زباں فہمی؛ ڈال سے ڈِیل تک

سہیل احمد صدیقی  اتوار 1 اگست 2021
کبھی ہماری زندگی میں ڈاک اور ڈاکیے کی اہمیت بہت زیادہ ہوا کرتی تھی ۔  فوٹو : فائل

کبھی ہماری زندگی میں ڈاک اور ڈاکیے کی اہمیت بہت زیادہ ہوا کرتی تھی ۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 108

کبھی آپ نے سوچا کہ اگر ہماری دل نشیں زبان سے حرف ’’ڈ‘‘ نکال دیا جائے تو کیا ہوگا؟

حرف ’ڈ‘ بھی دیگر حروف کی طرح بہت کارآمد اور استعمال کے لیے ناگزیر ہے۔ دنیا کی جن زبانوں میں ڈال کی آواز موجود نہیں، وہ جب دوسری زبانوں سے اکتساب کرتی ہیں تو انھیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اردو کی ماؤں میں شامل زبانوں عربی، فارسی و ترکی میں ڈال کی آواز شامل نہیں۔

ایسی زبانیں بولنے والے ہرچندکہ غیرضروری شرم کا شکار نہیں ہوتے، مگر بہرحال کہیں کہیں دال اور ڈال کا فرق نمایاں کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اردو حروف تہجی کی جدید فہرست کے مطابق حرف ’ڈ‘ کا نمبر۱۹ (انیس) ہے۔ ہندی میں یہ تیرھواں حرفِ صحیح ہے اور اسے دال ہندی بھی کہتے ہیں۔ ہندی لفظ کے آخر میں ’ڈ‘ کا استعمال ہوتو وہ حاصل مصدر کا کام بھی دیتا ہے۔

تُو ڈال ڈال، میں پات پات

ہم نے بچپن سے بہت سنا:’’تُوڈال ڈال، میں پات پات‘‘، بعض لوگ تو کی جگہ تم اور بعض لوگ یہ محاورہ، برعکس یعنی ’’میں ڈال ڈال، تُو پات پات‘‘ بولتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر دست یاب مواد میں اسے ضرب المثل یعنی کہاوت لکھا گیا جو درست نہیں۔ مولوی سید احمد دہلوی نے فرہنگ آصفیہ میں اس کے ذیل میں لکھا: میں تجھ سے ایک درجے سِوا ہوں۔

جیسا تُو ، ویسا میں، میں تجھ سے کم نہیں ہوں۔ ویسے بچوں کی ایک کہانی میں بھی اس کا استعمال اس طرح ہوا کہ ہم بچپن سے یہی سمجھتے رہے کہ اس کا مطلب ہے، کسی کے پیچھے اس طرح جانا کہ دونوں فریق بار بار ایک دوسرے کے برابر آجائیں۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو بچپن کیا پچپن کیا……..برابر سرابر معاملہ ہے۔

اس محاورے کی تشریح میں ہمارے ایک فیس بک دوست، محترم ِ مَولوی تَمیزُالّدین شِبلی نے لکھا ہے:’’تُو ڈال ڈال، مَیں پات پات۔ یہ مُحاورہ تَب اِستِعمال کِیا جاتا ہَے جَب اَپنی بَڑائی یا بَرتَری کا اِظہار کَرنا ہو۔ اَب اَگَر شَخص کَہے کہ اِس شہر کا ہَر دَسواں بَندہ مُجھے ذاتی طَور پَر جانتا ہَے، اَور مُقابلے میں دُوسرا کَہے کہ؛ اَور مُجھے اِس شہر کا ہَر دُوسرا آدمی جانتا ہَے۔ یعنی اَگَر تُمہارا نام ڈالی ڈالی پَر لِکھا ہَے تو ہَمارا نام تو پَتّے پَتّے پَر رَقَم ہَے‘‘۔ (مَضامینِ مَولوی تَمیزُالّدین شِبلی، شاھِد پارَس)۔}ریختہ ڈاٹ آرگ پر دستیاب کتب میں ایک نام چودھری برہم ناتھ دت قاصرؔ کی ’’ڈال ڈال ، پات پات‘‘ کا بھی ہے جو کوئی ساٹھ سال قبل، 1960ء میں لکھنؤ سے شایع ہوئی۔

اس کا انتساب ابوالکلام آزادؔ کے نام ہے، جبکہ پیش لفظ، خواجہ غلام السیدین نے تحریر کیا۔ یہ کتاب اُن کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے نیاز فتح پوری کے نام خط میں منقول، اپنی ہی بیاض کا یہ اقتباس پیش کیا ہے: ’’فسادات میں، میراباپ، پاکستان میں اس لیے مارا گیا کہ ہندو تھا، اور اَمرِت سَر میں میرا گھر اِس لیے لُوٹا اور جلایا گیا کہ میں ’مسلم نواز ‘ ہوں‘‘۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ ڈال کی فہرست شروع ہوتی ہے تو ہمیں پہلا اسم قدرتی طور پر ’’ڈال‘‘ ہی سجھائی دیتا ہے جو ترتیب میں بہت بعد کا ہے۔ ڈال یعنی ڈالی، شاخ، ٹہنی یا ڈنڈی۔ اس اسم مؤنث کی ایک اور شکل ’’ڈالی ‘‘ ہے۔ ڈالی سے مراد ہے درخت کی چھوٹی شاخ، ٹہنی اور پھول یا پھل/میوہ (خشک ہو یا تر) کی ٹوکری جو بطور ہدیہ، تحفہ یا نذر ، امراء یا حکام یا کسی خاص مہمان/کسی خاص رشتے داریا واقف کو پیش کی جائے۔ (ناواقفین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پات سے مراد ہے، پتّا)۔

یہاں ہمیں ڈلیا بھی یاد آتی ہے۔ لغات میں بتائے گئے مفاہیم یہ ہیں:’’ڈلیا، چَنْگیزی یا پُھول پھل رکھنے کی ٹوکری جس میں پھل سجا کر کسی کے یہاں، خصوصاً امیروں اور سرداروں کے یہاں بھیجے جائیں؛ کپڑا؛ گہنا زیور جو ایک ڈلیا میں رکھ کر دولھا کی طرف سے دلہن کے گھر بھیجے جاتے ہیں‘‘۔ ؎ چمن دولت سرا کا صحن ہے، رنگیں خرامی سے /تِرے جاروب کش کی ٹوکری، پھولوں کی ڈالی ہے (داغؔ)۔

لغات کی فہرست میں حرف ’ڈ‘ سے شروع ہونے والا پہلا لفظ ہے: ڈاب۔ یہ ہندی الاصل لفظ، اسم مذکر ہے جس کے معانی ہیں: الف)۔ ایک قسم کی لمبی گھانس جس کا بان بٹا جاتا ہے]گھاس کا یہ صوتی تلفظ بھی درست ہے [ب)۔ (پوربی) پرتلا، کچا ناریل،ج)۔ صاحب ِ دریائے لطافت نے کمربند بھی لکھا ہے جس کی ہمیں تصدیق نہیں ہوئی۔]فرہنگ آصفیہ جلد اوّل[ ۔ ڈابر ایک تاجر ادارے کی مصنوعات کے نام کے طور پر مشہور ہے، جبکہ یہ لفظ ہماری لغات میں پہلے سے موجود ہے۔

فرہنگ آصفیہ کی رُو سے، ڈابر سے مراد ہے: جھیل، جوہڑ، نشیب جہاں پانی اکٹھا ہوجاتا ہے، چقر، چھوٹا تالاب، غدِیر، (پوربی میں) ہاتھ دھونے کا برتن، سیلابچی (سلفچی)۔ اردو لغت بورڈ کی ’’مختصر اردولغت‘‘ کی یہ عبارت کہ ڈاب چھوٹے تالاب کو کہتے ہیں، درست نہیں۔ اسی طرح یہ جو لکھا ہے کہ یہ کسی پہاڑی مرغزار کا وہ مقام ہے جہاں بلندی سے گرنے والا پانی جمع ہوکر جھیل کی شکل اختیار کرلیتا ہے….تو درحقیقت یہ ساری عبارت، ڈابر کے متعلق ہے۔}دنیا کے اکثر دریا کسی جھیل کے منبع سے شروع ہوکر ایک طویل راستہ طے کرتے ہیں اور اُن کی ابتداء اکثر عام لوگو ں کو معلوم ہوتی ہے نہ یاد۔ مثال کے طور پر دریائے سندھ کتنا مشہور ہے، مگر بہت کم لوگ اس کے منبع یعنی جھیل مان سروور[Manasarowar] سے واقف ہیں۔

یہ جھیل دیگر کئی ناموں سے بھی جانی جاتی ہے۔ خاکسار نے دریائے کُنہار (ناران، وادی کاغان) کے منبع جھیل سیف الملوک کی سیر کی ہے جس کا حسن کسی کو شاعر بنانے کے لیے کافی ہے{۔ پھر ہمیں ملتا ہے ’ڈاٹ‘ یعنی کاغذ، لکڑی یا شیشے سے بنی ہوئی کوئی ایسی چیز جو کسی صراحی، بوتل یا شیشی کا مُنھ بند کردے، مجازاً مراد ہے روک یا ممانعت سے۔ ایک قدیم، مقامی لفظ (جو ہمارے ملک کی کئی زبانوں بشمول پنجابی وسرائیکی میں مستعمل ہے) ڈاچی بھی بہت مشہور ہے۔

ڈاچی کہتے ہیں جوان اونٹنی کو۔}کوئی چھپن سال پہلے پاکستان کی ایک پنجابی فلم اسی نام سے مشہور ہوئی تھی جس کا گانا ’’تانگے والا خیرمنگدا‘‘ گلوکار مسعودرانا کی آواز میں بہت مقبول تھا۔ ایک اور نغمہ پورا کا پورا، ڈاچی سے متعلق ومنسوب ہے: ڈاچی والیا موڑ مہار وے/سوہنی والیا لَے چل نال وے۔ پی ٹی وی پر یہ گانا روبینہ قریشی نے گایا تھا۔ میاں محمدبخش کی مثنوی سیف الملوک کا اقتباس ’’میری ڈاچی دے گل وچ ٹلیاں‘‘ بھی بہت مشہور ہے۔ ہم نے اداکاروگلوکار خالداَنعم سے بہت بار سنا، اب دیگر گارہے ہیں۔

پرندوں، خصوصاً کونج کے جھُنڈ، جانوروں، خصوصاً ہرن کے گلّے یا قطار اور (کنایتاً) انسانوں کے ہجوم کو ’’ڈار‘‘ کہا جاتا ہے۔ ویسے کشمیری قوم کی ایک ذات یا برادری بھی ڈار کہلاتی ہے۔ ہم یہاں ڈاڑھ کو بھی نہیں بھول سکتے جو ہمارے دانتوں کا چپٹا، پچھلا حصہ ہے، جبڑے کے جوڑ کے پاس واقع، جس سے غذا چبائی جاتی ہے۔ محاورے میں ڈاڑھ گرم کرنا سے مراد ہے (تفننِ طبع کے طور پر) کچھ کھانا، جیسے شیخ صاحب! یہ لیں تھوڑا حلوا چکھ لیں، کچھ ڈاڑھ ہی گرم کرلیں۔ کسی شئے کے بہت محدو دیا قلیل مقدار میں ہونے پر، ’’ڈاڑھ میں اٹک کر رہ جانا‘‘ بھی محاورہ ہے۔

یہی وہ ڈاڑھ ہے جس سے لفظ ڈاڑھی بنایا گیا، مگر بول چال میں عموماً اس کا متبدل یا مُحَرّف تلفظ ’داڑھی‘ اس قدر عام ہوچکا ہے کہ عوام الناس ہی نہیں، اہل قلم بھی داڑھی بولنے اور لکھنے لگے ہیں۔ اگر کوئی شخص، خصوصاً کم عمر بچہ، اپنی عمر اور ظاہری لیاقت سے زیادہ، بڑھ چڑھ کر، بات کرے، علمی گفتگو کرے یا کوئی بیان دے تو محاورے میں اسے کہا جاتا ہے: ’’پیٹ میں ڈاڑھی ہونا‘‘ جیسے فُلاں بچے کے تو پیٹ میں ڈاڑھی معلوم ہوتی ہے۔ ڈاڑھی کی نسبت سے متعدد محاورے لغات میں محفوظ ہیں اور اَب خال خال ہی استعمال ہوتے ہیں، کیونکہ اَب ہمارے عوام کیا خواص کیا، بامحاورہ اردو بولنے کا رواج ہی بہت کم ہے اور محاورہ بولنا اور لکھنا قدرے حیرت انگیز یا مشکل میں ڈالنے کا سبب سمجھا جاتا ہے۔

کبھی ہماری زندگی میں ڈاک اور ڈاکیے کی اہمیت بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ کوئی موقع ہو ، کوئی تقریب ، کوئی تحفہ یا دعوت نامہ ہی ارسال کرنا ہو، ڈاک اور ڈاکیا بہت اہم ہوا کرتے تھے۔ (کچھ لوگ ڈاک بابو بھی کہتے تھے)۔ ڈاک کے مشہور معنی تو سبھی جانتے ہیں ، فرہنگ آصفیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاک کے مفاہیم بھی وسیع ہیں: ڈاک (ہندی الاصل، اسم مؤنث): الف) چِٹھی ڈالنے کی جگہ، ٹپا، ٹپال، پوسٹ آفس، چٹھی کا ہکس، ب) گھوڑے یا پالکی وغیرہ کی چوکی، جابجا انتظام سواری۔ یہاں مرتب نے کسی نامعلوم شاعر کا یہ منفرد شعر بھی نقل کیا ہے: ؎ بھاگوں گا اِس قدر کہ نہ پاؤگے تم پتا/ ہے ڈاک یاں سے تابہ سمندر لگی ہوئی۔

دیگر معانی بھی ملاحظہ کیجئے: ج)۔ علی الاتصال آمدورفت، پیہم آمدورفت، لگاتار خبر، سلسلہ ؎ روح ہے ہر جسم میں مشتاق ِاخبارِاَجَل/اس لیے یہ آمدورفت نفس کی ڈاک ہے (ناسخؔ)، د)۔ نگینہ کے نیچے سنہری یا روپہلی وَرق جو زیادہ چمک یا رنگ کے واسطے رکھ دیتے ہیں، فُوۃ ؎ خط زیرِلب نہیں ہے تیرے رشک ِ ماہ سبز/کیا ہے نگین سرخ تلے ڈاک داہ سبز (شاہ نصیرؔ)، ہ)۔ قے، اُلٹی، استفراغ۔ ڈاک سے جُڑے ہوئے دیگر الفاظ اور محاورات کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ اب ہم مدتوں کسی کو خط نہیں لکھتے، لکھتے ہیں تو Emailکے ذریعے بھیج دیتے ہیں۔

اب ہم الیکٹرانک ڈاک کے رسیا اور اسیر ہوکر رہ گئے ہیں۔ انگریزی لفظ Post officeکے علاوہ Letterboxکو بھی عرف عام میں ڈاک خانہ کہا جاتا تھا۔ اب اس کی جگہ Inbox نے لے لی ہے۔ ڈاکیا تو اَب کم لوگوں کو یاد ہوگا، ہاں اسی کی ایک شکل Courier rider بہت یاد رہتا ہے۔ یہ کبھی قاصد بھی کہلاتا تھا اور دیکھا جائے تو اس کا ایک نام، کام کے فرق سے، ایلچی بھی تھا۔ اب ہماری روزمرّہ گفتگو میں انگریزی اس حد تک دخیل ہے کہ ہم ایسے بے شمار الفاظ بھول چکے ہیں۔

ایک خاص قسم کی سرکاری قیام گاہ یا آرام گاہ ڈ اک بنگلہ کہلاتی تھی۔ ڈاک ٹکٹ تو خیر آج بھی اہم ہیں۔ انگریزی سے مستعار الفاظ میں ڈاک یارڈ[Dockyard] بھی بہت مشہور ہے۔ اس کے لیے اردو میں لفظ ’’گودی‘‘ مستعمل ہے (یہ ماں کی گود نہیں جسے بچے پیار سے گودی کہتے ہیں)۔ اس سے مراد کسی بندرگاہ کے قریب واقع ایسی کھُلی جگہ ہے جہاں جہاز کھڑے رہتے ہوں اور اُن کی مرمت کی جاتی ہو۔ لفظ ڈال، فعل متعدی ’ڈالنا‘ سے نکلا ہے یعنی اُس کا اَمر ہے۔ اس کی بڑی تفصیل ہے۔ محض لفظ ڈال جداگانہ معانی اور اہمیت کا حامل ہے۔

اس اسم مؤنث کے معانی ہیں: شاخ، ٹہنی، فرع، ڈنڈی، نیز آب پاشی میں مستعمل ٹوکرا یا ڈول، تلوار کا پھل، تیغِ بے قبضہ یعنی بے قبضے کی تلوار۔ آن لائن لغت ریختہ ڈکشنری کے بیان کے مطابق، (کاشت کاری) وہ قطعہ اراضی یا کھیت جو نہر کے پانی کی سطح سے اونچا ہو اور جہاں آب پاشی کے لیے پانی چڑھاؤ پرلے جانا پڑے، دیوار گیریوں یا جھاڑوں وغیرہ میں اس کُھونْٹی کو کہتے ہیں جس میں کنْول لگائے جاتے ہیں، سِکّے کی وضع کا ایک زیور جسے جوگی لوگ داہنی کلائی میں پہننے، گہنا، وسط بھارت اور مارواڑ میں بھی پہنا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک آن لائن لغت میں یہ اضافہ بھی دیکھا: بے جوڑ، سالم، بے لاوٹ;ایک قسم کے، ایک واضع قطع کے، یکساں، ہو بہو مشابہ، وہ شے جو پوری ایک ہی چیز کی بنی ہو اس میں جوڑ نہ ہو۔ لغات اور پرانی بول چال میں ڈال کا پکّا اور ڈال کا ٹُوٹا بھی مروج ومستعمل رہا ہے۔

اس سے مراد پیڑ سے پک کر گِرنے والا پھل ہے، نیز انوکھا، نادر اور قابل قدر شخص۔ عورتوں کی بولی میں ڈال والا سے مراد بندر ہوا کرتا تھا۔ بڑی، موٹی شاخ یا بہ الفاظ دِگر، گدّا، ٹہنا کو ڈالا کہتے تھے۔ ڈال دینا فعل متعدی ہے، ڈال رکھنا فعل لازم اور ڈالنا فعل متعدی۔ حرف ڈال سے شروع ہونے والے الفاظ اور دیگر ذخیرہ ہماری لغات میں محفوظ ہے، ہماری بول چال کا حصہ ہے، ہماری عوامی یا چالو بولی یعنیSlang میں بھی بہت سارے الفاظ وتراکیب، ڈال سے بنی ہوئی موجود ہیں۔

گزشتہ دنوں ہماری واٹس ایپ بزم زباں فہمی کے معزز رکن، معلم اردو، محترم عمران محمودصاحب نے خاکسار سے گفت وشنید کے بعد یہ مراسلہ اراکین بزم کے ملاحظے کے لیے پیش کیا: {اپنے تدریسی فرائض میں بہتری لانے کی غرض سے آپ کے زباں فہمی کے کالم 75 کا مطالعہ کر رہا تھا جو کہ نہایت جامع اور معاوناتی (معاون کافی ہے۔س ا ص) کالم تھا۔

ایک سطر میں آپ نے تحریر کیا کہ ”ڈ” اور یک چشمی ”ہ” سے کوئی لفظ موجود نہیں جس پر بندہ ناچیز نے اپنے شفیق استاد محترم سہیل احمد صدیقی صاحب سے رابطہ فرمایا کیونکہ میرے ذہن میں سندھ کے ایک مشہور شہر ”ڈہرکی” کا حوالہ آیا جو کہ ”ڈ” اور ”ہ” کے ملانے سے بنتا ہے۔

استاد محترم کی وسیع الظرفی (اعلیٰ ظرفی۔س ا ص) ہے کہ انہوں نے میری اس حقیر سے رائے کو کشادہ دلی سے منظور فرمایا اور ہمت دی کہ بیٹا آپ درست فرما رہے ہیں۔ اگلے پل میرے ذہن میں پنجاب کے علاقہ ڈہرانوالہ کا نام آیا جو ہماری ”ڈ” اور ”ہ” والی ضرورت کو پورا کرتا تھا۔ پھر ایک سابق وفاقی وزیر جام مہتاب ڈہر بھی تو ہماری اس کمی کو پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر جب فراق گورکھپوری کی ایک نظم (ماں کی محبت پہ لکھی) پڑھی تو اس نے تو مزید دریچے کھول دیئے۔ نظم کا مطلوبہ شعر آپ احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:

کبھی جو مجھ سے دہی بھی بچا کے رکھ نہ سکی

میں جس کے ہاتھوں میں کچھ دیکھ کر ڈہک نہ سکا

اس میں موجود لفظ ڈہک نے سب تقاضے پورے کر دیے۔ مزید اہل زبان کی رائے میرے لیے مقدم ہے۔ شکریہ}

واٹس ایپ بزم زباں فہمی کی ایک اور محترم رکن، ممتازشاعرہ محترمہ آمنہ عالم نے فرمایا کہ اردو لغت بورڈ کی لغت میں سات آٹھ مزید الفاظ ’’ڈ ہ‘‘ سے موجود ہیں۔ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ زباں فہمی کالم نمبر75 کے آخر میں منقول ایک عبارت میں یہ کہا گیا تھا کہ حرف ڈال کے ساتھ، حرف ہ نہیں آتا۔ یہ میرا اپنا قول نہیں۔

کالم کو سمیٹتے ہوئے ہم ذرا بھی نہیں بھولے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ایک مقتدر، سیاسی شخصیت مسلسل کسی بھونپو کی طرح، ذرایع ابلاغ پر یہ بیان دیتی یا داغتی ہوئی دکھائی اور سنائی دیتی ہے کہ فُلاں ڈھیل دے گا نہ ڈِیل[Deal]……. جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کا اپنا ماضی قریب ڈھیل اور ڈِیل، دونوں سے عبارت ہے اور بہت ممکن ہے کہ آیندہ لغات میں ڈِیل کے ذیل میں اُن کا ذکر بھی بطور خاص شامل ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔