پاکستان اولمپکس گیمز میں پیچھے کیوں ہے؟

کامران امین  جمعرات 29 جولائی 2021
قومی سطح پر بھی خال ہی کوئی طالب علم کھیلوں کے کسی مقابلے میں نمائندگی کرتا نظر آئے گا۔ (فوٹو: فائل)

قومی سطح پر بھی خال ہی کوئی طالب علم کھیلوں کے کسی مقابلے میں نمائندگی کرتا نظر آئے گا۔ (فوٹو: فائل)

دنیا میں کھیلوں کے سب سے بڑے مقابلے اولمپکس بالآخر ایک سال کی تاخیر کے بعد ٹوکیو میں شروع ہو ہی گئے ہیں۔ مختلف ممالک نے کھیلوں کے مقابلوں کےلیے بڑے بڑے دستے بھیجے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دنیا پر حکمرانی کی کشمکش میں شامل دو بڑی حریف طاقتیں امریکا اور چین کھیلوں کے مقابلوں میں بھی حریف بن کر ابھری ہیں اور کون سا ملک میڈل ٹیبل میں فاتح بن کر کھڑا ہوگا، اس کےلیے یہ لوگ کڑی محنت اور منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

آپ کی توجہ ایک مختلف بات کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ اسرائیل کی آبادی اس وقت تقریباً 90 لاکھ سے کچھ اوپر ہے۔ یہ آبادی پاکستان کے ایک شہر لاہور کی آبادی سے بھی کم ہے۔ اولمپک میں مقابلوں کےلیے اسرائیل کی طرف سے کھلاڑیوں کا جو دستہ شامل ہوا اس میں کھلاڑیوں کی تعداد 89 ہے۔ یعنی تقریباً ہر دس لاکھ لوگوں میں سے ایک کھلاڑی۔ پاکستان کی آبادی بیس کروڑ سے کچھ اوپر ہے، اسرائیل کی پوری آبادی سے بیس گنا سے بھی زیادہ۔ لیکن پاکستان کی طرف سے صرف 10 کھلاڑی اولمپک مقابلوں میں جگہ بنا پائے ہیں۔ یہ تعداد اسرائیلی کھلاڑیوں سے 9 گنا کم ہے۔ اور اگر آبادی سے موازنہ کیا جائے تو ہر 2 کروڑ پاکستانی شہریوں میں سے ایک کھلاڑی۔

یہ سب باتیں کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر ہم کسی اور فیلڈ میں مقابلہ نہیں کرسکتے تو کم از کم کھیلوں میں ہی یہ مقابلہ کرلیں۔ کیا اس میں بھی اب یہودی سازش ہے؟

اولمپکس کا ذکر ہورہا ہے تو ایک اور واقعہ سن لیجئے۔
جمعہ کو جب اولمپکس کے مقابلوں کا باقاعدہ آغاز ہوا تو چین سے تعلق رکھنے والی نشانہ باز یانگ چھیان (Yang Qian) نے 2021 کے مقابلوں میں سونے کا پہلا تمغہ اپنے نام کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ شاید کوئی اتنی بڑی بات نہ ہو، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یانگ چھیان کی عمر صرف اکیس سال ہے اور وہ چین کی نامور چھنگ خواہ یونیورسٹی کے اسکول آف مینجمنٹ ایند اکنامکس میں انڈر گریجویٹ طالبہ ہیں۔ اور اگر ان کی پڑھائی کی بات کی جائے تو وہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی طالبہ ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ چھنگ خواہ یونیورسٹی کے کسی طالب علم نے تمغہ اپنے نام کیا ہو بلکہ 2012 کے لندن اولمپکس میں اسکول آف مینجمنٹ اور اکنامکس کی ہی ایک اور طالبہ ای شیلنگ (Yi Siling) نے چین کےلیے پہلا سونے کا تمغہ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

بتانے کی بات یہ ہے کہ اگر چین کی یونیورسٹیاں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہاں سے ہر سال رٹو طوطے 99 فیصد نمبر حاصل کرکے گریجویٹ ہوتے ہیں، بلکہ یہاں طلبا کی آل راؤنڈر کارگردگی اور ڈیولپمنٹ پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ نہ صرف طلبا کو تعلیم کےلیے بہترین ماحول فراہم کیا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے باقی شعبوں میں اچھی کارگردگی کا مظاہرہ کرنے کی بہترین تربیت بھی دی جاتی ہے۔ ایک اسپورٹس کمپلیکس، جس میں مختلف کھیلوں کی بہترین سہولیات، ورزش کےلیے جم اور تربیت فراہم کرنے والے کوچز تقریباً ہر یونیورسٹی کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ یہ اب طالب علم پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس سارے ماحول اور سہولتوں سے کتنا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

یہاں ایک اور واقعے کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ 2018 میں نئے سال کے آغاز پر ہمیں تاریخی بیجنگ اوپیرا دیکھنے کےلیے مدعو کیا گیا۔ شاندار پرفارمنس کے اختتام پر ایک خاتون لیڈ پرفارمر جس نے بہترین ڈانس کا مظاہرہ کیا تھا، اسٹیج پر آئی۔ اس نے اپنا کاسٹیوم اتارا تو اندر سے ایک مرد برآمد ہوا۔ اس کی وجہ بہرحال انہوں نے یہ بتائی کہ تاریخی طور پر بیجنگ اوپیرا میں لڑکیاں پرفارم نہیں کرتی تھیں، ان کی جگہ مرد ہی بہروپ بدل کر پرفارم کیا کرتے تھے۔ اب اگرچہ وہ روایت ختم ہوگئی ہے لیکن اس ایک جگہ وہ روایت برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مزید حیرت ہوئی جب ان صاحب نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کی وہ ہماری ہی یونیورسٹی کے انسٹیوٹ آف مائیکرو بائیولوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

اب ذرا خود سوچیے کہ کہاں ایک پروفیسر اور کہاں اوپیرا میں بہروپ بدل کر پرفارمنس یا پھر کہاں بزنس ایڈمنسٹریشن اور کہاں شوٹنگ کے بین الاقوامی مقابلوں کی چمپئین؟

یہ سب بتانے کا مقصد محض اتنا سا ہے کہ یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں ہی نہیں تھما دیتیں اور رٹو طوطے بنا کر مارکیٹ میں نہیں بھیج دیتیں، جیسا کہ ہمارے ہاں زیادہ تر اداروں میں ہوتا ہے۔ بلکہ یونیورسٹیاں طلبا کی مختلف جہات میں شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں تاکہ وہ بدلتی دنیا کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرکے اپنا مقام بنا سکیں۔

ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کو اساتذہ کی تنخواہیں دینے کےلیے اور طلبا کےلیے تحقیق کی سہولتیں مہیا کرنے کےلیے فنڈز نہیں ہوتے، وہ بھلا کھیلوں والی عیاشی کہاں سے کروائیں؟ حالانکہ کھیلوں کے کوٹے پر ہر سال داخلے بھی ہوتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اولمپکس جیسا بین الاقوامی میلہ تو چھوڑیے، قومی سطح پر بھی خال خال ہی کوئی طالب علم کھیلوں کے کسی مقابلے میں نمائندگی کرتا نظر آئے گا۔

ان سب باتوں میں پاکستانی دستے میں شامل ہونہار اور محنتی ویٹ لفٹر طلحہ طالب کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ جب طلحہ اپنی زندگی کا ریکارڈ 170 کلو گرام وزن اٹھا کر مسکرا رہا تھا تو وہی جانتا تھا کہ اس مسکراہٹ کے پیچھے کتنی مایوسیاں اور مشکلات چھپی تھیں۔ انہیں اپنوں کی ہی کتنی عدم دلچسپی اور ناروا سلوک کا سامنا رہا لیکن اس ایک لمحے طلحہ کے ساتھ پورا پاکستان مسکرا رہا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ ہی ہے کہ طلحہ طالب بغیر مناسب سہولتوں کے اولمپک تک پہنچے۔ کوئی شاباش نہیں، کوئی سپورٹ نہیں۔ الٹا لوگوں کی باتیں اتنی کہ والد کہتے ہیں ایک لمحے لگا ہم نے کوئی گناہ کرلیا ہے۔ لیکن بین الاقوامی معیار اور بہترین سہولتوں کے حامل دنیا کے بہترین ویٹ لفٹرز سے مقابلہ کیا اور پانچویں پوزیشن پر آئے۔ اسے پاکستانی گولڈ میڈل ہی سمجھیں۔

یہ وہی طلحہ طالب ہیں جنہیں ویٹ لفٹر کی تربیت کےلیے کہا گیا کہ وہ اپنا ہاسٹل کا خرچہ خود اٹھائیں گے۔ آپ ذرا پتہ کیجئے کہ پاکستان میں سیاستدانوں اور منسٹرز کی گاڑیوں کے پٹرول کا سالانہ خرچ کتنا بنتا ہے؟ اس سے کہیں کم سرمائے میں طلحہ طالب کو بین الاقوامی معیار کی سہولتیں فراہم کی جاسکتی تھیں، مگر یہاں کسے پروا؟

زندگی رکاوٹوں کی دوڑ ہے اور مشکل راستہ ہے۔ تبھی طلحہ ان تمام تر وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود اولمپکس میں پہنچ گیا۔ یہ بھی پتہ کیجئے کہ اولمپکس میں کون لوگ پہنچتے ہیں؟ دنیا بھر سے اپنے شعبے کے بہترین کھلاڑی، کم سے کم بھی دس لاکھ لوگوں میں سے ایک۔

طلحہ طالب کی کہانی میں ایک اور سبق ہے۔ اپنوں کی بے اعتنائی ہو، لوگوں کی مخالفت ہو، کوئی ہمت بڑھانے والا نہ ہو لیکن اگر آپ کی لگن سچی ہے، آپ میں تڑپ ہے اور کچھ کر دکھانے کی جستجو ہے تو منزلیں آپ کا راستہ دیکھتی ہیں۔ جیت آپ کی ہوتی ہے۔ بس جیت تک پہنچنے کی لگن سلامت رہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

کامران امین

کامران امین

بلاگر کا تعلق باغ آزاد کشمیر سے ہے اور چین سے میٹیریلز سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بیجنگ میں نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، چائنیز اکیڈمی آ ف سائنسز سے بطور اسپیشل ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں۔ چین میں تعلیمی زندگی اور تعلیم سے متعلقہ موضوعات پر لکھنے سے دلچسپی ہے۔ ان سے فیس بک آئی ڈی kamin.93اور ٹوئٹر ہینڈل @kamraniat پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔