بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ۔۔۔۔انتہائی تشویشناک

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 31 جولائی 2021

اگر کسی ملک میں برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی، ترسیلات زر میں اضافہ اور سرمایہ کی آمد میں اضافہ اور سرمایہ کی بیرون ملک نکاسی میں کمی ہو رہی ہو تو ایسی صورت میں ادائیگیوں کا توازن بہتر ہوتا ہے، تجارتی خسارہ نہیں ہو رہا ہوتا ہے ، ایسی صورت حال دیکھنے میں آتی رہی ہے، ان ملکوں میں روزگار کے مواقع بھی بڑھ جاتے ہیں۔

اکثر ترقی پذیر ممالک میں صورتحال برعکس ہے۔ ترقی کی خواہش کے باعث مشینریوں کی درآمدات کیپٹل گڈز کی درآمدات گاڑیوں، کرینوں، بلڈوزر اور زرعی آلات، کھاد، ادویات وغیرہ کی درآمدات کے باعث ان کا تجارتی خسارہ بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان بھی اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہے لیکن وہ ممالک جنھوں نے آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیا ہے ، ان کے برعکس پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی مضمحل اور بیمار معیشت کے لیے جو نسخہ تھمایا جاتا ہے اس پر حکومتیں دل و جان سے فدا ہوتی رہی ہیں لیکن نتیجہ برعکس ہی نکلتا رہا ہے کہ معیشت پر مزید

ناتوانی اور کمزوری کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ پاکستان جوکہ گزشتہ چھ دہائی سے بتدریج بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کا شکار ہے اب خطرناک عفریت کی صورت میں سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ تجارتی خسارہ اس طرح ہوتا ہے کہ برآمدات کا حجم کم ہونا اور درآمدات کا بڑھنا لیکن اب دگنے سے بھی زیادہ یعنی برآمدات سے دگنی مالیت کی درآمدات کے باعث تجارتی خسارہ بتدریج بھیانک شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔

اس کے علاج کے لیے ہر موقع پر آئی ایم ایف یہ نسخہ تجویز کرتا رہا ہے کہ روپے کی کم قدری کردی جائے۔ صرف چند سال قبل سے موازنہ کرلیتے ہیں جب روپے کی قدر 105 روپے فی ڈالر کے برابر تھی اور اب 160 روپے تک پہنچی ہوئی ہے۔

کیا پاکستان کی برآمدات میں کم ازکم 50 فیصد اضافہ ہوا ہے یعنی برآمدات 22 ارب ڈالر سے بڑھ کر 33 ارب ڈالر تک نہیں پہنچی۔ لہٰذا اکثر ترقی پذیر ممالک اس وجہ سے اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر آئی ایم ایف کے بعض مشوروں کو مسترد کردیتے ہیں۔ پاکستان نے بھی اسی جانب پہلا قدم اٹھاتے ہوئے حال ہی میں آئی ایم ایف کے ان مطالبات کو کہ بجلی گیس کی قیمت بڑھائی جائے ، روپے کی قدر میں زیادہ کمی کی جائے اور دیگر باتوں سے انحراف کرتے ہوئے عملدرآمد سے انکار کردیا جائے۔

بہرحال گزشتہ دنوں پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال 2020-21 جس کا اختتام 30 جون کو ہوا تھا، دراصل تفصیلی اور حتمی اعداد و شمار کے شایع ہونے میں دو سے تین ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اس طرح ہر مہینے کے آغاز کے دو تین دن میں ایک سمری برائے بیرونی تجارت پیش کردی جاتی ہے جس سے یہ اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ گزشتہ ماہ تجارتی خسارہ کتنا ہوا تھا اور درآمدات، برآمدات کی کیفیت کا اندازہ لگا لیا جاتا ہے۔ بہرحال مالی سال 2020-21 کے حتمی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا تجارتی خسارہ 31 ارب 10 کروڑ10 لاکھ ڈالرز بنتا ہے۔

باعث تشویش امر یہ ہے کہ حکومت نے ابتدائی ایام سے اس خسارے کوکنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی جو مالی سال 2019-20 کے دوران کامیاب بھی رہی یعنی مذکورہ مالی سال کا تجارتی خسارہ 23 ارب 15 کروڑ90 لاکھ ڈالرز رہیں۔ اس طرح گزشتہ مالی سال کے دوران تقریباً 8 ارب ڈالر کا مزید بوجھ پڑا ہے۔

حکام کی جانب سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس خسارے میں گندم، چینی کی درآمدات جس کی مالیت ایک ارب 20 کروڑ ڈالر بنتی ہے اس کا بھی کردار اہم رہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں اس مرتبہ کاٹن کی اچھی پیداوار نہیں ہوئی۔ اس طرح کاٹن کی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کے علاوہ مشینریوں کی درآمدات میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ ملک میں صنعتوں کو توسیع دی جا رہی ہے۔ جوکہ ایک خوش آیند بات ہے۔ماہرین نے ایک تجزیہ یہ بھی کیا ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں عالمی مارکیٹ میں فوڈز آئٹمز کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور اس وقت گزشتہ 10 سال کی بلند سطح پر موجود ہے ، اگر فوڈز آئٹمز کی قیمتوں میں اضافے کا عمل جاری رہا تو ایسی صورت میں پاکستان کے فوڈ گروپ کی درآمدات کی مالیت بڑھے گی۔

پہلے ہی حکومت نے گندم اور چینی کی درآمد کا عندیہ دے رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ رواں مالی سال پاکستان میں کتنی رقوم کی درآمد کی توقع ہے۔ اس سلسلے میں جمعرات کو ایک اجلاس میں بیرون ملک سے رقوم کی درآمد کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ بیرون ملک سے مجموعی طور پر رقوم کی آمد کا حجم 87.3 ارب ڈالر رہے گا۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام فی الحال معطل ہے جب کہ حکومت کو امید ہے کہ یہ پروگرام جلد بحال ہو جائے گا۔

کئی عوامل ایسے ہیں جوکہ پاکستان کے برآمدی حجم کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت کا ہے۔ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر برآمدات میں کمی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں سیکیورٹی کے مسائل کے باعث صورتحال پیچیدہ ہو رہی ہے اور سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے۔

اس کے علاوہ کورونا وبا کی موجودہ لہر بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ جس کے معیشت پر مہیب اثرات مرتب ہوں گے۔ تیل کی قیمت میں اضافہ فوڈز گروپ کی مختلف اشیا و اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، عالمی مارکیٹ میں مشینریوں، موٹر وہیکلز، کھاد، ادویات، ربڑ، پلاسٹک، آئرن اور دیگر کئی بہت سی ایسی اشیا و مصنوعات جو پاکستان درآمد کرتا ہے، ان کی قیمتوں میں اضافے سے درآمدی بل توقع سے زیادہ بڑھے گا۔

برآمدات کا حجم جوکہ افغانستان کی صورتحال سے متاثر ہے اس میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ چین کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں پاکستانی برآمدات کی مالیت کو بڑھانے پر زور دیا جائے تاکہ چین کے لیے پاکستانی برآمدات بڑھائی جائیں تاکہ بالآخر نتیجتاً ملکی تجارتی خسارے کے حجم کو رواں مالی سال میں کنٹرول کیا جاسکے۔ بصورت دیگر پاکستانی عوام ہی اس طرح متاثر ہو کر رہیں گے کہ بالآخر مہنگائی اور بے روزگاری پہلے سے زیادہ بڑھے گی۔ کیونکہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ انتہائی تشویش ناک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔