کشمیر کے انتخابات اور مسلم لیگ ن کا بیانیہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 31 جولائی 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

آزاد کشمیرکے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے 4لاکھ91 ہزار 590 ووٹ حاصل کیے۔ تحریک انصاف نے 6 لاکھ 13 ہزار 590 ووٹ حاصل کیے۔ تحریک انصاف کو 25 نشستیں ملیں ، مسلم لیگ ن صرف 6 نشستیں حاصل کرسکی۔ مسلم لیگ ن کشمیری مہاجرین کی پنجاب کی نشستیں بھی حاصل نہ کرسکی۔

انتخابی نتائج کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کئی نشستوں پر چند سو ووٹوں سے ہار گئی۔ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نوازکے جلسوں میں حاضرین کی تعداد تاریخی تھی۔ تحریک انصاف کے جلسوں میں شرکاء کی تعداد کم تھی۔ اب پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن سیالکوٹ کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر بڑے جلسے کرنے کے باوجود شکست کھا گئی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کا ایجنڈا اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی عمران خان ہے اور اپنے اس بیانیہ کی بناء پر مسلم لیگ ن قیامت تک کسی انتخابات میں کامیاب نہیں ہوگی۔

مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر مصدق ملک کہتے ہیں کہ ان کی جماعت نے پنجاب کے تمام ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ پنجاب ، خیبر پختون خوا اورکشمیر کے عوام نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ ہیں۔ آزاد کشمیر کے انتخابات کے بارے میں جو اطلاعات اخبارات کی زینت بنیں، ان کے مطابق الیکشن کمیشن کی رٹ کمزور ہوئی۔ کشمیر کی انتظامیہ نے انتخابات کو مینیج کیا۔

چیف الیکشن کمشنر نے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کرکشمیر سے نکل جانے کے احکامات جاری کیے تھے مگر وفاقی وزیر دوسرے ہی دن اپنے قائد عمران خان کے جلسہ میں دھواں دھار تقریر فرما رہے تھے۔ گنڈا پور نے بھٹو اور شریف خاندان کے بارے میں جو زبان استعمال کی تھی اس سے تقاریر کا معیار مجموعی طور پرگرا اور وادی میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ مسلم لیگ ن کا ارتقا دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف ہے۔ میاں نواز شریف کا تعلق ایک صنعتکار خاندان سے ہے۔

پنجاب کے سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی نے میاں نواز شریف کو اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے تو محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم اور میاں نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا تھا۔  1988میں جب پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن بے نظیر بھٹو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوگئیں تو میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے اور ملک کی تاریخ میں وفاق اور صوبہ میں ایک زبردست لڑائی ہوئی۔تب ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا اور پنجاب میں علیحدہ ٹیلی وژن اسٹیشن قائم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔

غلام اسحاق خان نے جب پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن  بے نظیر کی حکومت کو برطرف کرتے  ہوئے عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تھا تو اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ غلام مصطفی جتوئی کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ سیاسی مبصرین اس وقت پیشگوئی کررہے تھے کہ غلام مصطفی جتوئی نئے وزیر اعظم ہونگے مگر پنجاب کے صنعتکاروں اور مڈل کلاس نے میاں نواز شریف کو اپنا نمایندہ بنایا اور میاں صاحب پہلی دفعہ وزیر اعظم بن گئے۔ ان کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی محسوس ہوا کہ وہ بااختیار وزیر اعظم نہیں ہیں۔

پنجاب کے صنعتکاروں کو نئی منڈیوں کی تلاش تھی۔ بھارت میں پاکستان کی مصنوعات کی کھپت کے خاصے امکانات تھے۔ میاں نواز شریف نے اپنے اختیارات استعمال کرنے شروع کیے جس کے بعد صدر غلام اسحاق خان سے تضادات بڑھ گئے اور اس رسہ کشی کے نتیجے میں دونوں اپنے گھروں کو چلے گئے۔ میاں نواز شریف کے پاس مسلم لیگ موجود تھی۔ پنجاب کی بیوروکریسی اور صنعتکاروں کی حمایت حاصل تھی، یوں وہ دوبارہ ایک جدوجہد کے بعد 1997 میں وزیر اعظم بن گئے۔ میاں نواز شریف نے اس دفعہ بھارت سے دوستی کے لیے جامع اقدامات کیے۔

بھارت کے وزیر اعظم واجپائی نے لاہور میں مینار پاکستان پر حاضری دی اور دہلی سے لاہور تک دوستی بس چلنے لگی، مگر جنرل پرویز مشرف نے کارگل کا محاذ کھولا اور پھر میاں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف اور ان کے دیگر ساتھی ایک سال سے زائد عرصہ تک اٹک قلعہ اور لانڈھی جیل میں بند رہے۔  انھیں طیارہ ہائی جیکنگ کے مقدمہ میں عمر قید کی سزا ہوئی۔ لانڈھی جیل میں انھوں نے مشکل دن آصف علی زرداری کے ساتھ گزارے مگر بعدازاں شریف خاندان سعودی عرب ہجرت کرگیا۔ میاں نواز شریف 2005میں جلاوطنی ختم کر کے واپس آئے۔

انھوں نے 2005 میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے ساتھ تاریخی میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا۔ وہ 2013 میں تیسری دفعہ برسر اقتدار آئے۔ میاں نواز شریف نے پھر اپنی پرانی پالیسیوں پر کھلے دل سے عمل کیا۔ ان کے خلاف مختلف نوعیت کے محاذ بنوائے گئے  وہ پاناما اسکینڈل میں پھنسے اور سزا پائی۔ وہ جیل میں بیمار ہوئے اور علاج کے لیے لندن چلے گئے مگر اس دفعہ کی صورتحال 1999کی صورتحال سے خاصی مختلف ہے۔ مسلم لیگ ن نے حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کو ملا کر PDM کا تجربہ کیا جو ناکام ہوا۔ مسلم لیگ ن نے جمعیت علماء اسلام سے اتحاد کو مضبوط کیا جو افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں بین الاقوامی منظرنامہ میں منفی بات سمجھی جاتی ہے۔

مریم نواز شریف پرجوش انداز میں’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے بیانیہ کی ترویج میں مصروف ہیں۔ میاں نواز شریف کا فوری طور پر ملک آنے کا ارادہ نہیں ہے، یوں مسلم لیگ ن کے بیانیہ میں ابہام کی صورتحال ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے اس بیان کہ نواز شریف کا بیانیہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی عمران ہے اور وہ کبھی اقتدار میں نہیں آئیں گے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے لیے معافی کا فی الحال کوئی راستہ نہیں ہے۔ میاں نواز شریف کو اسی طرح کا فیصلہ کرنا ہوگا جیسا فیصلہ 1978 میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو نے کیا تھا۔

اس وقت بیگم نصرت بھٹو کا واضح بیانیہ تھا کہ 1973 کے آئین کی بحالی تک جدوجہد جاری رہے گی۔ اس بیانیہ سے خوفزدہ ہونے والے مولانا کوثر نیازی، یاسین وٹو اور حامد رضا گیلانی وغیرہ کو پیپلز پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی تھی اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے 10سال تک تاریخی جدوجہد کی تھی۔

اس جدوجہد میں بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو قیدِ تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔ کارکنوں نے جانیں تک قربان کیں، ہزاروں لوگوں نے کوڑے کھائے مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کا واضح بیانیہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء قبول نہیں ہے، اگر میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کے واضح بیانیہ کو مرتب نہیں کیا تو وہ بااثر افراد جنھیں امید تھی کہ مسلم لیگ ن اقتدار کی سند کو پانے والی ہے مگر اب خدشہ ہے کہ یہ بااثر افراد دیگر جماعتوں کی طرف بڑھنے لگیں گے ۔

میاں نواز شریف اور مریم نواز کا شمار ملک کے مقبول ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کی افغانستان کے اعلیٰ عہدے دار  سے ملاقات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آج بھی بین الاقوامی منظر نامہ میں اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہیں اور ووٹ کو عزت دو کے نعرہ کو عملی جدوجہد میں تبدیل کرتے ہیں تو پارلیمنٹ کی ریاستی اداروں پر بالادستی کی جدوجہد ضرورکامیاب ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔