش رفت کی خبریں آرہی ہیں جبکہ سردار یار محمد رند جو کہ اس وقت وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔

نے اس عہدے سے استعفیٰ دینے کے لئے اپنے قریبی دوستوں اور ساتھیوں سے مشاورت کی تھی جس پر انہیں ان دوستوں اور ساتھیوں نے کچھ وقت انتظار کرنے کا مشورہ دیا ہے، ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال اور سردار یار محمد رند کے درمیان اختلافات کو دور کرنے والی متحرک شخصیات کے مطابق کچھ عرصے میں وزیراعلیٰ جام کمال اور سردار یار محمد رند میں ایک اہم ملاقات کا قوی امکان ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس ’’بیٹھک‘‘ کا مثبت نتیجہ آئے گا۔ اسکے علاوہ پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے سردار یار محمد رند کی مختصر عرصے میں دوسری ملاقات کو سیاسی حلقے بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ کی مخالفت اور بعض سابق ناراض کارکنوں کی تنقید کے باوجود گورنر بلوچستان سید ظہور آغا نے وزیر اعظم عمران خان کے اس فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لئے پارٹی کارکنوں کو اہمیت دینا شروع کردی ہے اور ان کی سرگرمیوں سے یوں لگتا ہے کہ وہ اس وقت بڑے پر اعتماد انداز میں وکٹ پر کھیل رہے ہیں اور کپتان کی امیدوں پر پورا اترنے کے لئے جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی صوبائی محتسب کے عہدے پر پارٹی کے ایک پرانے کارکن نذر بلوچ ایڈووکیٹ اور ریڈ کریسنٹ کی چیئرمین شپ پر پارٹی کارکن عبدالباری بڑیچ کی تعیناتی کرکے یہ باور کرایا ہے کہ وہ نہ صرف کپتان بلکہ بلوچستان میں پارٹی کارکنوں کے اعتماد پر بھی پورا اتریں گے۔

دوسری جانب بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے اور اس حوالے سے پارٹی کے بعض اہم رہنما بھی اندرون خانہ سرگرم ہیں، پارٹی کی مرکزی صدارت کے لئے وزیراعلیٰ جام کمال سب سے مضبوط امیدوار ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ دوبارہ بلا مقابلہ پارٹی کی صدارت لے لیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی مرکزی صدارت کے لئے وزیراعلیٰ جام کمال سرگرم ہیں اور یقیناً ان کے ذہن میں یہ بات بھی چل رہی ہوگی کہ وہ پارٹی کی صدارت دوبارہ حاصل کرلیتے ہیں تو دو سال تک وہ وزارت اعلیٰ پر مضبوطی سے برقرار رہیں گے اور انکے خلاف پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی کوئی بھی بغاوت اس طرح کچل دی جائے گی جس طرح ماضی میں ہونے والی کوششوں کو کچلا گیا۔

اسکےعلاوہ دو سال بعد وہ دوبارہ بلوچستان عوامی پارٹی کی الیکشن میں اکثریت کے بعد وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار ہوسکتے ہیں؟ ان سیاسی مبصرین کے مطابق حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر اس حوالے سے کافی تحفظات پائے جاتے ہیں اور ایک مضبوط لابی پارٹی میں جمہوریت کو برقرار رکھنے کی حامی ہے اور اسکا یہ کہنا ہے کہ پارٹی کے سربراہ وزیراعلیٰ جام کمال اور سیکرٹری جنرل سینیٹر منظور کاکڑ کی تین سالہ کارکردگی پارٹی کے حوالے سے کوئی حوصلہ افزا نہیں رہی اس پارٹی کے اندر الیکشن ناگزیر ہے اور جمہوری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا مقابلہ کے رحجان کو بھی مسترد کیا جائیگا۔

اس لابی کے مطابق پارٹی کی مرکزی اور صوبائی کابینہ الگ الگ تشکیل دینے پر بھی غور ہورہا ہے جس کے لئے مرکزی صدارت بلوچستان اور سیکرٹری جنرل کا عہدہ خیبر پختونخواہ (کے پی کے)کو دیا جائے گاکیونکہ اس وقت کے پی کے سے 4ارکان اسمبلی اور ایک سینیٹر بلوچستان عوامی پارٹی سے وابستہ ہے اور بی اے پی کو قومی سطح کی جماعت بنانے پر کافی عرصے سے بحث و مباحثہ اور غور وخوض ہورہا ہے ۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پارٹی کے اندر یہ مضبوط لابی مرکزی صدارت کے لئے اپنا امیدوار بھی وزیراعلیٰ جام کمال کے سامنے لانے کیلئے تیاریوں میں ہے اور یہ بات وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ اس عہدے کے لئے پارٹی کی اہم شخصیت کو آگے لایا جا سکتا ہے جبکہ صوبائی سطح پر صدارت کے لئے جو نام لئے جا رہے ہیں ان میں سردار صالح بھوتانی اور صوبائی وزیر نوبزادہ طارق مگسی قابل ذکر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔